Daily Ausaf:
2025-07-26@15:22:57 GMT

نرملا سیتارامن کی ساڑھی کا رنگ بجٹ کی شناخت کیسے کرتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) نرملا سیتارامن کی ساڑھی کا رنگ بجٹ کی شناخت کیسے کرتا ہے؟

ایپ میں تصاویر 

ہر بجٹ خصوصی ہوتا ہے اور اس سے ملک کی ترقی  کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کی ساڑھی ان تمام نشانیوں سے جڑی ہوئی ہے۔

ایپ میں تصاویر 

آئیے جانتے ہیں کہ گزشتہ 7 بار بجٹ پیش کرنے کے لیے وزیر خزانہ نے کس رنگ کی ساڑھی پہنی اور اس کا کیا پیغام تھا؟

ایپ میں تصاویر 

سال 2019 میں ہندوستان کی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے گلابی رنگ کی ساڑھی پہن کر بجٹ پیش کیا۔ گلابی رنگ کو استحکام اور سنجیدگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

ایپ میں تصاویر 

سال 2020 میں وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے پیلے رنگ کی ساڑھی میں عام بجٹ پیش کیا۔ پیلا رنگ جوش اور توانائی کی علامت ہے۔

ایپ میں تصاویر 

سال 2021 کے عام بجٹ کے دوران نرملا سیتارامن نے سرخ رنگ کی سا ڑھی پہن کر بجٹ پیش کیا۔ سرخ رنگ کو طاقت اور عزم کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

ایپ میں تصاویر 

سال 2022 میں بجٹ کی پیشکشی کے دوران وزیر خزانہ نرملا سیتارام ن نے بھورے رنگ کی ساڑھی پہنی تھی۔ یہ رنگ تحفظ کی علامت ہے۔

ایپ میں تصاویر 

سال 2023 میں ملک کی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے سرخ اور کال ی ساڑھی میں بجٹ پیش کیا۔ یہ رنگ ہمت اور طاقت کی علامت ہے۔

ایپ میں تصاویر 

سال 2024 کے عبوری بجٹ کے دوران وزیر خزانہ نرملا سیتارامن کو نیلے رنگ کی ساڑھی میں دیکھا گیا تھا۔ اسے پرسکون رنگ بھی سمجھا جاتا ہے۔

ایپ میں تصاویر 

وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے 2024-25 کا مکمل بجٹ پیش کرنے کے لیے میجنٹا بارڈر والی آف وائٹ ساڑھی پہنی تھی، یہ رنگ جذباتی توازن برقرار رکھتا ہے۔
مزیدپڑھیں:معاون امریکی وزیر خارجہ ڈونلڈ لو مدت مکمل ہونے پر عہدے سے سبکدوش

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بجٹ پیش کیا کی علامت

پڑھیں:

فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ ! 

انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اﷲ تعالیٰ کی عبادت ہے اور اس عبادت کا اصل مفہوم صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ یا حج کے چند ظاہری اعمال نہیں بل کہ بندے کے دل و دماغ، نیت، فکر اور ارادے کی اصلاح بھی ہے جو کہ ’’اصلاحِ نفس‘‘ کے جامع عنوان میں سمٹتی ہے۔

اسلام صرف ظاہر پر زور دینے والا دین نہیں بل کہ وہ باطن کی صفائی، قلبی طہارت، نیت کی درستی اور شخصیت کی اندرونی تعمیر پر نہایت شدّت سے زور دیتا ہے۔ انسان کا نفس اگر سنور جائے، اس کے باطن میں تقویٰ اور طہارت پیدا ہو جائے تو اس کا ظاہر خود بہ خود سنور جاتا ہے۔ اس لیے قرآن و سنت میں اصلاحِ نفس کو دین کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کام یاب ہوگیا۔ اور بے شک جس نے نفس کو گناہوں میں چھپا دیا وہ ناکام ہوگیا۔‘‘ (سورۃ الشمس) اس آیت کریمہ میں کام یابی اور ناکامی کا مدار صرف تزکیۂ نفس پر رکھا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اپنے نفس کو گندگی سے پاک کرے، وہی اصل فلاح پانے والا ہے اور جو نفس کی خواہشات کا غلام بن جائے اور اس کے تقاضوں کے سامنے سرنگوں ہو جائے، وہ اﷲ کے ہاں ناکام و نامراد ہے۔

اصلاحِ نفس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو جن تین بنیادی مقاصد کے لیے مبعوث فرمایا، ان میں سے ایک نمایاں مقصد تزکیہ ہے۔ فرمانِ الٰہی کا مفہوم ہے: ’’وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انھی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اﷲ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتا ہے۔‘‘ (سورۃ الجمعۃ)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی بعثت کا مقصد صرف تعلیم نہیں بل کہ باطنی تطہیر بھی ہے، جس کے بغیر محض علم فائدہ نہیں دیتا۔ نبی کریم ﷺ نے اصلاحِ نفس کی عملی تعلیم اپنے صحابہؓ کو دی۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے، مفہوم: ’’خبردار! بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا بدن صحیح ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار! وہ دل ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ نفس کی اصلاح دل کی اصلاح پر موقوف ہے کیوں کہ دل ہی نیّت، ارادے اور فکر کا مرکز ہے اور اگر وہ فساد سے پاک نہ ہو تو ظاہری اعمال بے فائدہ ہو جاتے ہیں۔

اصلاحِ نفس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ نفسِ امّارہ ہے جو انسان کو برائی کی طرف کھینچتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے، مفہوم: ’’بے شک! نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے۔‘‘ (سورۃ یوسف) انسان جب تک اپنے نفس کی تربیت نہ کرے، وہ خواہشات کی غلامی میں مبتلا رہتا ہے جس کا نتیجا یہ نکلتا ہے کہ وہ اﷲ کی نافرمانی میں ڈوب جاتا ہے۔ اصلاحِ نفس دراصل اس جہاد کا نام ہے جس میں بندہ اپنے اندرونی دشمن یعنی اپنے نفس کی مخالفت کرتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے تربیت کی بہت سی عملی صورتیں صحابہ کرامؓ کو سکھائیں۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں آکر عرض کیا: حضور ﷺ مجھے وصیت فرمائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کرو۔‘‘ (صحیح بخاری) یعنی غصہ بھی نفس کی ایک بڑی بیماری ہے جو آدمی کو ظلم، فحش گوئی اور فساد پر آمادہ کرتی ہے۔ نبی ﷺ کی تعلیم یہ تھی کہ نفس کو قابو میں رکھو، اپنے جذبات پر کنٹرول سیکھو اور دوسروں کو ایذا نہ دو۔ یہی اصلاحِ نفس ہے۔

اسی طرح قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’اور نفس کی اور اس کے درست بنانے کی قسم، پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں ڈالی۔‘‘ (سورۃ الشمس) یعنی انسان کے اندر نیکی اور بدی کا شعور فطری طور پر موجود ہے، اب اس پر لازم ہے کہ وہ بدی کو چھوڑ کر تقویٰ کی راہ اپنائے اور یہ وہی اصلاحِ نفس ہے جس کا حکم اﷲ نے دیا ہے۔

اصلاحِ نفس صرف عبادات کا نام نہیں بل کہ وہ ایک مسلسل جہاد ہے جس میں انسان اپنے اخلاق، اپنی نیت، اپنے معاملات، اپنے غصے، حسد، بخل، تکبر، ریا اور ہر اُس چیز سے لڑتا ہے جو اﷲ کی رضا سے دور کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔‘‘ (سنن ترمذی) یعنی جہاد انسان کے اندر بھی ہے، وہ نفس کے تقاضوں کو دبانا اور اﷲ کی رضا کو ترجیح دینا ہے۔

علماء نے لکھا ہے کہ اصلاحِ نفس کے لیے سب سے پہلی شرط اخلاص ہے۔ بندہ جو بھی عمل کرے، محض اﷲ کے لیے کرے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) اس حدیث کی روشنی میں اگر انسان کے دل میں اﷲ کی رضا کی نیت ہو تو اس کا ہر عمل اصلاح کا ذریعہ بنتا ہے اور اگر نیت خراب ہو تو بڑا عمل بھی ریاکاری بن جاتا ہے۔ اصلاحِ نفس کی ایک بڑی علامت تواضع و انکساری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اﷲ کے لیے تواضع (عاجزی) اختیار کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اسے بلند مقام عطا فرماتا ہے۔‘‘ (مسند احمد) تکبر، نفس کی سب سے ہلاکت خیز بیماری ہے۔ شیطان اسی غرور کا شکار ہُوا اور ہمیشہ کے لیے مردود ہوگیا۔ اس لیے انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے نفس کو عاجزی پر مجبور کرے تاکہ اﷲ کی رضا نصیب ہو۔

رسول اﷲ ﷺ کی سیرت اصلاحِ نفس کا مکمل نصاب ہے۔ آپ ﷺ کا ہر عمل، حکم اور ارشاد ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ بندہ کس طرح اپنے باطن کو سنوارے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد) اور خیر خواہی اسی وقت ممکن ہے جب انسان کا نفس صاف ہو، اس میں بغض، حسد، خود غرضی اور نفرت نہ ہو۔

اصلاحِ نفس کے لیے ذکرِ الٰہی، توبہ و استغفار اور صحبتِ صالحین کو انتہائی مؤثر ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’اے ایمان والو! اﷲ کو بہت زیادہ یاد کرو۔‘‘ (سورۃ الاحزاب) ذکرِ الٰہی نفس کو جِلا دیتا ہے، اس کی گندگی دھوتا ہے اور اسے اﷲ کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اسی طرح توبہ بھی ایک باطنی غسل ہے جو انسان کو گناہوں کی غلاظت سے پاک کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر انسان خطا کرتا ہے اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔‘‘ (سنن ترمذی) اسی طرح صحبتِ صالحین بھی اصلاحِ نفس کا مؤثر ذریعہ ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔‘‘ (سنن ابی داؤد) نیک لوگوں کی صحبت انسان کے باطن کو سنوارتی ہے اور بُرے لوگوں کی صحبت نفس کو مزید خراب کرتی ہے۔

اصلاحِ نفس ایک مسلسل جدوجہد ہے، یہ کوئی وقتی عمل نہیں۔ یہ زندگی کے ہر شعبے میں درکار ہے۔ عبادات میں اخلاص، معاملات میں دیانت، اخلاق میں حلم و بردباری، زبان میں سچائی، دل میں خوفِ خدا اور زندگی کے ہر فیصلے میں تقویٰ، نفس کی اصلاح کے بغیر دین کا کوئی شعبہ مکمل نہیں ہوتا۔

انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت، خاص طور پر رسول اﷲ ﷺ کی زندگی اصلاحِ نفس کی زندہ مثال ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف خود ہر مرحلے پر اپنے نفس کو اﷲ کی رضا کے تابع رکھا بل کہ صحابہ کرامؓ کو بھی ایسی تربیت دی کہ وہ اپنی خواہشات پر قابو پا سکیں۔ ’’اپنے نفوس کا محاسبہ کرو، قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔‘‘ (سنن ترمذی)

الغرض یہ بات طے شدہ ہے کہ کام یابی کا راز نفس کی اصلاح میں ہے۔ دنیاوی فلاح، دینی پاکیزگی اور اخروی نجات کا دار و مدار اسی پر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! وہی کام یاب ہُوا جس نے اپنا تزکیہ کیا۔‘‘ (سورۃ الاعلیٰ) لہٰذا ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اپنے نفس کا محاسبہ کریں، اس کی بیماریوں کو پہچانیں، انھیں قرآن و سنت کے طریقے سے دور کریں اور اپنی زندگی کو تقویٰ، تواضع، اخلاص، ذکر اور توبہ سے بھر دیں۔ تبھی ہم ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں گے جن کے متعلق اﷲ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو خواہشات سے روکا تو جنت اس کا ٹھکانا ہے۔‘‘ (النازعات)

اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگی میں نفس کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے اور باطنی پاکیزگی کے ساتھ دنیا سے رخصت کرے تاکہ ہم جنّت کے ان وارثین میں شامل ہو سکیں جن کا وعدہ قرآن میں کیا گیا ہے۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • سستے گھروں کی تعمیر کے لیے  سکیم کی منظوری   
  • الہیٰ خزانہ۔۔۔ ظلم کے تقدّس کے خلاف معاصر عہد کا ایک وصیّت نامہ(1)
  • وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کا بنوں میں دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنانے پرپولیس جوانوں کی تحسین
  • فساد قلب و نظر کی اصلاح مگر کیسے۔۔۔۔۔ ! 
  • پاکستان او آئی سی کی شراکت داری کا حد درجے احترام کرتا ہے، اسحاق ڈار
  • شک کی بنیاد پر کسی کو ٹیکس فراڈ کیس میں گرفتار نہ کرنے کی سفارش
  • پاکستان سنجیدہ مذاکرات کی دعوت دے چکا ، اب فیصلہ بھارت کو کرنا ہوگا، دفتر خارجہ
  • پاکستان سنجیدہ مذاکرات کی دعوت دے چکا، اب فیصلہ بھارت کو کرنا ہوگا، دفتر خارجہ
  • سوات: مدرسے کے مہتمم کا بیٹا مقتول فرحان سے ناجائز مطالبات کرتا تھا، چچا
  • پاکستان مسئلہ فلسطین کیلئے اصولی موقف اور یکجہتی کے عزم کا اعادہ کرتا ہے، اسحاق ڈار