نرملا سیتارامن کی ساڑھی کا رنگ بجٹ کی شناخت کیسے کرتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) نرملا سیتارامن کی ساڑھی کا رنگ بجٹ کی شناخت کیسے کرتا ہے؟
ہر بجٹ خصوصی ہوتا ہے اور اس سے ملک کی ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کی ساڑھی ان تمام نشانیوں سے جڑی ہوئی ہے۔
آئیے جانتے ہیں کہ گزشتہ 7 بار بجٹ پیش کرنے کے لیے وزیر خزانہ نے کس رنگ کی ساڑھی پہنی اور اس کا کیا پیغام تھا؟
سال 2019 میں ہندوستان کی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے گلابی رنگ کی ساڑھی پہن کر بجٹ پیش کیا۔ گلابی رنگ کو استحکام اور سنجیدگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
سال 2020 میں وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے پیلے رنگ کی ساڑھی میں عام بجٹ پیش کیا۔ پیلا رنگ جوش اور توانائی کی علامت ہے۔
سال 2021 کے عام بجٹ کے دوران نرملا سیتارامن نے سرخ رنگ کی سا ڑھی پہن کر بجٹ پیش کیا۔ سرخ رنگ کو طاقت اور عزم کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
سال 2022 میں بجٹ کی پیشکشی کے دوران وزیر خزانہ نرملا سیتارام ن نے بھورے رنگ کی ساڑھی پہنی تھی۔ یہ رنگ تحفظ کی علامت ہے۔
سال 2023 میں ملک کی وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے سرخ اور کال ی ساڑھی میں بجٹ پیش کیا۔ یہ رنگ ہمت اور طاقت کی علامت ہے۔
سال 2024 کے عبوری بجٹ کے دوران وزیر خزانہ نرملا سیتارامن کو نیلے رنگ کی ساڑھی میں دیکھا گیا تھا۔ اسے پرسکون رنگ بھی سمجھا جاتا ہے۔
وزیر خزانہ نرملا سیتارامن نے 2024-25 کا مکمل بجٹ پیش کرنے کے لیے میجنٹا بارڈر والی آف وائٹ ساڑھی پہنی تھی، یہ رنگ جذباتی توازن برقرار رکھتا ہے۔
مزیدپڑھیں:معاون امریکی وزیر خارجہ ڈونلڈ لو مدت مکمل ہونے پر عہدے سے سبکدوش
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بجٹ پیش کیا کی علامت
پڑھیں:
وفاقی وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے جاری کر دیا، معاشی استحکام کی جانب پیش رفت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے قومی اقتصادی سروے 2024-25 جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی معیشت استحکام کی جانب گامزن ہے، رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی گروتھ 2.7 فیصد رہی جبکہ افراط زر کی شرح کم ہو کر 4.6 فیصد پر آ گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ برس پالیسی ریٹ 22 فیصد تھا جو اب کم ہو کر 11 فیصد ہو چکا ہے، یہ شرح نصف سے بھی کم ہونا معیشت میں بہتری کا واضح اشارہ ہے، وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے آئی ایم ایف سے ایس بی اے پروگرام حاصل کیا، جسے نگران وزیر خزانہ نے ٹریک پر رکھا، یہ ان کی قابل تحسین کاوش ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب پانچ سال کی بلند ترین سطح پر ہے، اور ایف بی آر میں اصلاحات کے ذریعے محصولات میں اضافہ ہوا ہے،معیشت کے ڈی این اے کو تبدیل کرنے کیلئے اصلاحات ناگزیر تھیں، پاور سیکٹر میں ایک سال میں تاریخی بہتری آئی، تقسیم کار کمپنیوں کی گورننس میں بھی نمایاں اصلاحات ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کا بنیادی مقصد میکرو اکنامک استحکام ہے، اور اس حوالے سے پاکستان نے عالمی سطح کے مقابلے میں بہتر ریکوری کی، عالمی سطح پر مہنگائی 6.8 فیصد سے گھٹ کر 0.3 فیصد پر آ گئی ہے جبکہ پاکستان میں افراط زر 4.6 فیصد پر آ چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ رواں مالی سال زرمبادلہ کے ذخائر میں شاندار اضافہ ہوا ہے، اب ہمارا ہدف جی ڈی پی میں استحکام لانا ہے اور ہم درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، حالیہ آئی ایم ایف قسط کے حصول میں مشکلات پیش آئیں، بھارتی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی، لیکن عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کاکہنا تھا کہ مقامی وسائل کا فروغ حکومت کی ترجیح ہے، تعمیراتی شعبے میں گروتھ 1.3 فیصد رہی جو گزشتہ برس 3 فیصد تھی، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ گروتھ 1.5 فیصد، جبکہ ٹیکسٹائل سیکٹر میں 2.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
سینیٹر محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہزرعی شعبے کی کارکردگی مایوس کن رہی، اہم فصلوں کی پیداوار میں مجموعی طور پر 13.49 فیصد کمی آئی، کپاس میں 30 فیصد، گندم میں 8.9 فیصد اور گنے میں 3.9 فیصد کمی ہوئی، مکئی میں 15.4 فیصد اور چاول میں 1.4 فیصد کمی دیکھی گئی۔ تاہم آلو کی پیداوار میں 11.5 فیصد اور پیاز میں 15.9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اقتصادی سروے کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی گروتھ 4.5 فیصد، فارماسوٹیکل 2.3 فیصد اور کیمیکل کی گروتھ میں 5.5 فیصد کمی ہوئی۔ کان کنی و کھدائی کی گروتھ 3.4 فیصد رہی۔
تعلیم کے شعبے میں جولائی تا مارچ 0.8 فیصد جی ڈی پی خرچ ہوا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے 61.1 ارب روپے مختص کیے گئے۔ مجموعی شرح خواندگی 60.6 فیصد رہی، مردوں کی شرح 68 اور خواتین کی 52.8 فیصد رہی۔
ملک بھر میں یونیورسٹیوں کی تعداد 269 ہے، جن میں 160 سرکاری اور 109 نجی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ اسکل ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 60 ہزار سے زائد نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں تربیت دی گئی۔
ماحولیاتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسز میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ حالیہ برسوں میں سیلاب سے 3.3 کروڑ افراد متاثر ہوئے اور 15 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ سال 2024 کا اوسط درجہ حرارت 23.52 ڈگری ریکارڈ کیا گیا اور بارشوں میں 31 فیصد اضافہ ہوا۔