ٹرمپ کی اسرائیل کو 2 ہزار پاؤنڈ وزنی بم فراہم کرنے کی اجازت
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
صحافیوں نے صدر ٹرمپ سے سوال کیا کہ اسرائیل کو بم فراہمی پر عائد پابندی کیوں ہٹا رہے ہیں؟ جس پر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے یہ خریدے ہیں، اس لیے پابندی ہٹائی ہے۔ عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو 2 ہزار پاؤنڈ وزنی بموں کی فراہمی روک دی تھی۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو 2 ہزار پاؤنڈ وزنی بم فراہم کرنے کی اجازت دے دی۔ عرب میڈیا کے مطابق ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل کو آج ہی یہ دیں گے، وہ طویل عرصے سے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ صحافیوں نے صدر ٹرمپ سے سوال کیا کہ اسرائیل کو بم فراہمی پر عائد پابندی کیوں ہٹا رہے ہیں؟ جس پر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے یہ خریدے ہیں، اس لیے پابندی ہٹائی ہے۔ عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو 2 ہزار پاؤنڈ وزنی بموں کی فراہمی روک دی تھی۔
عرب میڈیا کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے غزہ میں شہریوں پر اسرائیلی بمباری پر بموں کی فراہمی روکی تھی، نیتن یاہو نے امریکی صدر ٹرمپ سے اسرائیلی حمایت کرنے پر اظہار تشکر کیا ہے۔ نیتن یاہو نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اسرائیلی دفاع کے لیے حمایت پر صدر ٹرمپ آپ کا شکریہ۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ اپنے مشترکہ دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری آلات دینے کا وعدہ پورا کرنے کا شکریہ۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیل کو 2 ہزار پاؤنڈ وزنی بم کہ اسرائیل عرب میڈیا کہا کہ
پڑھیں:
حماس رہنما جنگ بندی پر راضی نہیں، وہ مرنا چاہتے ہیں اور اسکا وقت آگیا؛ ٹرمپ کی دھمکی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ حماس، غزہ میں جنگ بندی نہیں چاہتا اور اب ان کے رہنما شکار کیے جائیں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے، حماس دراصل معاہدہ کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ مجھے لگتا ہے وہ (حماس رہنما) مرنا چاہتے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ حماس کے رہنما اب شکار کیے جائیں گے۔
ادھر اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے بھی دھمکی دی ہے کہ غزہ جنگ بندی نہ ہونے کے بعد اسرائیل اب ’’متبادل راستے‘‘ اپنائے گا تاکہ باقی مغویوں کی بازیابی اور غزہ میں حماس کی حکمرانی کا خاتمہ کیا جاسکے۔
خیال رہے کہ امریکا اور اسرائیل یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب ان دونوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات سے اپنے نمائندے واپس بلالیے ہیں۔
دوسری جانب حماس کے سیاسی رہنما باسم نعیم نے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف پر الزام لگایا کہ وہ مذاکرات کی اصل نوعیت کو مسخ کر رہے ہیں۔
حماس رہنما نے الزام عائد کیا کہ غزہ جنگ بندی پر امریکی موقف میں تبدیلی دراصل اسرائیل کی حمایت اور صیہونی ایجنڈا پورا کرنے کے لیے کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ دوحہ میں مجوزہ غزہ جنگ بندی کے تحت 60 روزہ جنگ بندی، امداد کی بحالی اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی مغوی رہائی پر اتفاق کرنا تھا۔
تاہم اسرائیل کے فوجی انخلا اور 60 دن بعد کے مستقبل پر اختلافات ڈیل کی راہ میں رکاوٹ بنے۔