Nai Baat:
2025-11-04@02:31:57 GMT

1857 اور طوفان الاقصیٰ!

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

1857 اور طوفان الاقصیٰ!

’’1857 اور طوفان الاقصیٰ‘‘ کے نام سے یہ کالم میں نے 27 نومبر 2023 کو لکھا تھا جب طوفان الاقصیٰ کو شروع ہوئے صرف پچاس دن ہوئے تھے۔ اس وقت دور دور تک اس معرکے کے حتمی نتائج کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کا میڈیا اور تجزیہ کار حماس کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے اور اہل فلسطین کی تباہی و بربادی کے نوحے لکھ رہے تھے۔ تب میں نے لکھا تھا کہ زندہ قوموں کی تاریخ میں 1857 اور 7 اکتوبر 2023 جیسے واقعات ضرور آتے ہیں اور یہی واقعات کسی قوم کی آزادی یا غلامی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 کے اقدام کا فیصلہ تاریخ نے کرنا اور آج 470 دن گزرنے کے بعد تاریخ کا فیصلہ 8 ارب انسانوں کے سامنے بکھرا پڑا ہے۔ اس فیصلے کے مزید نتائج آنا ابھی باقی ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ اسرائیلی میڈیا سمیت دنیا بھر کا میڈیا اسرائیل کی شکست کو تسلیم کر چکا ہے اور حماس واہل فلسطین کے جذبوں نے دیکھنے والی آنکھوں اور سوچنے والے دماغوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ میں پرانی تحریر کو دہرانے پر قارئین سے معذرت خواہ ہوں لیکن نئی خامہ فرسائی سے بہتر تھا کہ تاریخ کی گواہی کو قارئین کے سامنے رکھ دیا جائے۔

1857 کا معرکہ تاریخ کے صفحات پر کس نام سے درج ہے غدر یا جنگ آزادی؟ اگر یہ سوال 1857 یا اس سے ایک دو سال بعد کیا جاتا تو شاید کسی کے پاس اس کا حتمی جواب نہ ہوتا لیکن آج ایک سو چھیاسٹھ سال بعد تاریخ اس قضیے کو طے کر چکی ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ یہ معرکہ صرف معرکہ نہیں بلکہ یہ تحریک پاکستان کی شروعات تھی۔ یہ معرکہ صرف معرکہ یا غدر نہیں بلکہ ہندوستان کی آزادی کی پہلی منظم کوشش اور پہلی جنگ آزادی تھی۔ مؤرخ، جج، صحافی، تجریہ کار، سیاستدان، عالم دین اور برصغیر میں رہنے والا عام انسان اس حقیقت سے آگاہ ہے اگر برصغیر کی تاریخ میں 1857 نہ آتا تو شاید ہندوستان آج بھی سلطنت برطانیہ کے زیر نگین ہوتا اور شاید آج پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو الگ ملک بھی نہ ہوتے۔ 1857 کے حوالے سے آج تک جتنا لٹریچر شائع ہوا سب میں اسے جنگ آزادی کا عنوان دیا گیا۔ اگرچہ تاریخ میںکچھ ایسے کردار بھی سامنے آئے جنہوں نے اس معرکے کو جنگ آزادی کی بجائے غدر کا عنوان دیا مگر تاریخ نے ان کرداروں اور ان کے دئیے گئے عنوانات کو کبھی پذیرائی نہیں بخشی۔ مثلاً سر سید احمد خان دو قومی نظریہ کے بانیوں میں سے تھے، ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ان کی قربانیوں اور دردمندی کا زمانہ گواہ ہے مگر ان کے نامہ اعمال میں ایک غلطی ایسی تھی جو ہر عہد میں نمایاں رہی اور نہ جانے کب تک ان کا پیچھا کرتی رہے گی۔ 1857 کا معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ سر سید احمد خان قلم کاغذ تھام کر اس کے اسباب لکھنا شروع ہو گئے۔ انہوں نے 1857 کی جنگ آزادی کو غدر کا نام دے دیا اور رسالہ ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھ کر برطانوی حکومت کو مطمئن کرنے کی کوششیں شروع کر دی۔ انگریز ان کی کوششوں سے تو مطمئن نہ ہوا البتہ اس نے چن چن کر مسلمانوں کو شہید کرنا شروع کر دیا۔ سر سید احمد خان نے اپنے تئیں معاملات کی توجیہ اور وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں وہ انتہا پر چلے گئے اور اس انتہا پر پہنچ کر ان سے وہ غلطی ہوئی جو تاحال ان کا پیچھا کر رہی ہے اور نہ جانے کب ان کے نامہ اعمال میں کھٹکتی رہے گی۔ اس غلطی نے بہت سارے اہل علم کو ان کے بارے میں سوئے ظن مبتلا کر دیا۔ بہر حال ہم واپس آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف، سر سید احمد خان ہوں یا کوئی اور جس نے بھی 1857 کی جنگ آزادی کو غدر کا عنوان دیا تاریخ نے ان کو پذیرائی نہیں بخشی۔

قوموں کی تاریخ میں بعض لمحات ایسے آتے ہیں جب انہیں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ انہوں نے طاقت کے سامنے سرنڈر کر کے اپنے اور اپنی نسلوں کے لیے غلامی کے طوق کو قبول کرنا ہے یا اپنی مقدور بھر طاقت جمع کر کے آزادی کے بھجتی چنگاری کو سلگاتے رہنا ہے۔ اہل فلسطین نے طوفان الاقصیٰ کے عنوان سے جو کیا اس کی حیثیت وہی ہے جو ہندوستان کے لیے 1857 کی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ سے 1857 کو نکال دیا جائے تو ہندوستان کے پاس کچھ نہیں بچتا اور اگر 1857 نہ ہوتا تو آج ہندوستان کا وجود اور جغرافیائی نقشہ کچھ اور ہوتا۔ اسی طرح اگر اہل فلسطین کی تاریخ میں سات اکتوبر نہ آتا تو آج ان کا بیانیہ معدوم ہو چکا ہوتا۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا اسرائیل کے قیام کو جواز بخش چکی تھی، مسلم ممالک اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر چکے تھے بلکہ سعودیہ اور یو ای اے جیسے ممالک میں باقاعدہ آمد و رفت شروع ہو چکی تھی، کئی ممالک میں سفارت خانے فعال ہو چکے تھے اور پاکستان جیسے ملک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ بڑھایا جا رہا تھا۔ دنیا بھر میں اسرائیل کا بیانیہ تسلیم کیا جا چکا تھا اور فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو تاریخ کے صفحات سے محو کیا جا رہا تھا۔ ایسے میں حماس نے الاقصیٰ نامی طوفان برپا کر کے یہ اعلان کر دیا کہ وہ یہ سب اتنی آسانی سے نہیں ہونے دیں گے۔ حماس اور اہل فلسطین کو اندازہ تھا کہ اس کی انہیں قیمت چکانا پڑے گی، آج وہ یہ قیمت چکا رہے ہیں مگر وہ تاریخ اور اپنے عہد میں دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں۔ ان کا بیانیہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے اور وہ ممالک جو ڈیڑھ ماہ پہلے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے بے چین تھے اپنے مؤقف پر نظر ثانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اہل فلسطین کے لیے یہ فیصلہ اور یہ لمحات مشکل تو ہیں لیکن زندہ قوموں کا شعار یہی ہوتا ہے کہ وہ غلامی کے طوق کو قبول کرنے کی بجائے عزت کی موت کو ترجیح دیتی ہیں، یہی سب کچھ 1857 میں ہوا تھا اور یہی فیصلہ اہل فلسطین نے کیا ہے۔

1857 میں بھی مصلحت پسندوں نے کہا تھا کہ سلطنت برطانیہ جیسی منظم طاقت سے ٹکرانا کوئی عقل مندی نہیں لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ یہی اس عہد کی عقل مندی تھی۔ قوموں کے بعض اقدامات کا فیصلہ وقت نہیں تاریخ کرتی ہے اور 1857 کے اقدام کے درست ہونے کی گواہی آج تاریخ کے صفحات پر بکھری پڑی ہے۔ طوفان الاقصیٰ نے اسرائیل اور اس کے ہمنواؤں پر جو قیامت ڈھائی ہے اور اہل فلسطین کو اس سے جو فوائد حاصل ہوئے ہیں اس کا فیصلہ تاریخ نے کرنا ہے اور تاریخ زندہ قوموں کے ایسے اقدامات سے بھری پڑی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ ماہ میں بہت سارے مصلحت پسندوں نے حماس اور اہل فلسطین کو مطعون کیا، انہیں اس جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اپنے تئیں یہ فیصلے صادر کیے کہ اہل فلسطین کو اس جنگ سے سوائے لاشوں کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اہل فلسطین کو اسرائیل کی طاقت کا اندازہ ہونا چاہیے تھا، انہیں علم ہونا چاہیے تھا کہ یورپ و امریکہ اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اہل فلسطین صبر کرتے اور جب تک اسرائیل جتنی ٹیکنالوجی اور جنگی صلاحیت حاصل نہ کر لیتے اس جنگ میں نہ کودتے۔ ایسے مصلحت پسند 1857 میں بھی غلط تھے، آج بھی غلط ہیں اور تاریخ کے ہر موڑ پر غلط ثابت ہوئے ہیں۔ جنگیں ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے نہیں جذبات سے لڑی جاتی ہیں اور اہل فلسطین نے یہ جنگ جیت لی ہے۔ انہوں نے اس جنگ سے وہ حاصل کر لیا ہے جو اسرائیل اور اس کے ہمنوا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اسرائیل کو پہلی دفعہ اتنے بڑے پیمانے پر فوجی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوؤں کی حقیقت آشکار ہوئی ہے۔ فلسطین کو یہودی ریاست قرار دینے کا بیانیہ دم توڑ گیا ہے اور فلسطینی بیانیہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے۔ زندہ قوموں کو تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے اتنے خطرات مول لینا پڑتے ہیں۔ اگر چند ہزار فلسطینیوں کی شہادت سے اہل فلسطین کا بیانیہ از سر نو زندہ ہو گیا ہے اور دنیا اسرائیل کے بارے اپنے مؤقف پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو گئی ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں۔ سات اکتوبر 2023 کا دن اہل فلسطین کے لیے 1857 کی حیثیت رکھتا ہے اور 1857 کی برصغیر پاک و ہند میں کیا حیثیت ہے اس سے ساری دنیا آگاہ ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اور اہل فلسطین طوفان الاقصی کی تاریخ میں اسرائیل کے کا بیانیہ تسلیم کر کا فیصلہ تاریخ کے تاریخ نے تھا کہ کے لیے کے نام ہے اور کر دیا اور اس

پڑھیں:

جماعت اسلامی کا احتجاجی مارچ ‘ ریڈ لائن منصوبہ فوری مکمل و حتمی تاریخ دینے کا مطالبہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-01-21
کراچی(اسٹاف رپورٹر) سندھ حکومت کی نا اہلی ، ریڈ لائن بی آر ٹی کی مسلسل تاخیر کے باعث لاکھوں شہریوں ، طلبہ و طالبات ، دکانداروں و تاجروں کی مشکلات و پریشانیوں کے خلاف جماعت اسلامی پبلک ایڈ کمیٹی کی ریڈ لائن عوامی ایکشن کمیٹی کے تحت ہفتہ کو امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کی زیر قیادت مین یونیورسٹی روڈ پر بیت المکرم مسجد سے حسن اسکوائر تک احتجاجی مارچ کیا گیا اور سندھ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ریڈ لائن منصوبہ فی الفور مکمل اور حتمی تاریخ کا اعلان کیا جائے ۔ روزانہ سفر کرنے والے لاکھوں افراد کے لیے متبادل راستے بنائے جائیں ، تاجروں کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے اور منصوبے کی تعمیر میں غیر معمولی تاخیر کے دوران جاں بحق و زخمیوں سمیت تمام متاثرین کو ہر جانہ ادا کیا جائے ، مارچ سے امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان ، نائب امیر کراچی و اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈووکیٹ ، امیر ضلع شرقی نعیم اختر ، ایکشن کمیٹی کے کنونیئر نجیب ایوبی و دیگر نے بھی خطاب کیا ۔مارچ کے شرکا نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جس پر کراچی دشمنی بند کرو، ریڈ لائن فوری مکمل کرو،اہل کراچی کو ان کا حق دو ، سمیت دیگر نعرے درج تھے ۔ منعم ظفر خان نے حسن اسکوائر پر مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی بد ترین نااہلی اور کرپشن کا امتزاج ہے۔پیپلز پارٹی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ تاجروں کا روزگار تباہ ہو یا عام شہری اور طلبہ و طالبات شدید مشکلات و اذیت کا سامنا کریں ۔ کراچی وہ واحد شہر ہے جہاں منصوبے کی تکمیل کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جاتی۔ منصوبے سے متاثرہ افراد کے لیے بھی کوئی انتظام نہیں کیا جاتا ۔ یونیورسٹی روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور شہریوں کے لیے کوئی متبادل راستہ نہیں ، جن لوگوں کا کاروبار تباہ ہورہا ہے انہیں معاوضہ نہیں دیا جارہا بلکہ ٹھیکے والوں کے نام پر جعلی لسٹ بنائی جارہی ہے۔ ریڈ لائن منصوبے کی مسلسل تاخیر سے لاکھوں شہری متاثر ہورہے ہیں۔ گلشن اقبال کاروباری مرکز ہے، یہاں تعلیمی ادارے اور جامعات ہیں، ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے اربوں روپے کے فنڈز دیے اور 2019 میں منصوبے پر کام شروع کیا گیا لیکن منصوبہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا اور ہر بار نئی تاریخ دی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی نے ریڈ لائن بی آر ٹی مکمل کرو مہم کا آغاز کردیا ہے جو تعمیر مکمل ہونے تک جاری رہے گی ، آج کا احتجاج علامتی ہے اگر مسائل حل نہ ہوئے تو اس سے بڑا احتجاج کریں گے۔ جدوجہد اور مزاحمت کو آگے بڑھائیں گے اور شہر کراچی کا مقدمہ لڑتے رہیں گے۔ کراچی کو قابض پیپلز پارٹی کی فسطائیت سے نجات دلانے کے لیے عوام جماعت اسلامی کا دست و بازو بنیں۔ سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی 17 سالہ حکومت کراچی کے عوام کے لیے مسلسل مصیبت اور اذیت بنی ہوئی ہے ، پورے کراچی کو کھنڈر بنادیا ہے اور پوری یونیورسٹی روڈ کھدی پڑی ہے ، سندھ حکومت اربوں کھربوں روپے کا فنڈز لینے کے باوجود کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو صرف اور صرف کمیشن کی فکر ہے۔ ریڈ لائن منصوبے سے متاثرہ کسی بھی فرد کو معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔ٹھیکے والوں کی جعلی لسٹیں بنائی جا رہی ہیں لیکن اصل حق دار کو معاوضہ نہیں دیا جارہا۔نعیم اختر نے کہا کہ بی آر ٹی منصوبہ کرپشن اور نااہلی کا شاہکار ہے۔ منصوبہ صرف 6 فیصد لوگوں کی ضروریات پوری کرے گا۔ پنجاب کے منصوبے مقررہ وقت پر مکمل کردیے جاتے ہیں لیکن بی آر ٹی منصوبہ 3 سال سے مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت بے حس ہوچکی ہے اسے عوام کی پریشانی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کی زیر قیادت مین یونیورسٹی روڈ پر ریڈ لائن بی آرٹی کی مسلسل تاخیر کے خلاف احتجاجی مارچ کیا جارہا ہے

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • 27 ویں ترمیم کو ایسی خوفناک چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے طوفان ہو، اتفاق رائےکے بغیر کوئی آئینی ترمیم نہیں ہوگی، رانا ثنا اللہ
  • 27ویں ترمیم کو ایسی خوفناک چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے طوفان ہو، رانا ثناء
  • آپریشن سندور پر مودی کی خاموشی سیاسی طوفان میں تبدیل
  • جماعت اسلامی کا احتجاجی مارچ ‘ ریڈ لائن منصوبہ فوری مکمل و حتمی تاریخ دینے کا مطالبہ
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • تاریخ کی نئی سمت
  • فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  • فلسطین کے حق میں کیے گئے معاہدے دراصل سازش ثابت ہو رہے ہیں، ایاز موتی والا
  • 31 اکتوبر تک 59 لاکھ ٹیکس ریٹرنز جمع تاریخ میں توسیع نہیں ہوگی، ایف بی آر