Nai Baat:
2025-11-04@04:16:45 GMT

1857 اور طوفان الاقصیٰ!

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

1857 اور طوفان الاقصیٰ!

’’1857 اور طوفان الاقصیٰ‘‘ کے نام سے یہ کالم میں نے 27 نومبر 2023 کو لکھا تھا جب طوفان الاقصیٰ کو شروع ہوئے صرف پچاس دن ہوئے تھے۔ اس وقت دور دور تک اس معرکے کے حتمی نتائج کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کا میڈیا اور تجزیہ کار حماس کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے اور اہل فلسطین کی تباہی و بربادی کے نوحے لکھ رہے تھے۔ تب میں نے لکھا تھا کہ زندہ قوموں کی تاریخ میں 1857 اور 7 اکتوبر 2023 جیسے واقعات ضرور آتے ہیں اور یہی واقعات کسی قوم کی آزادی یا غلامی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 کے اقدام کا فیصلہ تاریخ نے کرنا اور آج 470 دن گزرنے کے بعد تاریخ کا فیصلہ 8 ارب انسانوں کے سامنے بکھرا پڑا ہے۔ اس فیصلے کے مزید نتائج آنا ابھی باقی ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ اسرائیلی میڈیا سمیت دنیا بھر کا میڈیا اسرائیل کی شکست کو تسلیم کر چکا ہے اور حماس واہل فلسطین کے جذبوں نے دیکھنے والی آنکھوں اور سوچنے والے دماغوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ میں پرانی تحریر کو دہرانے پر قارئین سے معذرت خواہ ہوں لیکن نئی خامہ فرسائی سے بہتر تھا کہ تاریخ کی گواہی کو قارئین کے سامنے رکھ دیا جائے۔

1857 کا معرکہ تاریخ کے صفحات پر کس نام سے درج ہے غدر یا جنگ آزادی؟ اگر یہ سوال 1857 یا اس سے ایک دو سال بعد کیا جاتا تو شاید کسی کے پاس اس کا حتمی جواب نہ ہوتا لیکن آج ایک سو چھیاسٹھ سال بعد تاریخ اس قضیے کو طے کر چکی ہے۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ یہ معرکہ صرف معرکہ نہیں بلکہ یہ تحریک پاکستان کی شروعات تھی۔ یہ معرکہ صرف معرکہ یا غدر نہیں بلکہ ہندوستان کی آزادی کی پہلی منظم کوشش اور پہلی جنگ آزادی تھی۔ مؤرخ، جج، صحافی، تجریہ کار، سیاستدان، عالم دین اور برصغیر میں رہنے والا عام انسان اس حقیقت سے آگاہ ہے اگر برصغیر کی تاریخ میں 1857 نہ آتا تو شاید ہندوستان آج بھی سلطنت برطانیہ کے زیر نگین ہوتا اور شاید آج پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو الگ ملک بھی نہ ہوتے۔ 1857 کے حوالے سے آج تک جتنا لٹریچر شائع ہوا سب میں اسے جنگ آزادی کا عنوان دیا گیا۔ اگرچہ تاریخ میںکچھ ایسے کردار بھی سامنے آئے جنہوں نے اس معرکے کو جنگ آزادی کی بجائے غدر کا عنوان دیا مگر تاریخ نے ان کرداروں اور ان کے دئیے گئے عنوانات کو کبھی پذیرائی نہیں بخشی۔ مثلاً سر سید احمد خان دو قومی نظریہ کے بانیوں میں سے تھے، ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ان کی قربانیوں اور دردمندی کا زمانہ گواہ ہے مگر ان کے نامہ اعمال میں ایک غلطی ایسی تھی جو ہر عہد میں نمایاں رہی اور نہ جانے کب تک ان کا پیچھا کرتی رہے گی۔ 1857 کا معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ سر سید احمد خان قلم کاغذ تھام کر اس کے اسباب لکھنا شروع ہو گئے۔ انہوں نے 1857 کی جنگ آزادی کو غدر کا نام دے دیا اور رسالہ ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھ کر برطانوی حکومت کو مطمئن کرنے کی کوششیں شروع کر دی۔ انگریز ان کی کوششوں سے تو مطمئن نہ ہوا البتہ اس نے چن چن کر مسلمانوں کو شہید کرنا شروع کر دیا۔ سر سید احمد خان نے اپنے تئیں معاملات کی توجیہ اور وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی مگر اس کوشش میں وہ انتہا پر چلے گئے اور اس انتہا پر پہنچ کر ان سے وہ غلطی ہوئی جو تاحال ان کا پیچھا کر رہی ہے اور نہ جانے کب ان کے نامہ اعمال میں کھٹکتی رہے گی۔ اس غلطی نے بہت سارے اہل علم کو ان کے بارے میں سوئے ظن مبتلا کر دیا۔ بہر حال ہم واپس آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف، سر سید احمد خان ہوں یا کوئی اور جس نے بھی 1857 کی جنگ آزادی کو غدر کا عنوان دیا تاریخ نے ان کو پذیرائی نہیں بخشی۔

قوموں کی تاریخ میں بعض لمحات ایسے آتے ہیں جب انہیں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ انہوں نے طاقت کے سامنے سرنڈر کر کے اپنے اور اپنی نسلوں کے لیے غلامی کے طوق کو قبول کرنا ہے یا اپنی مقدور بھر طاقت جمع کر کے آزادی کے بھجتی چنگاری کو سلگاتے رہنا ہے۔ اہل فلسطین نے طوفان الاقصیٰ کے عنوان سے جو کیا اس کی حیثیت وہی ہے جو ہندوستان کے لیے 1857 کی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ سے 1857 کو نکال دیا جائے تو ہندوستان کے پاس کچھ نہیں بچتا اور اگر 1857 نہ ہوتا تو آج ہندوستان کا وجود اور جغرافیائی نقشہ کچھ اور ہوتا۔ اسی طرح اگر اہل فلسطین کی تاریخ میں سات اکتوبر نہ آتا تو آج ان کا بیانیہ معدوم ہو چکا ہوتا۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا اسرائیل کے قیام کو جواز بخش چکی تھی، مسلم ممالک اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر چکے تھے بلکہ سعودیہ اور یو ای اے جیسے ممالک میں باقاعدہ آمد و رفت شروع ہو چکی تھی، کئی ممالک میں سفارت خانے فعال ہو چکے تھے اور پاکستان جیسے ملک پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ بڑھایا جا رہا تھا۔ دنیا بھر میں اسرائیل کا بیانیہ تسلیم کیا جا چکا تھا اور فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو تاریخ کے صفحات سے محو کیا جا رہا تھا۔ ایسے میں حماس نے الاقصیٰ نامی طوفان برپا کر کے یہ اعلان کر دیا کہ وہ یہ سب اتنی آسانی سے نہیں ہونے دیں گے۔ حماس اور اہل فلسطین کو اندازہ تھا کہ اس کی انہیں قیمت چکانا پڑے گی، آج وہ یہ قیمت چکا رہے ہیں مگر وہ تاریخ اور اپنے عہد میں دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں۔ ان کا بیانیہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے اور وہ ممالک جو ڈیڑھ ماہ پہلے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے بے چین تھے اپنے مؤقف پر نظر ثانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اہل فلسطین کے لیے یہ فیصلہ اور یہ لمحات مشکل تو ہیں لیکن زندہ قوموں کا شعار یہی ہوتا ہے کہ وہ غلامی کے طوق کو قبول کرنے کی بجائے عزت کی موت کو ترجیح دیتی ہیں، یہی سب کچھ 1857 میں ہوا تھا اور یہی فیصلہ اہل فلسطین نے کیا ہے۔

1857 میں بھی مصلحت پسندوں نے کہا تھا کہ سلطنت برطانیہ جیسی منظم طاقت سے ٹکرانا کوئی عقل مندی نہیں لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ یہی اس عہد کی عقل مندی تھی۔ قوموں کے بعض اقدامات کا فیصلہ وقت نہیں تاریخ کرتی ہے اور 1857 کے اقدام کے درست ہونے کی گواہی آج تاریخ کے صفحات پر بکھری پڑی ہے۔ طوفان الاقصیٰ نے اسرائیل اور اس کے ہمنواؤں پر جو قیامت ڈھائی ہے اور اہل فلسطین کو اس سے جو فوائد حاصل ہوئے ہیں اس کا فیصلہ تاریخ نے کرنا ہے اور تاریخ زندہ قوموں کے ایسے اقدامات سے بھری پڑی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ ماہ میں بہت سارے مصلحت پسندوں نے حماس اور اہل فلسطین کو مطعون کیا، انہیں اس جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اپنے تئیں یہ فیصلے صادر کیے کہ اہل فلسطین کو اس جنگ سے سوائے لاشوں کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اہل فلسطین کو اسرائیل کی طاقت کا اندازہ ہونا چاہیے تھا، انہیں علم ہونا چاہیے تھا کہ یورپ و امریکہ اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اہل فلسطین صبر کرتے اور جب تک اسرائیل جتنی ٹیکنالوجی اور جنگی صلاحیت حاصل نہ کر لیتے اس جنگ میں نہ کودتے۔ ایسے مصلحت پسند 1857 میں بھی غلط تھے، آج بھی غلط ہیں اور تاریخ کے ہر موڑ پر غلط ثابت ہوئے ہیں۔ جنگیں ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے نہیں جذبات سے لڑی جاتی ہیں اور اہل فلسطین نے یہ جنگ جیت لی ہے۔ انہوں نے اس جنگ سے وہ حاصل کر لیا ہے جو اسرائیل اور اس کے ہمنوا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اسرائیل کو پہلی دفعہ اتنے بڑے پیمانے پر فوجی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوؤں کی حقیقت آشکار ہوئی ہے۔ فلسطین کو یہودی ریاست قرار دینے کا بیانیہ دم توڑ گیا ہے اور فلسطینی بیانیہ دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے۔ زندہ قوموں کو تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے اتنے خطرات مول لینا پڑتے ہیں۔ اگر چند ہزار فلسطینیوں کی شہادت سے اہل فلسطین کا بیانیہ از سر نو زندہ ہو گیا ہے اور دنیا اسرائیل کے بارے اپنے مؤقف پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو گئی ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں۔ سات اکتوبر 2023 کا دن اہل فلسطین کے لیے 1857 کی حیثیت رکھتا ہے اور 1857 کی برصغیر پاک و ہند میں کیا حیثیت ہے اس سے ساری دنیا آگاہ ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اور اہل فلسطین طوفان الاقصی کی تاریخ میں اسرائیل کے کا بیانیہ تسلیم کر کا فیصلہ تاریخ کے تاریخ نے تھا کہ کے لیے کے نام ہے اور کر دیا اور اس

پڑھیں:

غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے

اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔

غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔

غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔

امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔

تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔

بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔

دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 27 ویں ترمیم کو ایسی خوفناک چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے طوفان ہو، اتفاق رائےکے بغیر کوئی آئینی ترمیم نہیں ہوگی، رانا ثنا اللہ
  • 27ویں ترمیم کو ایسی خوفناک چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے طوفان ہو، رانا ثناء
  • آپریشن سندور پر مودی کی خاموشی سیاسی طوفان میں تبدیل
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • جماعت اسلامی کا احتجاجی مارچ ‘ ریڈ لائن منصوبہ فوری مکمل و حتمی تاریخ دینے کا مطالبہ
  • نومبر، انقلاب کا مہینہ
  • تاریخ کی نئی سمت
  • فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  • فلسطین کے حق میں کیے گئے معاہدے دراصل سازش ثابت ہو رہے ہیں، ایاز موتی والا