اسرائیل کا جنوبی لبنان میں واپس آنے والے شہریوں پر حملہ، 22 افراد شہید
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اسرائیل کی فورسز نے لبنان کے جنوبی علاقے سے ہجرت کرنے والے شہریوں کی واپسی کی کوشش کے دوران حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں 22 افراد شہید ہوگئے۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق لبنان کے حکام نے بتایا کہ اسرائیل نے جنوبی لبنان میں شہریوں کو انخلا کا حکم دیا تھا اور اس کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد اسرائیلی فوج کے حکم کے تحت شہری واپس آرہے تھے کہ صہیونی فورسز نے حملہ کردیا۔
لبنان کی وزارت صحت نے بیان میں تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی علاقے میں اسرائیلی فورسز کے حملے میں 22 افراد شہید اور 124 زخمی ہوگئے ہیں اور مذکورہ علاقے میں تاحال اسرائیلی فوج قابض ہے جبکہ شہری وہاں داخلے کی کوشش کر رہے تھے۔
اسرائیل کی فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ جنوبی لبنان میں تعینات فوج نے خبردار کرنے کے لیے فائرنگ کی تھی تاکہ متعدد علاقوں میں موجود خطرات کا خاتمہ کیا جائے اور کئی لوگوں کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔
حزب اللہ کی المنار ٹیلی ویژن نے جنوبی لبنان کی ویڈیوز بھی چلائیں، جس میں دکھایا گیا کہ شہری اپنے علاقوں کی طرف جا رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں گروپ کے جھنڈے اور حزب اللہ کے شہید ہونے والے جنگجووں کی تصاویر ہیں۔
لبنان کی امریکا حمایت فوج نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ فورسز دست برداری میں تاخیر کر رہیں اور کہا کہ اسرائیلی فوج کے حملے میں ان کا ایک اہلکار بھی شہید ہوگیا ہے۔
قبل ازیں اسرائیل نے کہا تھا کہ وہ جنوبی لبنان میں امریکی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کے تحت طے شدہ ڈیڈلائن گزرجانے کے باوجود اپنی فوج موجود رکھے گا۔
اسرائیل نے کہا تھا کہ لبنان نے تاحال وہ شرائط پوری نہیں کی ہیں جو جنوبی لبنان کو حزب اللہ سے خالی کرنے سے متعلق تھا اور وہاں لبنان کی فوج تعینات ہوگی۔
حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی غزہ جنگ کے آغاز سے عروج پر پہنچی تھی اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو بھی ایک حملے میں شہید کردیا گیا۔
اس جنگ کے دوران لاکھوں شہریوں نے کشیدگی سے متاثرہ لبنانی علاقے سے ہجرت کی تھی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
شام کی صورتحال شہید سید ابراہیم رئِسی کے معاون کی آنکھ سے
ایک ٹی وی پروگرام میں پروفیسر سید محمد حسینی کا کہنا تھا کہ اب بہت سی اقوام پر واضح ہو چکا ہے کہ اصل خطرہ ایران نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق ایرانی صدر شہید "سید ابراہیم رئیسی" کے معاون، پروفیسر "سید محمد حسینی" نے نیشنل ٹی وی پر شام کی صورت حال پر تبصرہ کیا۔ اس حوالے سے سید محمد حسینی نے کہا کہ آج کل شام میں اہم واقعات رونماء ہو رہے ہیں۔ اسرائیل نے جولانی گینگ جیسے دہشت گرد گروہ کے زیر استعمال صدارتی محل اور فوجی ہیڈکوارٹر کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا۔ حالانکہ شام کے پاس نہ تو کوئی جوہری پروگرام ہے، نہ ہی یورینیم افزودگی کا نظام، نہ میزائل کی صلاحیت اور نہ ہی مؤثر فضائی دفاع۔ اس ملک کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اور یہ کسی کے لیے بھی سنگین فوجی خطرہ نہیں۔ اس کے باوجود دشمن شام پر بمباری اور مداخلت جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ حقیقت اسرائیل کے مقاصد کی نوعیت کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ شام کو ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ ترکیہ سے وابستہ حلب کی حکومت، امریکہ سے وابستہ کردوں کی حکومت، دروزیوں کی ایک الگ حکومت، اور دمشق یا علویوں کی حکومت کے قیام کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ واضح طور پر شام کے حکومتی ڈھانچے کے مکمل ٹوٹنے کی منصوبہ بندی کو ظاہر کرتا ہے۔
پروفیسر سید محمد حسینی نے کہا کہ اسرائیل کا ہدف صرف شام اور لبنان تک محدود نہیں۔ اگر وہ کر سکیں تو عراق، سعودی عرب، مصر اور خطے کے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ وہ ایک ایسا علاقائی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں طاقت ان کے ہاتھ میں ہو اور باقی ممالک ان کے تابع۔ انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے آج عالم اسلام میں وسیع پیمانے پر بیداری پیدا ہوئی ہے۔ گذشتہ دور میں، ایران کو علاقائی خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا لیکن اب بہت سی اقوام پر واضح ہو چکا ہے کہ اصل خطرہ ایران نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل ہیں۔ یہی عوامی بیداری ہے جس کی وجہ سے قومیں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی حمایت کر رہی ہیں اور یہاں تک کہ بہت سی حکومتیں بھی ساتھ دینے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلی بار ہم نے دیکھا کہ اسلامی ممالک اور یہانتک کہ عرب لیگ بھی ایران کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس کا عالمی عوامی رائے پر مثبت اثر پڑا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ رجحان مستقبل میں بھی جاری رہے گا اور مزید مضبوط ہوگا۔