WE News:
2025-11-03@01:52:28 GMT

ایف بی آر کے کن افسران کو کون سی گاڑیاں دی جا رہی ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

ایف بی آر کے کن افسران کو کون سی گاڑیاں دی جا رہی ہیں؟

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 6 ارب روپے سے زیادہ مالیت کی 1010 نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے لکھا گیا خط سامنے آیا تو سینیٹ کمیٹی، میڈیا اور سیاست دان تنقید کے ساتھ سامنے آ گئے، سینیٹ کمیٹی نے ایف بی آر کو گاڑیوں کی خریداری روکنے کی ہدایت کی جبکہ گزشتہ روز چیئرمین ایف بی آر نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان افسران کے لیے گاڑیاں ضرور خریدیں گے کیونکہ یہ آپریشن کے لیے ضروری ہیں۔

ایف بی آر کے کون سے افسران کے لیے ایک ہزار سے زائد گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں؟

سینیٹ کمیٹی نے ایف بی آر کو گاڑیوں کی خریداری روکتے ہوئے وضاحت طلب کی تھی جس پر اب ایف بی آر کی جانب سے سینیٹ کمیٹی کو لکھا گیا خط سامنے آیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کون سے افسران کے لیے گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں اور گاڑیاں کیوں ضروری ہیں۔

ایف بی آر کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ نئی گاڑیاں صرف فیلڈ دفاتر میں تعینات عملے کو دی جائیں گی، صرف گریڈ 17 اور 18 کے افسران یہ گاڑیاں استعمال کر سکیں گے، جبکہ گریڈ 19 یا اس سے سینئر افسر کو ایک بھی گاڑی نہیں دی جائے گی، جبکہ یہ گاڑیاں دفاتر کی ملکیت ہوں گی افسران کو ذاتی استعمال کے لیے نہیں دی جائیں گی، گاڑیوں کا غیر ضروری اور غلط استعمال روکنے کے لیے اس ک اندر دونوں اطراف ایف بی آر کے اسٹیکرز چسپاں کیے جائیں گے۔

مزید پڑھیں؟ایف بی آر حکام کو گاڑیوں کی فراہمی کا معاملہ، وزیر خزانہ حمایت میں سامنے آگئے

سینیٹ کمیٹی کو لکھے گئے خط میں ایف بی آر کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس وقت 1300 سی سی کی گاڑیاں خریدنے کا پرچیز آرڈر دیا گیا ہے تمام ایک ہزار 10 گاڑیوں کو 3 مرحلوں میں خریدا جائے گا، جبکہ گاڑیوں کی خریداری کے لیے بیڈنگ پر اٹھائے گئے اعتراض پر کہا گیا ہے کہ قانون کہ تحت ایف بی آر کو اجازت ہے کہ وہ مقامی طور پر تیار کردہ گاڑیاں براہ راست کمپنی سے خرید سکے۔

ایف بی آر نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ رواں سال 1300 ارب روپے کا ٹیکس ہدف پورا کرنا ہے، گزشتہ سال ٹیکس ہدف میں 600 روپے کا شارٹ فال رہا ہے جس میں سے 350 ارب سیلز ٹیکس کا شارٹ فال رہا ہے، سیلز ٹیکس وصولیوں کے لیے افسران کو دفاتر سے باہر جانا ہو گا جس کے لیے سواری ضروری ہے۔

واضح رہے کہ ایف بی آر کی جانب گاڑیوں کی خریداری کے لیے لکھے گئے خط میں خط میں ابتدائی طور پر کہا گیا تھا کہ ایک ہزار 10 نئی گاڑیوں کی خریداری 3 مرحلوں میں ہوگی اور پوری رقم ایف بی آر ادا کرے گا۔ 500 گاڑیوں کی خریداری کے لیے 3 ارب روپے کی ایڈوانس ادائیگی کی جائے گی جسے پہلی کھیپ کی مکمل ادائیگی تصور کیا جائے گا۔ ایک ہزار 10 گاڑیوں کی فراہمی جنوری سے مئی 2025 کے درمیان ہوگی۔ پہلے مرحلے میں جنوری میں 75، فروری میں 200 اور مارچ میں 225 گاڑیاں فراہم کی جائیں گی۔ دوسرے مرحلے میں اپریل میں 250 گاڑیاں اور مارچ میں 260 گاڑیاں فراہم کی جائیں گی۔

مزید پڑھیں؟ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ایف بی آر کو ایک ہزار سے زائد گاڑیاں خریدنے سے روک دیا

سینیٹ کمیٹی نے ایف بی آر کو گاڑیوں کی خریداری روکنے کی ہدایت کی تھی اور چیئرمین کمیٹی نے کہا تھا ایف بی آر ایک ہزار سے زیادہ گاڑیاں کس لیے خرید رہا ہے جس پر وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا تھا یہ گاڑیاں فیلڈ افسران کے لیے خریدی جا رہی ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ کیا پہلے فیلڈ افسران ٹیکس لینے سائیکل پر جاتے تھے؟ ایف بی آر حکام نے کہا کہ افسران دفتر میں بیٹھے ہیں جس سے درست جانچ نہیں ہوتی، گاڑیوں میں باہر جائیں گے تو کام ہوگا۔

ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ گاڑیوں کی خریداری کا آرڈر کرچکے ہیں۔ جس پر فیصل واوڈا نے کہا کہ بدمعاشی دیکھ لیں کہ اتنی جلدی میں خریداری کا آرڈر بھی کردیا گیا، ایف بی آر مخصوص کمپنیوں سے گاڑیاں خرید رہی ہے یہ بہت بڑا اسکینڈل ہے۔ فیصل واوڈا نے سوال اٹھایا کہ کیا ایف بی آر کا ٹیکس شارٹ فال پورا کرنے کے لیے گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں، خریداری فی الحال روکی جائے پھر کمپٹیشن کے ذریعے خریداری کی بات کی جائے، اس خریداری کو روکا نہ گیا تو بہت بڑا کرپشن اسیکنڈل ہوگا۔

فیصل واوڈا نے سوال اٹھایا کہ کیا ایف بی آر کا ٹیکس شارٹ فال پورا کرنے کے لیے گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں، خریداری فی الحال روکی جائے پھر کمپٹیشن کے ذریعے خریداری کی بات کی جائے، اس خریداری کو روکا نہ گیا تو بہت بڑا کرپشن اسیکنڈل ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایف بی آر شارٹ فال فیصل واوڈا گاڑیاں.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایف بی ا ر شارٹ فال فیصل واوڈا گاڑیاں گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں گاڑیوں کی خریداری ایف بی آر کی جانب افسران کے لیے کے لیے گاڑیاں دی جا رہی ہیں کو گاڑیوں کی ایف بی آر کو سینیٹ کمیٹی فیصل واوڈا گیا ہے کہ نے ایف بی کمیٹی نے شارٹ فال ایک ہزار جائیں گی کی جائے

پڑھیں:

کراچی کے فٹ پاتھوں پر قبضے،کے ایم سی افسران کا دھندا جاری

مرتضیٰ وہاب کراچی کی تاریخ کے بدترین میئر شمار ہونے لگے، تجاوزات مافیا کی سرپرستی
ضلع وسطی میں تجاوزات مافیا کی بھرمار، ٹاون میونسپل افسر،ڈی سی سینٹرل بُری طرح ناکام

(رپورٹ:عاقب قریشی)کراچی کے فٹ پاتھ ایک بار پھر تجاوزات مافیا کے قبضے میں آگئے ہیں، جہاں ٹھیلے ، پتھارے اور غیر قانونی اسٹالز نے شہریوں کے لیے پیدل چلنا بھی مشکل بنا دیا ہے ۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ تجاوزات کے خاتمے کے نام پر کارروائیاں وقتی ہوتی ہیں، مگر چند دن بعد فٹ پاتھ دوبارہ بھرجاتے ہیں۔ذرائع کے مطابق کے ایم سی اور ضلعی انتظامیہ کے بعض افسران مبینہ طور پر اس "دھندے ” میں ملوث ہیں اور تجاوزات مافیا سے ماہانہ کروڑوں روپے بھتہ وصول کیا جا رہا ہے ۔شہری حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ رقم اوپر تک پہنچائی جاتی ہے ۔ ٹاؤن میونسپل افسراورڈی سی سینٹرل بھی تجاوزات ختم کرانے میں بری طرح ناکام ہو گئے ہیں۔ مرتضیٰ وہاب پر بھی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ان کے دور میں تجاوزات کا سیلاب پھر سے واپس آگیا ہے ، اورمرتضیٰ وہاب کا تاثر’’کراچی کی تاریخ کے بد ترین میئر‘‘کے طور پر پھیل رہا ہے ۔ضلعی سینٹرل کے علاقوں، خصوصاً نیو کراچی اور نارتھ کراچی میں صورتحال انتہائی سنگین ہے ۔ ناگن چورنگی سے پاؤر ہاؤس چورنگی تک پاؤر ہاؤس چورنگی سے فور کے چورنگی تک ،گودھراسے لے کر پانچ نمبر، سندھی ہوٹل، اور اللہ والی چورنگی تک ہر جگہ سڑکیں اور فٹ پاتھ پتھاروں، ہوٹلوں کے تختوں اور رکشہ اسٹینڈز سے بھرے پڑے ہیں۔مقامی دُکانداروں کا کہنا ہے کہ ’’ہم تو روزی روٹی کے لیے یہ سب کرتے ہیں، اگر کے ایم سی والے کارروائی کریں تو بڑے دکانداروں سے بھی پوچھیں جو اپنی دُکانوں کا آدھا سامان سڑک پر رکھتے ہیں‘‘۔جبکہ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ تجاوزات کے باعث ٹریفک جام روز کا معمول بن گیا ہے ۔ایک شہری، سلمان احمد، کا کہنا تھا کہ ’’پانچ منٹ کا فاصلہ طے کرنے میں اب پندرہ بیس منٹ لگتے ہیں، یہاں تک کہ جنازے کے جلوس بھی ٹریفک میں پھنس جاتے ہیں‘‘۔رکشہ اسٹینڈز کی بھرمار نے مسئلہ مزید بڑھا دیا ہے ۔ سروس روڈز پر درجنوں رکشے لائن بنا کر کھڑے رہتے ہیں جس سے ٹریفک کی روانی مکمل طور پر متاثر ہوتی ہے ۔شہریوں نے آئی جی سندھ غلام نبی میمن، ڈی آئی جی ٹریفک پیر محمد شاہ، اور میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سے فوری نوٹس لینے اور تجاوزات مافیا کے خلاف مؤثر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ فٹ پاتھ شہریوں کو واپس مل سکیں۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی کے فٹ پاتھوں پر قبضے،کے ایم سی افسران کا دھندا جاری
  • حیدرآباد: پکا قلعہ کے باہر بچے وبڑے پتنگ کی خریداری میں مصروف ہیں
  • اسلام آباد : بھاری گاڑیاں فضائی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئیں
  • شامی صدر نے سرکاری ملازمین کی مہنگی گاڑیاں ضبط کرنے کا حکم دے دیا
  • مڈعیدن ، ڈی سی کا ڈینگی وائرس سے بچائو کے حوالے سے اجلاس
  • لاہور میں کچرا اٹھانے والی 28 ہزار گاڑیاں آلودگی کا باعث بن گئیں
  • کوالالمپور: امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدہ
  • ڈکی بھائی رشوت کیس؛ این سی سی آئی اے کے 6 افسران سے سوا چار کروڑ کی وصولی
  • حکومت پنجاب نے وزیر اعظم کے پروٹوکول کیلئے گاڑیاں فراہم کر دیں
  • لیسکو میں اے ایم آئی سمارٹ میٹرز کی خریداری میں بے ضابطگیوں کا انکشاف