ممبئی پولیس کی جانب سے بالی ووڈ اداکار سیف علی خان پر حملہ کیس میں ابتدائی طور پر ملزم قرار دیے گئے بے گناہ شخص کی زندگی تباہ ہوگئی۔

باندرا اور ممبئی پولیس کی اعلیٰ تفتیشی ٹیم نے کیس کی تحقیقات کے دوران اکتیس سالہ آکاش کانوجیا کو مشتبہ ملزم قرار دیا اور اُس کی تصویر جاری کر کے لوگوں سے گرفتاری میں مدد مانگی تھی۔

بعد ازاں پولیس نے اُسے 18 جنوری کو چھتیس گڑھ پولیس اسٹیشن سے اُس وقت گرفتار کیا جب وہ ممبئی سے بلاس پور اپنی ہونے والی اہلیہ سے ملاقات کیلیے جارہا تھا۔

پولیس نے آکاش کو حراست میں لے کر تفتیش کی تو وہ بے گناہ ثابت ہوا تاہم اس کے بعد اُس کی زندگی تباہ ہوگئی اور اُسے کمپنی نے کام پر رکھنے سے انکار کردیا جبکہ لڑکی والوں نے رشتہ بھی ختم کردیا۔

آکاش کے مطابق وہ اپنی اہلیہ سے ملاقات کیلیے جارہا تھا کہ اس دوران سی سی ٹی وی فوٹیج میں اُس کی تصویر آئی جس پر پولیس نے اُسے مشتبہ قرار دیا۔

بے گناہ شخص کے مطابق پولیس نے تفتیش میں سنگین غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے گرفتار کیا جبکہ میری داڑھی مونچھیں تھیں اور حملہ آور کلیئن شیو تھا، اس کے باوجود بھی میری تصویر جاری کی گئی۔

آکاش کے مطابق پولیس نے مجھے مطلوب شخص قرار دیتے ہوئے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو تصویر تھی جس کے بعد سب سے پہلے مجھے ملازمت سے نکالا گیا جب میں بے گناہ ہونے کے بعد واپس آیا تو کمپنی نے دوبارہ رکھنے سے انکار کردیا اور میری وضاحت تک نہیں سنی۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس کی غفلت کی وجہ سے میری دو سال کی منگنی ختم ہوگئی اور سسرالیوں نے بھی شادی سے انکار کردیا۔

آکاش نے اعلان کیا کہ وہ اپنی زندگی تباہ ہونے پر سیف علی خان کے گھر کے باہر مظاہرہ کریں گے اور انصاف مانگیں گے۔

واضح رہے کہ پولیس نے سیف علی خان پر حملہ کیس میں بنگلادیش سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارک وطن شرف السلام کو گرفتار کیا ہے۔ جن پر سیف علی خان پر حملہ کرنے کا بھی الزام اور شواہد سامنے آئے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیف علی خان پر حملہ زندگی تباہ پولیس کی پولیس نے بے گناہ

پڑھیں:

بھارت میں آزادیٔ اظہار جرم، اختلافِ رائے گناہ ؛ مودی سرکار میں سنسر شپ بڑھ گئی

مودی سرکار کے دورِ حکومت میں سنسرشپ کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں آزادیٔ اظہار جرم اور اختلافِ رائے گناہ بنا دیا گیا ہے۔

بھارت میں آزادیٔ اظہار اور صحافت پر بڑھتی پابندیوں کے حوالے سے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو نیوز نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے، جس نے مودی حکومت پر سخت الزامات عائد کرتے ہوئے سنسرشپ کے بڑھتے رجحان کو بے نقاب کردیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق نریندر مودی کے دورِ حکومت میں اختلاف رائے کو گناہ سمجھا جانے لگا ہے اور میڈیا، تعلیمی ادارے حتیٰ کہ عدلیہ بھی خوف کے سایے میں کام کر رہے ہیں۔ اسی دوران آزادیٔ اظہار کو بھی جرم بنا دیا گیا ہے۔

ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق مودی سرکار نے ’’آپریشن سندور‘‘کی ناکامی کو چھپانے کے لیے آزادیٔ اظہار کو نشانہ بنایا۔ اس آپریشن کی ناکامی پر نیوز ویب سائٹ "The Wire" نے بھارتی طیارہ گرنے کی درست خبر شائع کی، جس کے بعد مودی حکومت نے اس پلیٹ فارم کو بند کر کے پورے میڈیا کو خاموش رہنے کا پیغام دیا۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت دنیا میں آزادیِ صحافت کی عالمی درجہ بندی میں 180 ممالک میں سے 151 ویں نمبر پر آ چکا ہے، جب کہ حکومت اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے اب تک 8000 سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کر چکی ہے۔

مودی حکومت نے ممتاز مسلم اسکالر علی خان محمودآباد کو جنگ مخالف پوسٹ پر گرفتار کیا اور ان کے سچ کو ’’فرقہ واریت‘‘قرار دے کر جیل بھیج دیا۔

ڈی ڈبلیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنٹسٹ پروفیسر اجے نے کہا کہ مودی راج میں اب صرف خاموشی محفوظ ہے، رائے دینا خود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں لوگ حتیٰ کہ نجی محفلوں میں بھی اپنی رائے دینے سے گریز کرتے ہیں۔

او پی جندل گلوبل یونیورسٹی کے پروفیسر دیپانشو موہن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مودی حکومت نے ’’آپریشن سندور‘‘کو ایک سیاسی ڈراما بنا کر انتخابی فائدے کے لیے استعمال کیا اور قومی سلامتی جیسے حساس معاملے کو ووٹ بینک میں بدل دیا۔

پروفیسر موہن نے مزید کہا کہ آج بھارت میں صرف وہی استاد قابل قبول ہے جو مودی کا بیانیہ پڑھاتا ہے، باقی سب کو ’ملک دشمن‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ بھی اب حکومت کی زبان بول رہی ہے اور قومی سلامتی کے نام پر اظہارِ رائے پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔ پروفیسر کے مطابق تعلیمی اداروں میں نصاب، تدریس اور تقرریاں اب مکمل طور پر مودی حکومت کے بیانیے کی غلامی میں ہیں، مخالف آوازوں کو نہ گرانٹ دی جاتی ہے اور نہ ہی ملازمت کا حق۔

پروفیسر موہن نے عالمی برادری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں عالمی دباؤ ہی آزاد میڈیا، دانشوروں اور اختلافی آوازوں کے تحفظ کی آخری امید رہ گیا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • خاتون نے دوسری شادی کیلئے بیٹی کو قتل کردیا
  • چونیاں: نوجوان کی چند روز پرانی لاش برآمد
  • بھارت میں آزادیٔ اظہار جرم، اختلافِ رائے گناہ ؛ مودی سرکار میں سنسر شپ بڑھ گئی
  • راول ڈیم میں نہاتے ہوئے تین نوجوان ڈوب گئے، دو جاں بحق
  • اپر دیر، عارضی پل سے گر کر 2 نوجوان 2 لڑکیاں ڈوب گئیں
  • اپر دیر: دریائے گوالدائی پر بنے عارضی پل سے گر کر 2 نوجوان 2 لڑکیاں ڈوب گئیں
  • اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے، مولانا شعیب احمد
  • گھوٹکی: کچے میں پولیس کا آپریشن، نوجوان بازیاب، ایس ایس پی
  • اورنگی ٹاؤن کرسچن قبرستان کے قریب ڈاکوؤں کی فائرنگ سے نوجوان زخمی
  • اسرائیل نے حزب اللہ کی زیر زمین ڈرونز فیکٹریوں کو تباہ کردیا؛ ویڈیو وائرل