دمشق (انٹرنیشنل ڈیسک) نئی شامی حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث اہل کاروں کو گرفتار کرلیا۔ خبررساں اداروں کے مطابق بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے بعد بننے والی نئی حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے مغربی حمص کے علاقے میں خلاف ورزیوں پر بڑی تعداد میں گرفتاریاں کیں۔ حکام نے ایک مجرمانہ گروہ کے ارکان پر الزام عائد کیا، جنہوں نے سیکورٹی سویپکے ذریعے رہائشیوں کے خلاف بدسلوکی کی اور خود کو سیکورٹی سروسز کا رکن ظاہر کیا۔ سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ سزائے موت پانے والے 35افراد میں میں زیادہ تر اسد حکومت کے سابق افسران ہیں، جنہوں نے خود کو نئی حکومت کے مراکز میں پیش کیا تھا۔آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ حمص کے علاقے میں سیکورٹی کارروائیوں میں حصہ لینے والے مقامی مسلح گروہوں کے درجنوں ارکان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان گروہوں نے افراتفری، ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور نئے حکام کے ساتھ تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقلیت کے ساتھ انتقامی کارروائیاں کیں اور پرانی دشمنی نکالی جن کا تعلق بشار الاسد کے دور سے ہے۔ مانیٹرنگ گروپ نے بڑے پیمانے پر من مانی گرفتاریوں، ظالمانہ اقدامات، بدسلوکی، مذہبی علامتوں پر حملے، لاشوں کو مسخ کرنے، شہریوں کو نشانہ بنانے والے سفاکانہ کارروائیوں کی نشان دہی کی ہے۔ سول سوسائٹی کی تنظیم سول پیس گروپ نے ایک بیان میں کہا کہ حمص کے علاقے کے کئی دیہات میں سیکورٹی سویپ کے دوران شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ گروپ نے غیر منصفانہ خلاف ورزیوں کی مذمت کی، جس میں نہتے افراد کا قتل بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ شام میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد نئے حکام مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کے حقوق کو برقرار رکھا جائے گا۔ اس سے قبل بشار الاسد کے اقلیتی علوی فرقے کے ارکان نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان کے قبیلے کے خلاف کئی دہائیوں کے اقتدار کے دوران ہونے والی زیادتیوں پر انتقامی کارروائی کی جائے گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

شرمیلا فاروقی کا مولانا فضل الرحمٰن کے بیان پر ردِعمل

شرمیلا فاروقی—فائل فوٹو

پاکستان پیپلز پارٹی کی رکنِ قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے بیان پر ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔

ایک بیان میں شرمیلا فاروقی نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن شادی کو بلوغت سے جوڑتے ہيں جبکہ اسلام اور آئینِ پاکستان انصاف، تحفظ اور انسانی وقار پر زور دیتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئین کا آرٹیکل 25 ۔1 واضح کرتا ہے کہ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی حق دار ہیں جبکہ آرٹیکل 25-2 کہتاہے کہ جنس کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہو گی۔

شرمیلا فاروقی نے کہا کہ ہم ایسے طریقوں کا جواز پیش نہیں کر سکتے جو بنیادی انسانی حقوق اور آئینی ضمانتوں کی خلاف ورزی کرتے ہوں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شادی کی کم از کم عمر بڑھانا انصاف کی طرف ایک قدم ہے۔

متعلقہ مضامین

  • شرمیلا فاروقی کا مولانا فضل الرحمٰن کے بیان پر ردِعمل
  • حکومت پنجاب کا عوامی تحفظ کیلئے اہم فیصلہ، عید الاضحیٰ پر عارضی مکینیکل جھولوں پر پابندی
  • کشمیر دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی کی ایک المناک داستان ہے، چوہدری قربان
  • غزہ: سلامتی کونسل غیر انسانی اسرائیلی اقدامات پر کارروائی کرے، عرب گروپ
  • انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ عبداللّٰہ اور ثمینہ عمر حراست میں لیے جانے کے بعد رہا
  • کم عمری کی شادی کےخلاف بل، اسلامی نظریاتی کونسل کے اعتراض پر انسانی حقوق کمیشن کو تشویش
  • انسانی حقوق کمیشن کا چائلڈ میرج بل پر اسلامی نظریاتی کونسل کی مخالفت پر اظہار تشویش
  • چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل کی منظوری خواتین و بچوں کے حقوق کے تحفظ کی جیت ہے: شیری رحمٰن
  • کم عمری کی شادی سے متعلق بل کو مذہب سے متصادم قرار دینا بچوں کے حقوق کی نفی ہے: انسانی حقوق کمیشن
  • کم عمری کی شادی سے متعلق بل کو مذہب سے متصادم قرار دینا بچوں کے حقوق کی نفی ہے، انسانی حقوق کمیشن