(گزشتہ سے پیوستہ)
مدینہ منورہ میں آٹھ راتوں کے قیام کے بعد ۲۸ جولائی کو میں نے اور اہلیہ محترمہ نے واپس مکہ مکرمہ آ جانا تھا جبکہ باقی لوگوں نے ابھی مزید تین راتیں مدینہ منورہ میں گزارنا تھیں۔ عمران اور راضیہ نے بھی ہمارے ہمراہ مکہ جانے کا پروگرام بنا لیا کہ وہ عمرہ ادا کرنے کے بعد اگلے دن واپس مدینہ منورہ آ جائیں گے۔ عمرے کی ادائیگی کے ساتھ انہیں ہمارا بھی خیال تھا کہ ہمیں واپس مکہ مکرمہ میں پہنچ کر بھاری سامان کے ساتھ ہوٹل پہنچنے میں کچھ دقت ہو گی، وہ ساتھ ہوں گے تو آسانی رہے گی۔ اس طرح ہم چاروں کا مکہ جانے کا پروگرام طے پا گیا۔ مکہ روانگی کے لیے بس کے حوالے سے مدینہ منورہ میں ہمارے عمرہ آرگنائزر کے نمائندے عمران صاحب سے ہماری بات ہوئی تو اُن کا کہنا تھاکہ ظہر کی نماز کے بعد بس آپ کے ہوٹل کے باہر آ جائے گی۔ اس سے قبل آپ نے اپنا سامان وغیرہ لے کے نیچے آ جانا ہو گا تا کہ بس کو انتظار نہ کرنا پڑے۔
ہم نے ظہر کی نماز مسجد نبوی ؐ میں ادا کی اور جلد ہی ہوٹل واپس آ گئے، سامان وغیرہ ہمارا پیک تھا۔ کھجوریں بھی ہم نے ہوٹل کی بیسمنٹ میں کھجوروں کی دکان سے اسی دن خریدیں جو ہمیں مناسب نرخوں پر مل گئی تھیں۔ اب ہمارے یعنی میرے اور اہلیہ محترمہ کے پاس سامان میں تین اٹیچی کیسوں کے ساتھ کھجوروں کا ایک کرٹن بھی تھا۔ ہوٹل کے کمرے میں بیٹھے ہمیں بس کی آمد کا انتظار تھا ۔ اس کے لیے ہم عمران صاحب سمیت اِدھر اُدھر فون پر رابطہ بھی کر رہے تھے ۔ ہمیں آگے سے یہی جواب مل رہا تھا کہ آپ سامان کے ساتھ تیار رہیں، بس کچھ دیر میں آ جائے گی۔ ڈیڑھ دو بجے کے لگ بھگ ہم کمرے سے سامان لے کر نیچے ہوٹل کی لالی (استقبالیہ) میں آگئے اور وہاں بس کا انتظار کرنا شروع کر دیا۔ استقبالیہ پر ائیر کنڈیشنز بند تھے اور گرمی کا سماں تھا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد اہلیہ محترمہ اور راضیہ کو ہم نے واپس اوپر کمرے میں بھیج دیا کہ بس آئے گی تو پھر بلا لیں گے۔ وقفے وقفے کے بعد عمران اور واجد باہر ذرا فاصلے پر سڑک پر جا کر دیکھ لیتے کہ بس کہیں آ نہ گئی ہو۔ اس دوران ایک آدھ بس وہاں آ کر رُکی بھی ، لیکن وہ ہماری مطلوبہ بس نہیں تھی۔ انتظار میںکم و بیش ڈیڑھ دو گھنٹے مزید گزرے ہوں گے کہ پتہ چلا ہماری بس آ گئی ہے۔ دھوپ کچھ تیز تھی، گرمی بھی تھی ۔ اوپر کمرے سے اہلیہ محترمہ اور راضیہ کو بلایا اور سامان کے ساتھ سڑک پر بس کے پاس پہنچے۔ واجد اور عمران نے ہمارے اٹیچی اور کھجوروں کا کرٹن بس
کے نچلے حصے میں سامان کی جگہ پر رکھا۔ ہم نے واجد کو الوداع کہا اور بس میں بیٹھ گئے۔ بس میں ڈرائیور کے ساتھ ایک دو افراد کے علاوہ اور کوئی سواریاں نہیں تھیں۔ اس کا مطلب تھا کہ ابھی مدینہ منورہ کے دیگر ہوٹلوں سے مکہ مکرمہ کے لیے اور افراد یا لوگوں نے بس میں سوار ہونا تھا۔ ہم بس کے اگلے حصے میں اپنی مرضی کی سیٹوں پر بیٹھ گئے تاکہ سفر کے دوران باہر کے مناظر ہماری نگاہوں کے سامنے رہیں۔
سہ پہر پانچ بجے یا اس سے کچھ بعدکا وقت ہو گا کہ بس ہمارے ہوٹل کے سامنے سے روانہ ہوئی۔اس نے دیگر ہوٹلوں سے اور لوگوں کو جو ہماری طرح بس کے انتظار میں تھے اٹھاتے ہوئے مزید ایک آدھ گھنٹہ یا اس سے کچھ زائد وقت لگایا۔ بس مدینہ منورہ کی شاہراہوں سے باہر نکلی تو شام چھ بجے کے لگ بھگ کا وقت ہو گا۔ اب ہم لوگوں کی اگلی منزل مدینہ منورہ کے مضافات میں ذوالحلیفہ یا بہارِ علی (بئر علی) کی بستی تھی جہاں ہم نے عمرے کی نیت کر کے احرام باندھنا تھے۔ ذوالحلیفہ میں ایک وسیع و عریض مسجد ہے جہاں بڑی تعداد میں غسل خانے اور وضو خانے بنے ہوئے ہیں۔ ہم وہاں پہنچے تو اور لوگ بھی کافی تعداد میں موجود تھے۔ وضو کر کے ہم نے احرام باندھے ۔ ہم نے یہاں عصر کی قصر نماز پڑھی، عمرے کی نیت کی ، نوافل پڑھے اور باہر بس میں آ کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر میں ڈرائیور صاحب اور ان کے ساتھی نے اپنی سیٹیں سنبھالیں اور بس مکہ مکرمہ کی شاہراہ (شارع ہجرہ) پر رواں دواں ہو گئی۔
شام کا ملجگا، اندھیر چھا رہا تھا،بس چل رہی تھی۔ سڑک سے ہٹ کر کھجوروں کے درخت ، چھوٹے بڑے باغ اور کچھ سر سبز قطعات نگاہوں کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ ایک دوسرے سے ہٹ کر اور فاصلے پر بنے اِکا دُکا مکانات میں بجلی کے بلب روشن ہو چکے تھے۔ بس بڑی یکساں سپیڈ کے ساتھ مکہ مکرمہ کی شاہراہ پر رواں دواں تھی۔ عمران کا خیال تھا کہ رات بارہ بجے تک بس ہمیں مکہ مکرمہ پہنچا دے گی جبکہ بس کی سپیڈ کو سامنے رکھتے ہوئے میرا خیال تھا کہ یہ ہمیں رات کو ئی ایک بجے کے بعد ہی مکہ مکرمہ پہنچائے گی۔ اس دوران مکہ مکرمہ میں عمرہ آرگنائزر کے نمائندے شیر افضل کا فون آ گیا ۔ ان کا پوچھنا تھا کہ آپ کے ساتھ کتنے لوگ آ رہے ہیں اور آپ کس وقت تک مکہ مکرمہ پہنچیں گے۔ میں نے انہیں بتایا کہ چار لوگ ہیںاور زیادہ امکان یہی ہے کہ ایک بجے کے لگ بھگ ہماری بس مکہ مکرمہ پہنچ سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ مجھ سے رابطہ رکھیے ۔ میں ادھر ہی آپ کے پہلے والے قیام کے ہوٹل المروج کے قریب ہی دوسرے ہوٹل فندق مشاعر الذ ھبیہ میں آپ کے پہنچنے تک موجود ہوں گا۔
کوئی دو اڑھائی گھنٹے کا سفر طے ہوا ہو گا کہ ڈرائیور نے سڑک کے کنارے بنے ایک پر رونق ہوٹل کے سامنے بس روکی اور بتایا کہ ہم کوئی آدھا گھنٹہ یہاں رُکیں گے، آپ لوگ کھانے پینے کے ساتھ اپنی دیگر ضروریات سے فارغ ہو سکتے ہیں۔ ہم نے ہلکے سے کھانے کا آرڈر دیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر باہر نکلے، میں نے ایک چکر لگایا اور بس میں آ کر بیٹھ گئے ۔ باقی لوگ بھی آنا شروع ہو گئے۔ کچھ دیر میں ڈرائیور اور ان کا ساتھی بھی آ گئے اور بس ایک بار پھر اپنی منزل مکہ مکرمہ کی طرف رواں دواں ہو گئی۔
ہمیں اندازہ تھا کہ مکہ مکرمہ پہنچنے میں ہمیں اڑھائی تین گھنٹے لگیں گے کیوں نہ کچھ وقت کے لیے سو لیا جائے۔ میں نے سونے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔آنکھیں بند ہوتیں تو بھی چند منٹوں میں دوبارہ کُھل جاتیں۔باہر کے مناظر بھی اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آ رہے تھے البتہ پیچھے سے آنے والی گاڑیوں کی اگلی روشنیاں اور ہمارے آگے جانے والی گاڑیوں کی پچھلی طر ف کی سرخ روشنیاں سامنے بس کی ونڈ سکرین پر باہم گُڈ مُڈ ہوکر نظر آ رہی تھیں۔ میں نے ایک بار پھر سونے کی کوشش کی ۔ کچھ دیر کے لیے سویا بھی لیکن پھر جاگ پڑا۔ اسی دوران ہمیں مکہ مکرمہ سے شیر افضل صاحب کا یہ پوچھنے کے لیے فون آیا کہ ہم کتنی دیر میں پہنچ جائیں گے۔ میں نے اندازے سے انہیں بتایا کہ ہمیں مکہ مکرمہ پہنچنے میں شاید مزید ایک دو گھنٹے لگ جائیں گے۔
گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھ رہی تھیں ۔ کوئی پونے ایک بجے یا اس کے ذرا بعد کا وقت ہو گا کہ ایسے لگا کہ بس مکہ مکرمہ کے مضافات میں سے گزر رہی ہے۔کچھ ہی دیر میں دُور مکہ رائل کلاک ٹاور کی روشنیاں نظر آناشروع ہو گئیں بلکہ بس جس سڑک (شارع) سے گزر رہی تھی اس پر مسجد الحرام کی طرف اشارہ کرنے والے بورڈ بھی نظر آنا شروع ہو گئے۔ بس چلتی رہی اور کچھ ہی دیر میں اس نے ہمیں ہمارے ہوٹل کے قریب شارع ابراہیم خلیل پر بنے سٹاپ جو ایک مسجد (غالباً مسجد بخاری )سے متصل ہے پر پہنچا دیا۔ ہم گاڑی سے اترے تو سامنے مکہ رائل کلاک ٹاور کے کلاک کی چمکتی سوئیاں کوئی ڈیڑھ بجے کا وقت دکھا رہی تھیں۔ عمران نے بس سے سامان اتروایا۔ میں نے شیر افضل صاحب کو فون کیا کہ ہم شارع ابراہیم خلیل پر بس سٹاپ سے اترے ہیں۔ شیر افضل صاحب نے بتایا کہ آپ سڑک پار کر کے بائیں طرف نکلنے والے راستے پر ذرا چڑھائی پر اوپر آ جائیں، سامنے ہی ہوٹل مشاعرالذھبیہ ہے۔ (جاری ہے)
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: اہلیہ محترمہ مکہ مکرمہ کے سامنے بتایا کہ شیر افضل بیٹھ گئے ہوٹل کے کے ساتھ رہی تھی کچھ دیر نے ایک کے بعد کا وقت اور بس کے لیے بجے کے تھا کہ
پڑھیں:
مہمان خصوصی کاحشرنشر
یہ الگ بات ہے کہ ہم دانا دانشوروں ، برگزیدہ قسم کے تجزیہ کاروں اورکالم نگاروں، مقالہ نگاروں کے نزدیک کسی شمارقطار میں نہیں ہیں بلکہ صحافیوں میں بھی ایویںایویں ہیں اور شاعروں، ادیبوں یاایوارڈزدینے والوں کے خیال میں بھی پرائے ہیں لیکن ابھی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سب سے نیچے ہی سہی ہمارا نام بھی لے لیتے ہیں ۔
اہل ورع کے جملہ میں ہرچند ہوں ذلیل
پرغاصبوں کے گروہ میں ہیں برگزیدہ قبول
چنانچہ ایک گاؤں کی ایک ادبی تنظیم کا ایک وفد ہمارے پاس آیا کہ ہماری تنظیم نے معروف شاعروں، ادیبوں کے ساتھ شامیں منانے کاسلسلہ شروع کیا ہے، اب تک ہم تیس چالیس سے اوپر شخصیات کو یہ اعزاز بخش چکے ہیں اوراب قرعہ فال آپ کے نام نکلا ہے۔ ہم خوش ہوئے، ہم مسکرادیے، ہم ہنس دیے اورفخر سے پھول کر حامی بھرلی۔
مقررہ دن اوروقت کو ہم نے پانچ سوروپے حق حلال کے، مال حرام کی طرح خرچ کرکے ٹیکسی لی اورمقام واردات پر پہنچ گئے ،کمرہ واردات میں تیس چالیس لوگ فرش پر بیھٹے تھے، ہمارے گلے میں ہار ڈالا گیا جو رنگین ریشوں پر مشتمل تھا جو عام طور پر سائیکل کے پہیوں میں یاختنے کے بچوں کے گلے میں ڈالا جاتا ہے اورڈیڑھ دوروپے کی گراں قیمت میں مل جاتا ہے ۔ ہمیں کونے مں ایک صوفے پر بٹھا دیا گیا اوربیٹھے ہوئے لوگ قطار میں آکر ہمیں مصافحے کاشرف عطا کرنے لگے۔
یہ سلسلہ ختم ہوا تو تنظیم کے سیکریٹری نے کھڑے ہوکر اپنی تنظیم کی ’’عظیم الشان‘‘ سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ آج ہم اس سلسلے کی اٹھائیسویں شام ان جناب کے ساتھ منارہے ہیں ، نام تو آپ نے ان کا سنا ہوگا ، اب میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے بارے میں تفصیل سے بتائیں ۔جھٹکا تو زورکا لگا کہ عام طورپر تو ایسی تقاریب میں یوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ’’مہمان ‘‘ کے بارے میں مقالے وغیرہ پڑھتے ہیں، نظم ونثرمیں اس کی صفات اورکارناموں کی تفصیل بتاتے ہیں، اس کے بعد آخر میں مہمان کو بولنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن یہاں گیند ابتداء ہی سے براہ راست میرے کورٹ میں ڈال دی گئی بلکہ دے ماری گئی ، اس لیے میں نے بھی اٹھ کر ان کے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے کہا کہ نام تو میرا جناب سیکریٹری موصوف نے آپ کو بتادیا ہے ، والد کانام فلاں اوردادا کا نام فلاں ہے ، میرے جد امجد فلاں ہیں۔میرے دو چچا، تین ماموں اورچاربھائی ہیں ، اولادوں کی تعداد آٹھ ہے ، چار لڑکیاں اورچارلڑکے ۔لڑکیاں ساری کی ساری بیاہی جاچکی ہیں ، بیٹوں میں تین کی شادیاں ہوچکی ہیں ، ایک باقی ہے ،انشاء اللہ اگلے ستمبر میں اس کی بھی ہوجائے گی۔
بڑا بیٹا تین بچوں کا باپ ہے اوردبئی میں ہے ، دوسرا یہاں کے ایک محکمے میں جونئر کلرک ہے، تیسرا بے روزگار ہے لیکن دیہاڑی کرنے جاتا ہے اورچوتھا ابھی پڑھ رہا ہے ، بیوی بقیدحیات ہے اورمیں اس کی بقید ہوں ، بیچاری کو گھٹنوں کی بیماری لاحق ہے لیکن زبان ہرلحاظ سے صحت مند ہے ۔ میرا قد پانچ فٹ پانچ انچ ، وزن اسی کلوگرام ہے اورشناختی نشانیاں کٹی ہوئی ناک ہے، تعلیم صبح آٹھ بجے سے دوپہر گیارہ بچے تک ہے ، صبح آٹھ بجے والد نے اسکول میں داخل کرایا اورگیارہ بجے میں بھاگ کر گھر آگیا، باقی تعلیم محلے کے سینئر نکموں نکھٹؤں سے حاصل کی ہے ، شاعری کے انیس مجموعے چھپ چکے ہیں اوربیسواں طباعت کے مرحلے میں ہے ، پھر ایک لمبا وقفہ دینے کے بعد اچانک شکریہ کہہ کر بیٹھ گیا۔ میراخیال تھا کہ اپنے بارے میں اتنی قیمتی معلومات دینے پر کوئی اعتراض کرے گا ، تبصرہ کرے گا یا سوالات اٹھائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اورسیکریٹری نے اٹھ کر مشاعرے کااعلان کردیا اوراپنی بیالیس بندوں والی نظم سنائی ۔
اب تک میرا خیال تھا کہ بیٹھے ہوئے لوگ غیر مسلح ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ سب کے سب نظموں کی تلواروں ، غزلوں کے خنجروں ، چاربیتوں کے نیزوں سے مسلح ہیں ، اس کے بعد دو گھنٹے وہ گھمسان کارن پڑا کہ مجھے اندر باہر، آگے پیچھے اورنیچے سے لہولہان کر دیاگیا ۔
کرے فریاد امیر اے دست رس کس کی
کہ ہردم کھینچ کر خنجر سفاک آتے ہیں
آخر کار سیکریٹری نے مشاعرہ ختم ہونے اورچائے کااعلان کیا ، کونے میں پڑی ہوئی تھرماسیں متحرک ہوئیں ، چائے کے ذائقے رنگ اوربدبو سے پتہ چلا کہ سب کی بیویاں بڑی ’’سلیقہ شعار‘‘ تھیں، یہ سوچ کر کہ بعد میں وقت ملے نہ ملے ، چولہا جلے نہ جلے ، اس لیے صبح ہی چائے تیار کرکے تھرماسوں میں ذخیرہ کی گئی تھی اورمٹھائی بھی احتیاطاً دو ماہ پہلے ہی خریدی گئی تھی ۔
وہ رنگین پلاسٹک کے ریشوں کاہار ہم نے سامنے دیوار پر ٹانک دیا ہے تاکہ ہمیں بتاتا رہے کہ خبردار اگر پھر ایسی غلطی کی تو میں گلے پڑ جاؤں گا۔
ویسے احتیاطاً میں نے ایک ماہرسے ایک ایسا گتا بھی خرید کر رکھ لیا ہے جو شاعر شناسی میں بڑا تیز ہے اورانھیں بھگانے میں ’’غپ طولیٰ‘‘ رکھتا ہے ۔