(گزشتہ سے پیوستہ)
مدینہ منورہ میں آٹھ راتوں کے قیام کے بعد ۲۸ جولائی کو میں نے اور اہلیہ محترمہ نے واپس مکہ مکرمہ آ جانا تھا جبکہ باقی لوگوں نے ابھی مزید تین راتیں مدینہ منورہ میں گزارنا تھیں۔ عمران اور راضیہ نے بھی ہمارے ہمراہ مکہ جانے کا پروگرام بنا لیا کہ وہ عمرہ ادا کرنے کے بعد اگلے دن واپس مدینہ منورہ آ جائیں گے۔ عمرے کی ادائیگی کے ساتھ انہیں ہمارا بھی خیال تھا کہ ہمیں واپس مکہ مکرمہ میں پہنچ کر بھاری سامان کے ساتھ ہوٹل پہنچنے میں کچھ دقت ہو گی، وہ ساتھ ہوں گے تو آسانی رہے گی۔ اس طرح ہم چاروں کا مکہ جانے کا پروگرام طے پا گیا۔ مکہ روانگی کے لیے بس کے حوالے سے مدینہ منورہ میں ہمارے عمرہ آرگنائزر کے نمائندے عمران صاحب سے ہماری بات ہوئی تو اُن کا کہنا تھاکہ ظہر کی نماز کے بعد بس آپ کے ہوٹل کے باہر آ جائے گی۔ اس سے قبل آپ نے اپنا سامان وغیرہ لے کے نیچے آ جانا ہو گا تا کہ بس کو انتظار نہ کرنا پڑے۔
ہم نے ظہر کی نماز مسجد نبوی ؐ میں ادا کی اور جلد ہی ہوٹل واپس آ گئے، سامان وغیرہ ہمارا پیک تھا۔ کھجوریں بھی ہم نے ہوٹل کی بیسمنٹ میں کھجوروں کی دکان سے اسی دن خریدیں جو ہمیں مناسب نرخوں پر مل گئی تھیں۔ اب ہمارے یعنی میرے اور اہلیہ محترمہ کے پاس سامان میں تین اٹیچی کیسوں کے ساتھ کھجوروں کا ایک کرٹن بھی تھا۔ ہوٹل کے کمرے میں بیٹھے ہمیں بس کی آمد کا انتظار تھا ۔ اس کے لیے ہم عمران صاحب سمیت اِدھر اُدھر فون پر رابطہ بھی کر رہے تھے ۔ ہمیں آگے سے یہی جواب مل رہا تھا کہ آپ سامان کے ساتھ تیار رہیں، بس کچھ دیر میں آ جائے گی۔ ڈیڑھ دو بجے کے لگ بھگ ہم کمرے سے سامان لے کر نیچے ہوٹل کی لالی (استقبالیہ) میں آگئے اور وہاں بس کا انتظار کرنا شروع کر دیا۔ استقبالیہ پر ائیر کنڈیشنز بند تھے اور گرمی کا سماں تھا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد اہلیہ محترمہ اور راضیہ کو ہم نے واپس اوپر کمرے میں بھیج دیا کہ بس آئے گی تو پھر بلا لیں گے۔ وقفے وقفے کے بعد عمران اور واجد باہر ذرا فاصلے پر سڑک پر جا کر دیکھ لیتے کہ بس کہیں آ نہ گئی ہو۔ اس دوران ایک آدھ بس وہاں آ کر رُکی بھی ، لیکن وہ ہماری مطلوبہ بس نہیں تھی۔ انتظار میںکم و بیش ڈیڑھ دو گھنٹے مزید گزرے ہوں گے کہ پتہ چلا ہماری بس آ گئی ہے۔ دھوپ کچھ تیز تھی، گرمی بھی تھی ۔ اوپر کمرے سے اہلیہ محترمہ اور راضیہ کو بلایا اور سامان کے ساتھ سڑک پر بس کے پاس پہنچے۔ واجد اور عمران نے ہمارے اٹیچی اور کھجوروں کا کرٹن بس
کے نچلے حصے میں سامان کی جگہ پر رکھا۔ ہم نے واجد کو الوداع کہا اور بس میں بیٹھ گئے۔ بس میں ڈرائیور کے ساتھ ایک دو افراد کے علاوہ اور کوئی سواریاں نہیں تھیں۔ اس کا مطلب تھا کہ ابھی مدینہ منورہ کے دیگر ہوٹلوں سے مکہ مکرمہ کے لیے اور افراد یا لوگوں نے بس میں سوار ہونا تھا۔ ہم بس کے اگلے حصے میں اپنی مرضی کی سیٹوں پر بیٹھ گئے تاکہ سفر کے دوران باہر کے مناظر ہماری نگاہوں کے سامنے رہیں۔
سہ پہر پانچ بجے یا اس سے کچھ بعدکا وقت ہو گا کہ بس ہمارے ہوٹل کے سامنے سے روانہ ہوئی۔اس نے دیگر ہوٹلوں سے اور لوگوں کو جو ہماری طرح بس کے انتظار میں تھے اٹھاتے ہوئے مزید ایک آدھ گھنٹہ یا اس سے کچھ زائد وقت لگایا۔ بس مدینہ منورہ کی شاہراہوں سے باہر نکلی تو شام چھ بجے کے لگ بھگ کا وقت ہو گا۔ اب ہم لوگوں کی اگلی منزل مدینہ منورہ کے مضافات میں ذوالحلیفہ یا بہارِ علی (بئر علی) کی بستی تھی جہاں ہم نے عمرے کی نیت کر کے احرام باندھنا تھے۔ ذوالحلیفہ میں ایک وسیع و عریض مسجد ہے جہاں بڑی تعداد میں غسل خانے اور وضو خانے بنے ہوئے ہیں۔ ہم وہاں پہنچے تو اور لوگ بھی کافی تعداد میں موجود تھے۔ وضو کر کے ہم نے احرام باندھے ۔ ہم نے یہاں عصر کی قصر نماز پڑھی، عمرے کی نیت کی ، نوافل پڑھے اور باہر بس میں آ کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر میں ڈرائیور صاحب اور ان کے ساتھی نے اپنی سیٹیں سنبھالیں اور بس مکہ مکرمہ کی شاہراہ (شارع ہجرہ) پر رواں دواں ہو گئی۔
شام کا ملجگا، اندھیر چھا رہا تھا،بس چل رہی تھی۔ سڑک سے ہٹ کر کھجوروں کے درخت ، چھوٹے بڑے باغ اور کچھ سر سبز قطعات نگاہوں کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ ایک دوسرے سے ہٹ کر اور فاصلے پر بنے اِکا دُکا مکانات میں بجلی کے بلب روشن ہو چکے تھے۔ بس بڑی یکساں سپیڈ کے ساتھ مکہ مکرمہ کی شاہراہ پر رواں دواں تھی۔ عمران کا خیال تھا کہ رات بارہ بجے تک بس ہمیں مکہ مکرمہ پہنچا دے گی جبکہ بس کی سپیڈ کو سامنے رکھتے ہوئے میرا خیال تھا کہ یہ ہمیں رات کو ئی ایک بجے کے بعد ہی مکہ مکرمہ پہنچائے گی۔ اس دوران مکہ مکرمہ میں عمرہ آرگنائزر کے نمائندے شیر افضل کا فون آ گیا ۔ ان کا پوچھنا تھا کہ آپ کے ساتھ کتنے لوگ آ رہے ہیں اور آپ کس وقت تک مکہ مکرمہ پہنچیں گے۔ میں نے انہیں بتایا کہ چار لوگ ہیںاور زیادہ امکان یہی ہے کہ ایک بجے کے لگ بھگ ہماری بس مکہ مکرمہ پہنچ سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ مجھ سے رابطہ رکھیے ۔ میں ادھر ہی آپ کے پہلے والے قیام کے ہوٹل المروج کے قریب ہی دوسرے ہوٹل فندق مشاعر الذ ھبیہ میں آپ کے پہنچنے تک موجود ہوں گا۔
کوئی دو اڑھائی گھنٹے کا سفر طے ہوا ہو گا کہ ڈرائیور نے سڑک کے کنارے بنے ایک پر رونق ہوٹل کے سامنے بس روکی اور بتایا کہ ہم کوئی آدھا گھنٹہ یہاں رُکیں گے، آپ لوگ کھانے پینے کے ساتھ اپنی دیگر ضروریات سے فارغ ہو سکتے ہیں۔ ہم نے ہلکے سے کھانے کا آرڈر دیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر باہر نکلے، میں نے ایک چکر لگایا اور بس میں آ کر بیٹھ گئے ۔ باقی لوگ بھی آنا شروع ہو گئے۔ کچھ دیر میں ڈرائیور اور ان کا ساتھی بھی آ گئے اور بس ایک بار پھر اپنی منزل مکہ مکرمہ کی طرف رواں دواں ہو گئی۔
ہمیں اندازہ تھا کہ مکہ مکرمہ پہنچنے میں ہمیں اڑھائی تین گھنٹے لگیں گے کیوں نہ کچھ وقت کے لیے سو لیا جائے۔ میں نے سونے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔آنکھیں بند ہوتیں تو بھی چند منٹوں میں دوبارہ کُھل جاتیں۔باہر کے مناظر بھی اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آ رہے تھے البتہ پیچھے سے آنے والی گاڑیوں کی اگلی روشنیاں اور ہمارے آگے جانے والی گاڑیوں کی پچھلی طر ف کی سرخ روشنیاں سامنے بس کی ونڈ سکرین پر باہم گُڈ مُڈ ہوکر نظر آ رہی تھیں۔ میں نے ایک بار پھر سونے کی کوشش کی ۔ کچھ دیر کے لیے سویا بھی لیکن پھر جاگ پڑا۔ اسی دوران ہمیں مکہ مکرمہ سے شیر افضل صاحب کا یہ پوچھنے کے لیے فون آیا کہ ہم کتنی دیر میں پہنچ جائیں گے۔ میں نے اندازے سے انہیں بتایا کہ ہمیں مکہ مکرمہ پہنچنے میں شاید مزید ایک دو گھنٹے لگ جائیں گے۔
گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھ رہی تھیں ۔ کوئی پونے ایک بجے یا اس کے ذرا بعد کا وقت ہو گا کہ ایسے لگا کہ بس مکہ مکرمہ کے مضافات میں سے گزر رہی ہے۔کچھ ہی دیر میں دُور مکہ رائل کلاک ٹاور کی روشنیاں نظر آناشروع ہو گئیں بلکہ بس جس سڑک (شارع) سے گزر رہی تھی اس پر مسجد الحرام کی طرف اشارہ کرنے والے بورڈ بھی نظر آنا شروع ہو گئے۔ بس چلتی رہی اور کچھ ہی دیر میں اس نے ہمیں ہمارے ہوٹل کے قریب شارع ابراہیم خلیل پر بنے سٹاپ جو ایک مسجد (غالباً مسجد بخاری )سے متصل ہے پر پہنچا دیا۔ ہم گاڑی سے اترے تو سامنے مکہ رائل کلاک ٹاور کے کلاک کی چمکتی سوئیاں کوئی ڈیڑھ بجے کا وقت دکھا رہی تھیں۔ عمران نے بس سے سامان اتروایا۔ میں نے شیر افضل صاحب کو فون کیا کہ ہم شارع ابراہیم خلیل پر بس سٹاپ سے اترے ہیں۔ شیر افضل صاحب نے بتایا کہ آپ سڑک پار کر کے بائیں طرف نکلنے والے راستے پر ذرا چڑھائی پر اوپر آ جائیں، سامنے ہی ہوٹل مشاعرالذھبیہ ہے۔ (جاری ہے)
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: اہلیہ محترمہ مکہ مکرمہ کے سامنے بتایا کہ شیر افضل بیٹھ گئے ہوٹل کے کے ساتھ رہی تھی کچھ دیر نے ایک کے بعد کا وقت اور بس کے لیے بجے کے تھا کہ
پڑھیں:
صدر مملکت، وزیر اعظم، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی عیدالاضحیٰ پر قوم کو مبارکباد
اسلام آباد:
عیدالاضحیٰ کے موقع پر صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور دیگر اعلیٰ عہدیداران نے قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے خصوصی پیغام جاری کیا۔
صدر مملکت آصف علی زرداری
صدر مملکت آصف علی زرداری نے عیدالاضحیٰ 1446ھ کے مبارک موقع پر پوری پاکستانی قوم اور عالم ِاسلام کو دلی مبارکباد پیش کی اور کہا کہ عید الاضحٰی ہمارے ایمان، قربانی، ایثار اور بھائی چارے کے جذبے کو ازسرِ نوزندہ کرنے کا دن ہے۔
انہوں نے کہا کہ عیدالاضحیٰ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی بے مثال اطاعت، قربانی اور تسلیم و رضا کی یاد تازہ کرتی ہے، یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ہی ہماری انفرادی اور اجتماعی کامیابی مضمر ہے، ہمیں حضرت ابراہیمؑ کے ایثار و قربانی کی روح سے سبق سیکھنے اور اسے اپنی زندگیوں میں اُتارنے کی ضرورت ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ آج ہمیں معاشرے کے کمزور اور محروم طبقات کا سہارا بننے کی ضرورت ہے، ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنے اطراف میں موجود ہر محتاج، بیمار،غریب اور مسکین فرد کا ہمیشہ خیال رکھیں گے۔
ہمیں اپنے رویّوں میں قربانی،محبت، بھائی چارے اور اتحاد کو فروغ دینا ہوگا، ہمیں بطور قوم ایک دوسرے کا سہارا بن کر ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہو کر پاکستان کو ایک عظیم اور خوشحال ملک بنانا ہے۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے مزید کہا کہ پوری پاکستانی قوم کو اس عزم کا اعادہ کرنا ہے کہ ہم بحیثیت ِقوم دلوں کو نفرت اور تعصب سے پاک کریں گے، اللہ تعالیٰ ہماری قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، پاکستان کو امن، ترقی اور خوشحالی عطا فرمائے۔
وزیر اعظم شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف نے عیدالاضحیٰ 1446ھ کے بابرکت موقع پر قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے قربانی کے اصل مفہوم پر زور دیا ہے۔
اپنے خصوصی پیغام میں وزیراعظم نے کہا کہ عیدالاضحیٰ ہمیں صرف جانور کی قربانی کا نہیں، بلکہ اپنی خواہشات، نفس اور ذاتی مفادات کو اعلیٰ قومی مقاصد کے لیے قربان کرنے کا درس دیتی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ قربانی کا جذبہ انسان میں صبر، حوصلہ، ایثار اور استقامت جیسے اوصاف پیدا کرتا ہے، جو کسی بھی قوم کی ترقی اور استحکام کی بنیاد ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان آج ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور ایسے میں ہمیں اجتماعی یکجہتی، ایثار اور قربانی کے جذبے کو فروغ دینا ہو گا تاکہ یہ سفر مزید تیزی سے جاری رہے۔
انہوں نے قوم کو حالیہ بھارتی اشتعال انگیزی کے خلاف قوم کے اتحاد اور عزم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی قوم نے دشمن کو واضح پیغام دیا کہ ہم اپنے دفاع، خودمختاری اور وقار کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسی جذبے کو ہمیں داخلی چیلنجز اور معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے بھی اپنانا ہو گا۔
شہباز شریف نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اپنی اقتصادی اور سماجی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہو گا اور تمام دستیاب وسائل کو یکجا کر کے قومی ترقی، خوشحالی اور خود کفالت کو یقینی بنانا ہو گا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ عیدالاضحیٰ کا بابرکت دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قربانی کا راستہ ہمیشہ کامیابی، استحکام اور اجتماعی فلاح کی طرف لے جاتا ہے۔ آئیے آج کے دن یہ عہد کریں کہ ہم ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک و ملت کی خدمت کو ترجیح دیں گے۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف عید کی نماز لاہور میں ادا کریں گے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر (نشان امتیاز ملٹری)
عیدالاضحیٰ کے بابرکت موقع پر چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر (نشانِ امتیاز ملٹری)، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل نوید اشرف اور چیف آف ائیر اسٹاف ایئر مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے پوری قوم کو دلی مبارکباد پیش کی ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے مطابق افواجِ پاکستان نے اپنے پیغام میں ملک میں پائیدار امن، خوشحالی اور قومی یکجہتی کے لیے نیک تمناؤں اور مخلص دعاؤں کا اظہار کیا ہے۔
پیغام میں کہا گیا کہ پاکستانی قوم کی ثابت قدمی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور افواجِ پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بہادر شہریوں کی قربانیوں کو سراہتے ہیں، جو مادرِ وطن کی سلامتی اور استحکام کے لیے ہر محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
افواجِ پاکستان نے کہا کہ عیدالاضحیٰ خود احتسابی، قربانی اور اتحاد کا مقدس موقع ہے، جو ہمیں معاشرتی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی تلقین کرتا ہے۔
اس موقع پر یہ عزم دہرایا گیا کہ افواجِ پاکستان قوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور ملک کی خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کے تحفظ کے لیے اپنے مقدس فریضے کی ادائیگی میں ہمہ وقت مستعد ہیں۔
پیغام میں شہداء پاکستان کے عظیم اہلِ خانہ کو بھی خراجِ عقیدت پیش کیا گیا جن کے پیاروں نے قوم اور امن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ افواجِ پاکستان نے کہا کہ قوم ان قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی اور ان کے اہل خانہ ہمارے دلوں میں خاص مقام رکھتے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے عیدالاضحیٰ کے بابرکت موقع پر امتِ مسلمہ بالخصوص پاکستانی قوم کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دن سنتِ ابراہیمیؑ، اطاعتِ الٰہی، قربانی اور ایثار کا عظیم درس دیتا ہے۔
اپنے تہنیتی پیغام میں وزیر داخلہ نے کہا کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی قربانی تاریخِ انسانیت میں صبر، اطاعت اور ایثار کی بے مثال مثال ہے، جس کی یاد ہمیں نفس کی خواہشات کو قابو میں رکھ کر اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کرنے کا درس دیتی ہے۔
محسن نقوی نے کہا کہ قربانی محض جانور ذبح کرنے تک محدود نہیں بلکہ اصل قربانی یہ ہے کہ ہم اپنی ذاتی خواہشات، مفادات اور انانیت کو قومی مفاد پر قربان کریں۔
انہوں نے کہا کہ قوم نے جس طرح آپریشن معرکۂ حق میں مثالی اتحاد اور قربانی کا مظاہرہ کیا، وہ قابل تحسین ہے۔ 10 مئی کو قوم نے جس سیسہ پلائی دیوار کی طرح مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہو کر یکجہتی دکھائی، وہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ شہدائے وطن اور ان کے اہلِ خانہ کو عید کی خوشیوں میں یاد رکھنا ہمارا قومی اور اخلاقی فرض ہے۔ ہم ان عظیم سپوتوں کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے وطن عزیز کے دفاع اور امن کے قیام کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔”
محسن نقوی نے عوام سے اپیل کی کہ وہ عید کے موقع پر یتیموں، بیواؤں، اور غریبوں کو اپنی خوشیوں میں شامل کریں اور محبت، رواداری اور ہمدردی کے جذبے کو فروغ دیں۔
وزیر داخلہ نے فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم بھائی بہنوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ قربانی کی اصل تصویر ہیں۔ وہ آج بھی ظالم قوتوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور ہمیں ان کی حمایت اور دعاؤں میں یاد رکھنا چاہیے
آخر میں وزیر داخلہ نے دعا کی کہ یہ عید امت مسلمہ کے لیے رحمت، برکت اور امن کا پیغام ثابت ہو اور اللہ تعالیٰ ہمیں قربانی کی اصل روح کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے قوم اور امت مسلمہ کو عیدالاضحیٰ کی دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عظیم دن ہمیں قربانی، ایثار، اطاعت اور اتحاد کا درس دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کی قربانی انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے، اور اللہ کی رضا کے لیے ہر قسم کی قربانی پر آمادگی ہمارا دینی فریضہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ عید کی خوشیاں مستحقین، کمزور طبقات اور شہداء کے اہل خانہ کے ساتھ بانٹنا اصل اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے۔
اسپیکر نے مسلح افواج کے جری جوانوں کو بھی عید کی مبارکباد دی اور کہا کہ پوری قوم سرحدوں کے محافظوں کے ساتھ کھڑی ہے، پاکستانی قوم کو 10 مئی کو ملنے والی خوشی سب خوشیوں سے بڑھ کر ہے۔
سردار ایاز صادق نے کشمیری اور فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت اور اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ قربانی کی آلائشیں حکومتی ہدایات کے مطابق ٹھکانے لگائیں اور صفائی و نظم و ضبط کا خاص خیال رکھا جائے تاکہ بیماریوں سے بچاؤ ممکن بنایا جا سکے۔
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کُنڈی
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم نے عیدالاضحی پر پوری قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ عیدالاضحی ایثار، قربانی، خلوص اور انسانیت کے جذبے کی تجدید کا دن ہے۔
انہوں نے کہا کہ عید الاضحی کی خوشیوں میں غریب، نادار اور مستحق افراد کو بھی شریک کریں، عید کے ایام ہمیں باہمی اخوت، ہمدردی اور اتحاد و یگانگت کا پیغام دیتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے عیدالاضحیٰ 1446ھ کے بابرکت موقع پر مسلم اُمہ بالخصوص پاکستان اور سندھ کے عوام کو دلی مبارکباد پیش کی ہے۔
اپنے خصوصی پیغام میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ عیدالاضحیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال قربانی کی یاد دلاتی ہے، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کا عزم کیا۔ یہ واقعہ ہمیں ایثار، صبر، وفاداری اور قربانی جیسے اعلیٰ اوصاف اپنانے کا پیغام دیتا ہے۔
وزیراعلیٰ نے عوام سے اپیل کی کہ عید کی خوشیوں میں غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور مستحق افراد کو ضرور شریک کیا جائے، تاکہ یہ خوشیاں حقیقی معنوں میں پوری قوم کے لیے بن سکیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کا معاشرہ ہمیشہ انسان دوستی، اخلاص اور اتحاد کا علمبردار رہا ہے اور ہماری روایات رواداری، سماجی فلاح اور بھائی چارے پر قائم ہیں۔
سید مراد علی شاہ نے عازمین حج سے اپیل کی کہ وہ مقدس سرزمین پر سندھ، پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے خصوصی دعائیں کریں اور فلسطین و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
عید کے موقع پر صفائی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے تمام ضلعی اور بلدیاتی انتظامیہ کو ہدایت دی کہ قربانی کی آلائشوں کی بروقت صفائی کو یقینی بنایا جائے، تاکہ عوام کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ ہو اور ماحول کو صاف رکھا جا سکے۔
وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ سندھ حکومت صوبے میں امن، ہم آہنگی اور ترقی کے ایجنڈے پر مسلسل عمل پیرا رہے گی، اور عوامی خدمت کا مشن پوری لگن سے جاری رکھا جائے گا۔
Tagsپاکستان