Daily Mumtaz:
2025-09-19@01:44:21 GMT

جسٹس منصور کے 13 اور 16 جنوری کے فیصلے واپس لے لیے گئے

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

جسٹس منصور کے 13 اور 16 جنوری کے فیصلے واپس لے لیے گئے

کسٹمز ریگولیٹر ڈیوٹی کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری کے فیصلے واپس لے لیے۔

جسٹس منصور نے 13 جنوری کو آرٹیکل 191 اے کی تشریح سے متعلق نوٹسز جاری کیے تھے۔

دورانِ سماعت آئینی بینچ نے نذر عباس توہین عدالت کیس کا ریکارڈ کسٹم ڈیوٹی کیس سے منسلک کرنے کا حکم دے دیا۔

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ کے فل کورٹ تشکیل کا آرڈر چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

جسٹس منصور کے فل کورٹ تشکیل کا آرڈر چیلنج کرنے کا فیصلہ
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں کسٹم ریگولیٹر ڈیوٹی کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور اعوان نے آئینی بینچ کو وفاقی حکومت کے فیصلے سے متعلق مؤقف سے آگاہ کر دیا۔

دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ نے از خود نوٹس کا اختیار استعمال کیا، وہ یہ اختیار استعمال نہیں کر سکتے تھے، غیر آئینی فیصلہ ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت اسے چیلنج کرے گی، گزشتہ روز کے توہین عدالت والے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے، جسٹس منصور علی شاہ کے 13 اور 16 جنوری کے فیصلوں پر نظرِ ثانی اپیل کا فیصلہ ہوا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے کسٹم ڈیوٹی کیس اپنے بینچ میں لگانے کا حکم دیا ہے، کیا اس فیصلے کی موجودگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کی فکر صرف چند افراد کو نہیں بلکہ سب کو ہے، جو کام کریں وہ تو ڈھنگ سے کریں، کونسی قیامت آگئی تھی، یہ بھی عدالت ہی ہے، زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا، سپریم کورٹ اور عدالتوں نے رہنا ہے، ہمیں ہی اپنے ادارے کا خیال رکھنا ہے، کوئی پریشان نہ ہو، ادارے کو کچھ نہیں ہو گا۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ 13 جنوری کو آرڈر دیا کہ سماعت 27 جنوری کو ہو گی، پھر سماعت اچانک اگلے روز کے لیے کیسے مقرر ہو گئی؟

سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 3 رکنی بینچ سے ایک جج الگ ہو گئے، کیا وہ جج آرڈر دے سکتے تھے کہ کیس مخصوص بینچ کے سامنے لگے؟

جسٹس حسن اظہر رضوی نے بیرسٹر صلاح الدین سے سوال کیا کہ کیا بینچ دوبارہ قائم کرنے کا اختیار اسی جج کے پاس تھا؟

جسٹس نعیم افغان نے بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ ہمیں لگتا ہے تمام تنازع کے ذمے دار آپ ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ عدالتی حکمنامے کے مطابق آپ کا اصرار تھا ریگولر بینچ کیس سن سکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ کیا آپ کو ہم ججز پر اعتماد نہیں؟ میں نااہل ہوں یا مجھے قانون نہیں آتا تو مجھے بتا دیں، نیا سسٹم کسی کو پسند نہیں تو وہ ایک الگ بات ہے۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ کیس کا ایک حکمنامہ سابق چیف جسٹس بندیال صاحب کے دور میں فروری 2021ء کا بھی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عجیب بات ہے، 16 جنوری کے حکمنامے میں کہا گیا کیس کو سنا گیا، سمجھا جائے، کیس یا سنا گیا ہوتا ہے یا نہیں سنا گیا ہوتا، یہ سنا گیا سمجھا جائے، اس کی اصطلاح کہاں سے آئی؟

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ میرے پاس 13 جنوری کے 2 حکمنامے موجود ہیں، پہلے میں کہا گیا کیس کی آئندہ سماعت 27 جنوری کو ہے، دوسرے حکمنامے میں کہا گیا کیس کی اگلی تاریخ 16 جنوری ہے، حکمنامے میں کیس کی تاریخ تبدیل کی گئی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہی اٹارنی جنرل کو رول27 اے کا نوٹس دیے بغیر کیسے کہا گیا کیس سنا ہوا سمجھاجائے،

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کی فکر ہم سب کو ہے، کام ضرور کریں لیکن قانون کےمطابق کریں، غیر قانونی طریقے سے کام نہ کریں، ڈھنگ سے کام کریں، کیا ہم نے ریگولر بینچ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا؟ ہم نے تو صرف کیس سنا۔

دوران سماعت جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ کل فیصلے میں کہا گیا کیس اسی بینچ میں سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، فیصلے میں تو ججز کےنام تک لکھ دیے، غلط یا صحیح لیکن جوڈیشل آرڈر ہے، کیا ہم یہاں کیس سن سکتے ہیں؟

جسٹس محمد علی مظہر نے بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ آپ بتا دیں کہ کیس کس بینچ کے سامنے چلے گا؟ کیا یہ کیس ہم خیال کے پاس جائے یا یہاں چلے؟ کیوں ایسا تاثر وکلاء کی جانب سے دیا جارہا ہے؟ ہماری بھی عزت ہے، ایسا کرتے ہیں کہ کیس 20 سال تک ملتوی کر دیتے ہیں۔

بیرسٹرصلاح الدین نے کہا کہ آپ میری ساکھ کو چیلنج کر رہے ہیں، میں بھی آپ کو سخت جواب دوں گا۔

جسٹس مندوخیل نے بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ آپ جذباتی نہ ہوں ہم آپ کے جذبات کا احترام کرتے ہیں، نام تو بدنام ویسے ہی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ ہم غیر قانونی بیٹھے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ ہمارا بھی وقار ہے۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ 26ویں ترمیم سے فائدہ لینے کی معلوم نہیں کہاں سے بات چل نکلی ہے۔

جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جب تک 26ویں ترمیم ہے، انکار نہیں کر سکتے، جن کیسز کا وکلاء نے حوالے دیے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ اپنی باری آئی تو آئین کو اٹھا کر ٹوکری میں پھینک دیا۔

جس کے بعد آئینی بینچ میں کسٹم ریگولیٹر ڈیوٹی کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: نے بیرسٹر صلاح الدین سے کہا کہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جسٹس امین الدین نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل نے جسٹس منصور علی شاہ میں کہا گیا کیس اٹارنی جنرل سپریم کورٹ ڈیوٹی کیس جنوری کے چیلنج کر جنوری کو سماعت کے کرنے کا سنا گیا کہ کیس کیس کی

پڑھیں:

ہائیکورٹ کے رولز ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہوگئے . جسٹس محسن اختر کیانی

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 ستمبر ۔2025 )اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ادارہ شماریات میں تقرریوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دلچسپ ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری ہائیکورٹ کے رولز ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہوگئے، آپ سے 5 ماہ میں تقرری کے رولز نہیں بن رہے؟.

(جاری ہے)

نجی ٹی وی کے مطابق ادارہ شماریات میں تقرریوں کے حوالے سے زیر سماعت کیس کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 5 ماہ ہوگئے، آپ لوگوں سے تقرری کے رولز نہیں بنے فاضل جج نے کہا کہ ہماری ہائی کورٹ کے رولز ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہوگئے، عدالتی عملہ آپ کو دے دیتے ہیں جو ایک رات میں رولز بھی بنا لے اور دستخط بھی کروا لے.

یاد رہے کہ اس سے قبل 5 اگست کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں وفاقی دارالحکومت میں پٹواریوں کی خالی نشستوں پر بھرتیوں سے متعلق درخواست کی سماعت میں جسٹس محسن اختر کیانی نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ڈپٹی کمشنر کو نہیں پتہ کہ ا±ن کا کون سا آدمی کرپٹ ہے؟انہوں نے کہا تھا کہ جانتا ہوں ہمارا کون سا جج کرپٹ ہے، مجھے سب پتہ ہے کہ اداروں میں پیسے کیسے بٹورے جاتے ہیں، ان کا بس چلے تو یہ رشوت کو قانونی طور پر لاگو کر دیں.

قبل ازیںاسلام آباد کے پٹوار سرکلز میں پرائیویٹ اشخاص کے سرکاری کام کرنے کی درخواست پر سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے پٹواریوں کی 45 سیٹوں پر صرف نو پٹواری کام کر رہے ہیں پٹواریوں نے بھی آگے منشی رکھے ہوئے ہیں. معززجج نے قراردیا ہے کہ اسلام آباد کی پوسٹیں کسی اور صوبے کے لئے نہیں ہیں ،میں مقدمہ درج کرنے کا آرڈر نہیں دے رہا ورنہ یہ نو لوگ جیل چلے جائیں گے اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری کی پوسٹیں لوکل ہیں فیڈرل کی نہیں چیف کمشنر کو تو فائدہ ہے نو بندوں سے 45 کا کام کروا رہے ہیں پورا نظام ہی بے ایمانی پر چل رہا ہے.

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پٹوار سرکلز میں پرائیویٹ اشخاص کے سرکاری کام کرنے کے خلاف درخواست میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی. 

متعلقہ مضامین

  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرت مندانہ فیصلے کریں. عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلے کریں، عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • ہائیکورٹ کے رولز ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہوگئے . جسٹس محسن اختر کیانی
  • لاہور ہائیکورٹ: اعجاز چوہدری کی 9 مئی کیس میں سزا کیخلاف اپیلیں متعلقہ بینچ کو بھجوا دیں
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود کو بطور جج کام کرنے سے روک دیا گیا
  • ایمان مزاری کی غیر حاضری، کیس دوسرے بینچ کو منتقل کرنے کی استدعا مسترد
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس طارق محمود کو جج کے اختیارات سے روک دیا گیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم