اسٹوڈینٹس کارنر : سنڈے اسپیشل
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
مذہب اور فلسفہ، فکر اور ایمان کا سنگم
سمیع اللہ
مذہب اور فلسفہ دو علیحدہ مضامین ہیں، جو انسان کے وجود، اخلاقی اقدار اور کائنات کے فہم کے حوالے سے اپنا نقظہ نظر پیش کرتے ہیں۔ دونوں دنیا اور انسانی تجربے کو سمجھنے کا طریقہ فراہم کرتے ہیں۔
جہاں مذہب لوگوں کو وحی، صحیفے اور رسومات کے ذریعے متعدد سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرتا ہے، وہیں فلسفہ ان خیالات کا گہرا تجزیہ کرنے کے لیے عقل اور مکالمے کا استعمال کرتا ہے۔ پھر بھی، ان دونوں شعبوں کے درمیان جو تعلق رہا ہے، اس نے انسان کی فکری ترقی اور آج کے دور میں اخلاقیات، مابعدالطبیعات اور زندگی کے مقصد اور معنی پر بحث میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مذہب میں بنیادی طور پر انسان اور خدا کے درمیان تعلق پر زور دیا گیا ہے۔ مذہبی فکر کائنات کی تخلیق، روح اور زندگی کے مقصد کو بیان کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ دوسری طرف، فلسفہ ایک ایسا علم ہے جو عقلی طریقوں سے حکمت کی تلاش میں ہوتا ہے۔
قدیم یونان کے فلسفی سقراط، افلاطون، ارسطو سے شروع ہو کر فلسفہ حقیقت، علم، اخلاقیات اور وجود کی خصوصیات دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ فلسفی تنقید کرتے ہیں؛ وہ دنیا کا جائزہ لیتے ہیں، تجربات اور نمونوں کی تلاش کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے غور طلب سوالات رکھتے ہیں۔ حقیقت میں فلسفہ ایک عارضی اور تنقیدی عمل ہے، جو قیاس آرائیوں کے ساتھ کام کرتا ہے اور مکالمے کے طریقہ کار کے ذریعے وضاحت حاصل کرتا ہے۔
درحقیقت مذہب اور فلسفہ کا مطالعہ محض تضاد نہیں ہے، تاہم یہ مکمل طور پر ہم آہنگ بھی نہیں ہے۔ دونوں شعبے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ جہاں فلسفیوں نے بہت سے مذہبی خیالات کی تفصیل سے وضاحت کی ہے، علماء نے فلسفیانہ بصیرت کو اپنے دینی نظاموں میں شامل کیا ہے۔ اس یکجائی کو تاریخ کے مختلف گوشوں میں دیکھا جا سکتا ہے، جیسا کہ قرون وسطیٰ میں سیکھولزم (Scholasticism) کی شکل میں، جس میں ارسطو کی منطق کو عیسائی مذہب کے اہم پہلوؤں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی تھی، یا پھر مشرقی فلسفیانہ روایات اور ہندومت، بدھ مت اور تاؤ مت کے مذہبی عقائد کے درمیان مکالمہ۔
اخلاقیات ایک اور ایسا میدان ہے جہاں مذہب اور فلسفہ ایک ساتھ آتے ہیں۔ دونوں شعبے اچھے اور برے، صحیح اور غلط، اور انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں ان کے کردار و ذمہ داریوں کے بارے میں نظریات فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، فلسفیانہ اخلاقیات زیادہ سیکولر ہوتی ہے اور عموماً زیادہ مجرد نوعیت کی ہوتی ہے۔
تاریخی طور پر اخلاقی نظریات جیسے امیمانیول کانٹ کی کٹیگوریکل امپیرٹیو (imperative categorical ) اور جان اسٹورٹ مل کا یوٹیلیٹیرین ازم (utilitarianism) اخلاقی فیصلے کرنے کے لیے مضبوط ڈھانچے فراہم کرتے ہیں، جو مذہبی رہنمائی کے بغیر کام کرتا ہے۔ یہ سیکولر اخلاقی نظریات، مذہبی اخلاقی تعلیمات سے مشابہ ہیں، کیونکہ دونوں افراد کے معاشرتی طرز عمل کے لئے ہم آہنگ اخلاقی اصول پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مذہب اور فلسفہ کے درمیان اولین واضح تنازعہ انسانی زندگی میں عقل کے کردار سے متعلق ہے۔ فلسفہ، ایک علمی معراج کی طرح، یہ فرض کرتا ہے کہ اگر ہم کافی سوچیں اور مناسب طریقے سے غور کریں تو ہم دنیا کے بارے میں زیادہ جان سکتے ہیں اور اس کی حقیقت معلوم کر سکتے ہیں۔ لیکن مذہب اس بات کو رد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ حقیقتیں ایسی ہیں جو انسان کے علم کی حدود سے باہر ہیں اور ان پر ایمان کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ عقل کے ذریعے سمجھنے کی۔ یہ کشمکش خدا اور کائنات کے سوالات میں بہترین طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ اس مسئلے پر رینی ڈیکارٹ اور ایمانوئل کانٹ جیسے فلسفیوں نے بھی غور کیا۔
موجودہ دنیا میں، مذہب اور فلسفہ میں تبدیلی آئی ہے، خاص طور پر سیکولر ازم کے عروج اور دنیا کے کئی حصوں میں مذہب کی کمزوری کے نتیجے میں۔ روشن خیالی کے دور (Enlightenment) نے عقل اور آزادی پر توجہ مرکوز کی اور اس نے مذہبی تصورات سے دنیا کو بیان کرنے کے رجحان کو ختم کیا، جس کے نتیجے میں بنیادی طور پر ایک سیکولر فلسفیانہ رویہ سامنے آیا۔ اس کے باوجود، روحانیت اب زیادہ تر لوگوں کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے، کیونکہ لوگ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مقصد اور اعلیٰ حقیقت کی تلاش مذہب کے بغیر کس طرح کی جا سکتی ہے۔
اس لیے، جدید فلسفے میں ہم کچھ رجحانات دیکھ سکتے ہیں جو روحانی تجربات کو وجودی اور فنومنولوجیکل تحقیق میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایمان اور عقل کے درمیان کشمکش اب بھی ہمارے ساتھ ہے، جو دنیا کے بارے میں ہمارے خیالات کو پیچیدہ اور گہرائی سے ظاہر کرتی ہے۔ جیسے جیسے انسانیت نئی مشکلات اور سوالات کا سامنا کر رہی ہے، مذہب اور فلسفہ کے درمیان بات چیت انسانی ترقی کے لیے بھی بہت اہم ہے۔
پاکستان میں سیاحت کا فروغ
زینب محمود
پاکستان میں سیاحت ایک ابھرتا ہوا شعبہ ہے جس میں بہت زیادہ صلاحیت ہے، تاہم اسے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ ملک کے متنوع مناظر، جیسے ہمالیہ کی بلند چوٹیوں سے لے کر موہنجو داڑو اور لاہور کے تاریخی مقامات تک، اسے ایک پرکشش منزل بناتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں سیاحت میں بڑھوتری دیکھنے کو ملی ہے، خاص طور پر سفری پابندیاں نرم ہونے کے بعد، مقامی و بین الاقوامی سیاح پاکستان کے خوبصورت علاقے، ثقافتی ورثہ اور مہم جوئی کی منزلوں کا دورہ کر رہے ہیں۔ تاہم، اس شعبے کو اب بھی بنیادی ڈھانچے کی کمی، ماحولیاتی بگاڑ اور سیاحت کے فروغ کے لیے پائیدار طریقوں کے بارے میں آگاہی کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، ماحولیاتی فضلہ کم کرنے اور قدرتی ماحولیاتی تحفظ پر توجہ مرکوز کی جائے۔ پائیدار رہائش اور کم معلوم علاقوں میں ماحولیاتی سیاحت کو فروغ دے کر یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ نقل و حمل کے اچھے آپشنز جیسا کہ برقی گاڑیاں اور مشترکہ نقل و حمل کے نظام متعارف کرانے سے کاربن کے اخراج میں کمی کی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ مقامی کمیونٹی کی شرکت بہت ضروری ہے۔ مقامی کمیونٹیز کو سیاحت سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور ماحولیاتی سالمیت کو برقرار رکھنے کے بارے میں آگاہ اور بااختیار بنانا چاہیے۔ مقامی دستکاروں اور گائیڈز کے لیے منصفانہ اجرتوں کو یقینی بنانا اور مواقع فراہم کرنا پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دے سکتا ہے۔ حکومت کے اداروں اور نجی شعبے کے اشتراک سے پالیسیاں تیار کرنا ضروری ہوگا جو پاکستان کے تقافتی ورثے اور ماحول کا تحفظ کریں، جبکہ سیاحت کے تجربے کو آئندہ نسلوں کے لیے بہتر بنائیں۔
کزن میرج اولاد میں معذوری پیدا کر سکتی ہے
ثمین رضا
پاکستان میں کزن میرج کا رواج عام ہے۔ یہ رواج خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں رائج ہے۔ کزن میرج کو دو خاندانوں میں پیار و محبت بڑھانے کا ذریعہ مانا جاتا ہے، مگر اس سے ہونے والے نقصانات ان کی آنے والی زندگی میں مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں رشتہ داروں کے درمیان شادی (جیسے چچا، ماموں، پھپو کے بچوں کے مابین شادی) جینیاتی مسائل اور مختلف جسمانی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ پایا جانے والا جنیاتی مسئلہ تھیلاسیمیا (Thalassemia) کزن میرج کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ دل میں سوراخ، سپیچ ڈس آرڈر (disorders speech )، دماغ کی نشوونما میں کمی اور دیگر جینیاتی مسائل وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں 130 طرح کے جینیاتی ڈس آرڈر پائے جاتے ہیں جن میں 1000 سے زیادہ جینیاتی تغیرات (mutations genetic ) کا نتیجہ ہیں۔
اس شرح کو کم کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ آگاہی کیمپوں کا آغاز کریں تاکہ لوگ آنے والے وقتوں میں شادی سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اپنی آنے والی زندگی کو بہتر اور بغیر کسی مشکل کے گزاریں۔
سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی اثرات
آمنہ پروین
سوشل میڈیا نے گزشتہ دہائیوں میں دنیا کو تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات بھی ہیں۔ سوشل میڈیا کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں جو افراد پر اہم اثرات مرتب کرتے ہیں۔
مثبت اثرات
(1) معلومات کی فراہمی: سوشل میڈیا معلومات کو پھیلانے کا ایک اہم طریقہ ہے۔ لوگ دنیا بھر میں ہونے والی تازہ ترین خبریں اور معلومات کو فوراً حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے تعلیمی مواد، صحت کے مشورے اور دیگر اہم موضوعات پر آگاہی فراہم کی جاسکتی ہے۔
(2) رابطے کا وسیلہ: سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے میں مدد دی ہے، چاہے وہ دنیاکے کسی بھی کونے میں ہوں۔ یہ خاص طور پر دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔
(3) کاروباری مواقع: سوشل میڈیا نے کاروباری دنیا میں انقلاب برپا کیا ہواہے۔ آن لائن مارکیٹنگ، ای کامرس، اور فری لانسرز کے لیے نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔ چھوٹے کاروباری افراد بھی سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے کاروبار کو بڑھا سکتے ہیں۔
منفی اثرات
(1) ذہنی صحت پر اثرات: سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا پر غیر ضروری مواد اور تصاویرکو دیکھ کر لوگوں میں احساس کمتری اورمایوسی پیداہو جاتی ہے۔
(2) معلومات کی غلط تشہیر: سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں تیزی سے پھیلتی ہیں۔ جو کہ عوام کو گمراہ کر سکتی ہیں۔ بہت سی فیک نیوز یا افواہیں لوگوں کو غلط فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
(3) پرائیویسی کے مسائل: سوشل میڈیا پر لوگوں کی ذاتی معلومات کا غلط استعمال بھی ہو سکتا ہے۔ ہیکرز اور دیگر افراد ذاتی معلومات چوری کر کے اسے نقصان دہ مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک طاقتور پلیٹ فارم ہے۔ جس کے مثبت اور منفی دونوں اثرات ہیں۔ اس کا استعمال محتاط طریقے سے کرنا چاہیے تاکہ اس کے فوائد کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے۔
مصنوعی ذہانت کے اثرات
مریم خانزادی
شعبہ نفسیات، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی، لاہور
مصنوعی ذہانت کی حالیہ ترقی نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ دنیا اس کے اثرات کے بارے میں شدید فکر مند ہے۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس کے نقصانات اور ممکنہ خطرات کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے حقیقی طور پر انسانی زندگی پر کیا اثرات ہوں گے اس کے بارے میں کہنا قبل از وقت ہوگا۔؎ اس وقت اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ انسانیت خود کو آنے والے وقت کے لیے بھرپور تیار رکھے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر قسم کے ہتھیار سے لیس ہو۔ اس ٹیکنالوجی کا موثر طریقے سے مقابلہ نہ کرنا انسانیت کے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔ خدشات کے مطابق مصنوعی ذہانت انسانیت پر راج کر سکتی ہے۔ موثر اقدامات کی بدولت انسان مصنوعی ذہانت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتا ہے اور اس سے اپنی ترقی و خوشحالی میں بھرپور اضافہ کر سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مذہب اور فلسفہ مصنوعی ذہانت ایک دوسرے کے کرنے کی کوشش پاکستان میں کے بارے میں کرنے کے لیے سوشل میڈیا کی کوشش کر کے درمیان میں سیاحت سکتے ہیں کرتے ہیں کے ذریعے کرتا ہے سکتی ہے نے والے ہوتی ہے کے ساتھ دنیا کے سکتا ہے ہے اور اور اس
پڑھیں:
’جنگ ہو نہ ہو فلموں کے آئیڈیاز تو ملے‘، سوشل میڈیا پر پاک بھارت میمز وار
مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہوئے حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی، اٹاری بارڈر کی بندش اور دیگر اقدامات کے جواب میں پاکستان نے انڈین پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود اور سرحد بند کرنے کے علاوہ تجارت کا عمل معطل کرنے کا اعلان بھی کیا ہے جس کے بعد سوشل میڈیا پر جنگ کا سا ماحول بنا ہوا ہے۔
جہاں پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے پاکستان کے ان اقدامات کو سراہا وہیں انڈیا کے خلاف مختلف میمز بناتے نظر آئے۔ کئی بھارتی صارفین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت شدید ٹینشن کا ماحول ہے لیکن پاکستانیوں نے اس کو بھی مذاق میں اڑا دیا اور اس پر دلچسپ ردعمل دیتے نظر آئے۔
احسان گل لکھتے ہیں کہ ایک طرف انڈیا جنگ کی تیاری کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان میمز بنانے میں مصروف ہے۔
Reality pic.twitter.com/9EtaHE0Ap2
— Ihsan Gill (@saani33) April 24, 2025
ایک صارف نے لکھا کہ ہم تاج محل میں اقراء یونیورسٹی بنائیں گے اور ساتھ ہی کباب جیز کی برانچ بھی ہوگی۔
تاج محل میں ہم اقراء یونی ورسٹی بنائیں گے اور ساتھ ہی کباب جیز کی برانچ بھی ہوگی ????
— sabahat zaidi110 (@massagha110) April 24, 2025
ایان خان نامی صارف نے ایک تصویر پوسٹ کی جس پر لکھا کہ انڈیا پانی دو آنکھ میں صابن چلا گیا ہے۔
Please pani khol do ???? pic.twitter.com/viFfluvgHW
— AyaAn khan (@sorryAyaan4) April 24, 2025
ایک ایکس صارف نے لکھا ’انڈیا والو ہن لاڈ شاڈ ختم‘۔
pic.twitter.com/42QzkgNc99
— Ans (@PakForeverIA) April 25, 2025
وجے پٹیل نامی انڈین صارف نے جنگ کی دھمکی دہتے ہوئے پاکستانیوں کو کہا کہ آج رات مت سونا جس پر ایک صارف نے جواب دیا کہ ’کل ورکنگ ڈے ہے ہفتے کا دن رکھ لو‘۔
Yar kal working day hai Saturday kar lo? https://t.co/q5WfO0qOAe
— Y (@BiryaniWoman) April 24, 2025
عبد اللہ نامی صارف نے انڈیا کو کہا کہ 4 بج گئے ہیں لیکن ابھی تک انڈیا کی جانب سے کوئی جہاز نہیں آیا۔
Salay 4 baj gye hain still no jahaz https://t.co/UFJXLHtFPt pic.twitter.com/5CFilk1Q13
— Abdullah (@ohnoanywayy) April 24, 2025
ایک ایکس صارف کا کہنا تھا کہ ’دکھ اس بات کا ہے زندگی کو جندگی بولنا پڑے گا‘۔
Dukh is cheez ka hai,
Zindagi ko Jindagi bolna pary ga https://t.co/HgqTJ7UiCd
— W (@_Depressed_Dani) April 25, 2025
شمس خٹک نے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جس میں انڈین نیوز اینکر کہتا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان نے انڈیا کو نیوکلیئر وارننگ دی ہے۔ انہوں نے کیپشن میں لکھا کہ انڈین میڈیا ہمیں ڈراتے ڈراتے خود ہی ہم سے ڈرنے لگ گیا۔
Indian Media, saale hamain draate draate khud hi darne lg gaye hum se ????????pic.twitter.com/bsU402CNzI
— Shams Khattak (@Sh_am_92) April 25, 2025
میاں عامر نے لکھا کہ بھارتی آرمی چیف نے پاکستان جانے سے انکار کر دیا کہ وہاں سیکیورٹی خدشات ہیں۔
بریکنگ ????
بھارتی آرمی چیف نے پاکستان جانے سے انکار کر دیا
اخے وہاں سیکیورٹی خدشات ہیں???? pic.twitter.com/nPj5DQiWZ6
— میاں عامر ???? (@LegiMian) April 24, 2025
ایک ایکس صارف نے لکھا کہ بھارت نے پاکستان فوجیں بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔ سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر پاک بھارت جنگ دُبئی میں کرانے کا فیصلہ۔
بھارت کا پاکستان فوجیں بھیجنے سے انکار !
سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر پاک بھارت جنگ دُبئی میں کرانے کا فیصلہ ???? pic.twitter.com/NNTRcnuhX5
— Asmara Iqbal (@AsmaraIqbal07) April 24, 2025
ایک صارف نے لکھا کہ امریکا نے انڈیا کو دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان کو کچھ ہوا تو قرضہ آپ دیں گے۔
سہیل قریشی لکھتے ہیں کہ ’جنگ ہو نہ ہو فلموں کے آئیڈیاز تو ملے‘، جبکہ ایک صارف کا کہنا تھا کہ اس بار ابھینندن بھی واپس نہیں دیں گے اور چائے کی جگہ گڑ والا شربت پلائیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک بھارت جنگ پاک بھارت کشیدگی سندھ طاس معاہدہ شملہ معاہدہ