WE News:
2025-07-26@06:33:24 GMT

پی ٹی آئی کی نئی صوبائی قیادت اور نیا علاقائی منظر نامہ

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

پی ٹی آئی کی نئی صوبائی قیادت اور نیا علاقائی منظر نامہ

صوبہ خیبرپختونخوا ایک بار پھر سیاسی، ریاستی اور علاقائی سرگرمیوں اور پراکسیز کا “میدان”  بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مقامی روایتی میڈیا کی شہ سرخیوں سے زیادہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔

ایک طرف خیبرپختونخوا سمیت پوری پشتون اور بلوچ بیلٹ میں سیکورٹی فورسز اور ریاست مخالف گروپوں کی سرگرمیوں میں اصافہ ہوا ہے، تو دوسری جانب پی ٹی آئی نے بھی خیبرپختونخوا حکومت کی شکل میں موجود اپنے سیاسی “مورچے” میں جاری تجربات کو مزید وسعت دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اسی طرح خطے میں رونما ہونے والی بعض متوقع علاقائی تبدیلیوں اور پراکسیز کے ڈانڈے بھی اسی بیلٹ ہی سے ملائے جا رہے ہیں۔

اس تمام صورت حال نے صوبے کے مستقبل کو سوالیہ نشان بنا کر رکھ دیا ہے، اور ماہرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ یہاں ایک بار پھر مختلف عالمی طاقتوں کی مداخلت اور پراکسیز کا “جنگی تھیٹر” سجنے یا سجانے والا ہے۔

جہاں تک صوبے کی سیکورٹی صورت حال کا تعلق ہے، جاری کارروائیوں میں گزشتہ 2 برسوں کی طرح جنوری 2025 کے پہلے مہینے یعنی جنوری میں بھی ریکارڈ تعداد میں کارروائیاں کی گئیں، اور امن و امان کی بحالی کا کام ہی سب سے بڑا چیلنج بنا رہا۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف جنوری کے آخری ہفتے کے دوران سیکورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا کے پانچ اضلاع میں آپریشن کیے، جس کے نتیجے میں کالعدم گروپوں کے 3 اہم کمانڈروں سمیت تقریباً 38 حملہ آوروں کو ہلاک جبکہ ایک درجن کے لگ بھگ کو زخمی یا گرفتار کرلیا گیا۔

ایسی ہی کارروائیاں بلوچستان کے 3 مختلف پشتون علاقوں میں کی گئیں، جہاں افغانستان سے دراندازی کرنے والے 2 گروپوں سمیت 2 مزید کارروائیوں کے نتیجے میں جنوری کے مہینے میں تقریباً 40 حملہ آوروں (دہشت گردوں) کو ہلاک کردیا گیا۔

دوسری جانب کالعدم گروپس ٹی ٹی پی، لشکر اسلام، جماعت الاحرار اور حافظ گل بہادر گروپ نے نہ صرف یہ کہ اس مہینے فورسز خصوصاً خیبرپختونخوا پولیس اور سرکاری ملازمین کو ریکارڈ تعداد میں نشانہ بنایا اور مختلف علاقوں میں باقاعدہ ناکہ بندیاں کرتے ہوئے لوگوں، گاڑیوں کی تلاشیاں لیں، بلکہ متعدد اہم لوگوں کو اغواء بھی کیا۔

اس دوطرفہ کارروائیوں سے ہٹ کر فریقین نے مقامی آبادیوں اور لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے پروپیگنڈا کمپینز پر بھی کافی توجہ مرکوز رکھی اور کوشش کی گئی کہ بعض واقعات کو اصل حقائق سے ہٹ کر پیش کیا جائے۔

دیگر ریاست مخالف گروپوں نے اس “کمپین” میں حسب معمول فورسز کی مخالفت کی پالیسی اختیار کی اور ان میں صوبے کی برس اقتدار جماعت پی ٹی آئی بھی شامل رہی۔

پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بیان میں کہا کہ صوبائی حکومت صوبے کے امن کے لیے افغانستان کی عبوری حکومت اور افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ارادہ رکھتی ہے اور یہ کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اس قوت (افغان حکومت) کے ساتھ جنگ لڑرہی ہیں، جنہوں نے امریکہ اور نیٹو کو شکست دی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ قیدی نمبر 804 اور نام نہاد مذاکراتی عمل کی گہما گہمی میں پاکستان کے سیاسی قائدین اور میڈیا نے مذکورہ بیان یا بیانیہ کو سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں دی، حالانکہ اس پر ایک سنجیدہ بحث کی اشد ضرورت تھی کیونکہ عالمی اور علاقائی میڈیا یہ اطلاعات فراہم کرتا رہا کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی، ٹی ٹی پی، پی ٹی ایم اور ان کی پشت پر کھڑی افغان عبوری حکومت ریاست کے خلاف اتحاد بنانے میں مصروف عمل ہیں۔

بھارتی میڈیا نے تو اس پس منظر میں باقاعدہ ایک میڈیا کمپین ڈیزائن کرکے خصوصی رپورٹس اور تجزیے پیش کیے۔ پاکستان کے میڈیا نے ٹرمپ انتظامیہ کے ان اقدامات اور اعلانات پر بھی توجہ نہیں دی جن میں خطے خصوصاً افغانستان سے متعلق خطرناک اور غیر مروجہ اقدامات کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔

اس ضمن میں 2 اعلانات کی مثال دی جاسکتی ہے، ایک میں کہا گیا کہ امریکہ افغانستان میں انخلا کے وقت رہ جانے والے اسلحہ کو واپس لائے گا اور یہ کہ افغانستان کی عبوری حکومت کو دی جانے والی امداد بند کی جارہی ہے۔

دوسرا نئے سیکرٹری خارجہ کا وہ بیان جس میں کہا گیا کہ اگر افغان طالبان اور ان کی حکومت نے وہاں قید امریکیوں کو رہا نہیں کیا تو امریکہ ان کے لیڈروں کے سروں کی قیمت لگا دے گا اور یہ کہ یہ قیمت القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی قیمت سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ یہ دھمکی نئے امریکی سیکریٹری خارجہ نے 26 جنوری کو دے دی۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے خلاف توقع جنگ زدہ صوبے کے اپنے” مورچے” کو مزید طاقتور بنانے کے لیے جنوری کے آخری ایام میں متعدد نئی تبدیلیاں کیں جو کہ اس جانب اس جانب اشارہ سمجھا گیا کہ 8 فروری کو اعلان کردہ احتجاج کا مرکز ایک بار پھر جنگ زدہ خیبرپختونخوا ہی رہے گا۔

عمران خان نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سے پارٹی کی صوبائی صدارت کا عہدہ واپس لیتے ہوئے یہ عہدہ نسبتاً غیر فعال لیڈر جنید اکبر خان کو دے دیا اور عین اسی دوران موصوف کو غیر متوقع طور پر قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے بھی نوازا گیا۔

ماہرین اور تجزیہ کاروں نے ان دونوں اقدامات پر حیرت کا اظہار کیا، کیونکہ جنید اکبر خان اور ان کے گروپ کے دیگر لیڈروں کے ساتھ لاکھ کوششوں کے باوجود بانی پی ٹی آئی گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے ملاقات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔

ان میں گروپ لیڈر عاطف خان بھی شامل تھے، جن کے بارے میں مذکورہ “تبدیلیوں” کے بعد یہاں تک کہا جانے لگا کہ وہ اگلے مرحلے کے دوران علی امین گنڈاپور کی جگہ وزیر اعلیٰ بھی بنائے جا سکتے ہیں۔

تجزیہ کار اس تمام ڈرامہ نما تبدیلی کو علی امین گنڈاپور اور شیخ وقاص اکرم سمیت متعدد دیگر کے خلاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی مشاورت اور “مہم جوئی” کا نتیجہ قرار دیتے رہے جو کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا پا چکی ہیں اور عام تاثر یہ بھی ہے کہ اس سزا میں مبینہ طور پر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا ہاتھ ہے۔

حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی ہی عمران خان کے وہ 2 “کھلاڑی” تھے، جن کے ذریعے 190 ملین پاؤنڈ کیس کی سزاؤں سے قبل وہ اسٹیبلشمنٹ سے بیک ڈور ڈپلومیسی یا ڈیلنگ چلاتے آرہے تھے۔

اس تمام تر پیچیدہ صورتحال کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ اگر ایک طرف خیبرپختونخوا کو سیکورٹی چیلنجز اور بیڈ گورننس کے چیلنجر کا سامنا ہے، تو دوسری جانب پاکستان کے اس حساس ترین صوبے کو پی ٹی آئی نے اپنے ریاست مخالف مورچے کا سٹیٹس بھی دے رکھا ہے۔

اس کے منفی اثرات مستقبل قریب میں صوبے کے سیکورٹی حالات اور معاشی، سماجی تبدیلیوں پر کس انداز میں اثر انداز ہوں گے اس کا انحصار ریاستی صف بندی پر ہے۔

تاہم ایک بات بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ مختلف اندرونی اور بیرونی قوتوں کے لیے خیبرپختونخوا اب بھی ایک بہترین “تجربہ گاہ” کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں کوئی بھی تجربہ کیا جا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

شہریار محسود

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور وزیر اعلی پی ٹی آئی صوبے کے اور ان کے لیے

پڑھیں:

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی آل پارٹیز کانفرنس آج، اپوزیشن کا بائیکاٹ کا اعلان

پشاور(نیوز ڈیسک) خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات پر بات چیت کے لیے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے آج وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) طلب کی گئی، تاہم اپوزیشن جماعتوں نے کانفرنس میں شرکت سے انکار کر کے سیاسی درجہ حرارت بڑھا دیا ہے۔

اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ نے اے پی سی کو نمائشی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کے فیصلے غیر سنجیدہ ہیں اور ایسی کانفرنس محض سیاسی دکھاوا ہے۔ ان کے مطابق حقیقی مسائل کا حل پارلیمانی فلور پر ممکن ہے، نہ کہ نمائشی اجلاسوں میں۔

مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی نے متفقہ طور پر اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے اے پی سی کو ”بے مقصد مشق“ قرار دیا۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کانفرنس کے بائیکاٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جو جماعتیں شرکت نہیں کر رہیں وہ درحقیقت صوبے کے مسائل سے لاتعلق ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امن عوام کے تعاون سے ہی ممکن ہے، اور حکومت تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے لیے کوشاں ہے۔

وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ سینیٹ انتخابات میں کسی قسم کی ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ امیدواروں کی فہرست پارٹی بانی نے خود دی تھی، اور عرفان سلیم کا نام بانی کے فیصلے پر فہرست سے نکالا گیا۔ وزیراعلیٰ نے دعویٰ کیا کہ کچھ عناصر پارٹی بانی کے بیانیے کو غلط انداز میں پیش کر رہے ہیں، حالانکہ بانی نے کہا تھا کہ پارٹی میں غلط فہمیاں پیدا کرنے والوں کو نکالا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا میں کسی بھی جانب سے ڈرون حملہ قابل قبول نہیں اور حکومت ہر قیمت پر صوبے کے امن و امان کو یقینی بنائے گی۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • بانی پی ٹی آئی ذہنی دباؤ کا شکار، فیلڈ مارشل کیخلاف مہم کی قیادت کررہے: عظمیٰ بخاری
  • الہیٰ خزانہ۔۔۔ ظلم کے تقدّس کے خلاف معاصر عہد کا ایک وصیّت نامہ(1)
  • پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے سابق صدر ساتھیوں سمیت ن لیگ میں شامل
  • خیبرپختونخوا میں امن و امان کے مسئلے پر منعقدہ اے پی سی میں طے پانے والے 10 نکات کیا ہیں؟
  • خیبر پختونخوا میں امن و امان کے بارے صوبائی اور وفاقی حکومت کے جرگے
  • خیبرپختونخوا میں قیام امن کیلئے بلائی گئی اے پی سی، اپوزیشن جماعتوں کا بائیکاٹ
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی آل پارٹیز کانفرنس آج، اپوزیشن کا بائیکاٹ کا اعلان
  • پیپلزپارٹی، اے این پی اور جے یو آئی کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی میں شرکت سے انکار
  • تین اہم سیاسی جماعتوں کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
  • کوئٹہ: غیرت کے نام پر قتل، کہانی کا نیا موڑ، مقتولہ بانو کی مبینہ والدہ کا ویڈیو بیان منظرِ عام پر آگیا