سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: عدالت نے 9 مئی مقدمات سے ہٹ کر ملٹری کورٹس کے فیصلوں کی مثالیں مانگ لیں
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس میں وزارت دفاع کو ہدایت کی ہے کہ وہ 9 مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات کے علاوہ دیگر فوجی عدالتوں کے فیصلوں کی تفصیلات فراہم کرے۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔
سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ کیا کسی فرد پر الزامات عائد کرنے سے قبل تحقیق کی جاتی ہے؟
جس پر جسٹس علی مظہر نے وضاحت دی کہ پہلے تفتیش کی جاتی ہے، پھر الزام عائد کیا جاتا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ قانون میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ ٹرائل اور منصفانہ ٹرائل میں کیا فرق ہوتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر نے استفسار کیا کہ اگر ملزم کے پاس وکیل نہ ہو تو کیا وہ سرکاری خرچ پر وکیل حاصل کر سکتا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ایسی صورت میں حکومت ملزم کو وکیل فراہم کرتی ہے۔
جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ ہر ملزم کو عدالت کا پسندیدہ بچہ سمجھا جاتا ہے، تو کیا فوجی عدالتوں میں بھی ملزم کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے؟ وزارت دفاع کے وکیل نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ملزم کو تمام قانونی حقوق اور تحفظ فراہم کیے جاتے ہیں۔
جسٹس نعیم اختر نے کہا کہ بطور چیف جسٹس بلوچستان میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سنیں، اور ان فیصلوں میں کبھی بھی یہ نہیں لکھا جاتا کہ ملزم قصوروار ہے یا نہیں، جب ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہوتی ہے تو جی ایچ کیو پورا ریکارڈ فراہم کرتا ہے جس میں تمام عدالتی کارروائی اور شواہد شامل ہوتے ہیں۔
جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ جب عام شہری کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہوتا ہے تو کیا میڈیا اور ملزم کے اہلخانہ کو اس کی کارروائی تک رسائی ہوتی ہے؟ وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا کہ قانون میں ان دونوں کو رسائی دینے کا ذکر ہے، تاہم سکیورٹی وجوہات کی بنا پر انہیں رسائی نہیں دی جاتی۔
دوران سماعت، جسٹس نعیم اختر نے وزارت دفاع کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ 9 مئی کے مقدمات سے ہٹ کر دیگر فوجی عدالتوں کے فیصلوں کی مثالیں فراہم کریں۔
جسٹس حسن اظہر نے مزید سوال کیا کہ کیا جو افسر کیس کی سماعت کرتا ہے، اس کے پاس تجربہ ہوتا ہے یا وہ پہلی بار اس منصب پر بٹھایا جاتا ہے؟ کیا جج ایڈووکیٹ بھی عدالت میں موجود ہوتا ہے اور کیا وہ کورٹ مارشل کر سکتا ہے؟ وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ ججز کے ساتھ جج ایڈووکیٹ بھی موجود ہوتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ ان فیصلوں کا عوامی سطح پر کیا اثر پڑے گا؟ ہمیں ایک بے لگام معاشرتی صورتحال کا سامنا ہے۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ سیشن ججز کو 20، 20 سال کی محنت کے بعد یہ منصب ملتا ہے، لیکن اب ایسا ہو رہا ہے کہ آٹھ ججز کے فیصلے کو دو ججز غلط قرار دیتے ہیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت میں وقفہ دے دیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: وزارت دفاع کے وکیل فوجی عدالتوں میں فوجی عدالت کے فیصلوں نے کہا کہ جاتا ہے ملزم کو ہوتا ہے کیا کہ
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔
وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔
وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔