پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس یمامہ کا سعودی عرب کا دورہ، دوطرفہ بحری مشق میں شرکت
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
راولپنڈی(نیوز ڈیسک) پاک بحریہ کے نئے کمیشن شدہ جہاز پی این ایس یمامہ نے رومانیہ سے پاکستان کے لیے اپنے سفر کے دوران سعودی عرب کے شہر جدہ کا دورہ کیا۔ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون اور بحری تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔
پی این ایس یمامہ کے جدہ بندرگاہ پر پہنچنے پر رائل سعودی نیول فورسز کے اعلیٰ حکام اور پاکستانی سفارتخانے کے نمائندوں نے جہاز کا پرتپاک استقبال کیا۔ بندرگاہ پر قیام کے دوران جہاز کے کمانڈنگ آفیسر نے سعودی عرب کی قیادت سے ملاقاتیں کیں، جن میں دونوں ممالک کے درمیان دفاعی اور بحری تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس دورے کے دوران پاک بحریہ اور رائل سعودی نیول فورسز کے جہازوں نے دوطرفہ بحری مشق میں حصہ لیا۔ اس مشق کا بنیادی مقصد دونوں بحری افواج کے درمیان باہمی تعاون کو بہتر بنانا، مشترکہ آپریشنز کی صلاحیت کو فروغ دینا، اور میری ٹائم سیکیورٹی اور علاقائی استحکام کو یقینی بنانا تھا۔ دونوں افواج نے مشق کے دوران اپنے عزم اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
پی این ایس یمامہ کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان موجود برادرانہ تعلقات اور دفاعی تعاون کو مزید مستحکم کرے گا۔ یہ جہاز دامن نیول شپ یارڈ، رومانیہ میں تعمیر کیے جانے والے پاک بحریہ کے چار جدید ترین جہازوں میں سے آخری ہے، جو پاک بحریہ کی صلاحیتوں میں اضافے کی علامت ہے۔
پاک بحریہ کے ترجمان کے مطابق، یہ دورہ اور مشق دونوں ممالک کے درمیان دفاعی شراکت داری کو مزید گہرا کرنے اور علاقائی امن و استحکام کے لیے مشترکہ کوششوں کو فروغ دینے کے لیے اہم ہے۔
پی این ایس یمامہ کا یہ دورہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طویل المدتی تعلقات اور باہمی تعاون کی ایک اور روشن مثال ہے، جو دونوں ممالک کے مفادات کے لیے اہم ثابت ہوگا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان پی این ایس یمامہ پاک بحریہ کے کے دوران یہ دورہ کے لیے
پڑھیں:
کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟
19 اپریل کو پاک افغان مذاکرات کے دوران زیادہ تر گفتگو دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے معاملات میں بہتری اور افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق رہی۔ پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیرِخارجہ اسحاق ڈار نے افغان قائم مقام وزیرخارجہ امیرخان متقی کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں یہی بات کی کہ 2 سال سے زائد عرصے سے دونوں مُلکوں کے درمیان تجارتی معاملات پر بات چیت نہیں ہو سکی جس سے دونوں ممالک مواقع کھو رہے ہیں۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاک افغان تعلقات میں جو بہتری متوقع تھی وہ تو نہ آ سکی بلکہ 15 اگست 2021 کے بعد سے پاکستان کے اندر دہشتگردی کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا جس میں زیادہ تر واقعات میں تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد، پاکستان نہ صرف افغان عبوری حکومت بلکہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر شیئر کرتا رہا۔
پھر ستمبر 2024 میں تمام افغان غیر قانونی افغان مہاجرین کو اپنے وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن یہ فیصلہ افغان عبوری حکومت کو پسند نہیں آیا۔ اِس پر اُنہوں نے اپنی ناراضی کا برملا اظہار بھی کیا۔
19 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل اس سارے عرصے میں دونوں مُلکوں کے درمیان اعلٰی سطحی مذاکرات کا پہلا موقع تھا جس کو تمام سفارتی اور سکیورٹی ماہرین کی جانب سے نہ صرف خوش آئند قرار دیا گیا بلکہ معاملات کی درستی کے لیے اُٹھایا گیا قدم قرار دیا گیا۔
اسحاق ڈار کے دورے سے ایک روز قبل افغان وزیر تجارت نورالدین عزیزی نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان سے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے سلسلے میں بات چیت کی۔ افغان مہاجرین کے اس مسئلے پر دونوں مُلکوں کے درمیان کابل میں بھی بات چیت ہوئی اور آج افغان مہاجرین کے مسائل کے حل کے لیے ایک ہاٹ لائن قائم کر دی گئی۔
اسحاق ڈار کے دورے کی سب سے اہم بات دونوں مُلکوں کے درمیان ازبکستان، افغانستان پاکستان 647 کلومیٹر ریلوے ٹریک تعمیر کا اعلان تھا، ساتھ ہی ساتھ پاکستان افغانستان اور چین سہ فریقی فورم کو فعال کرنے کا اعلان بھی ہوا اور 30 جون تک پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ تجارتی معاہدے کی تجدید کی بات بھی کی گئی۔ جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک تجارتی روابط میں بہتری چاہتے ہیں۔
ایمبیسیڈر عبدالباسط
پاکستان کے سابق سینئر سفارتکار عبدالباسط نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان مذاکرات کی شروعات حوصلہ افزا ہے۔ ایک سوال کہ آیا ان مذاکرات سے پاکستان کو درپیش دہشتگردی کا معاملہ ختم ہو پائے گا؟ کے جواب میں ایمبیسیڈر عبدالباسط نے کہا کہ اُن کے خیال میں افغان طالبان ٹی ٹی پی کو تو کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن اِسلامک سٹیٹ آف خُراسان بدستور ایک خطرہ رہے گا۔
سلمان بشیر
سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی ایک معاملہ ہے جبکہ نائب وزیراعظم نے وہاں مختلف دیگر موضوعات و مسائل پر بھی گفتگو کی ہے۔
پاک افغان مذاکرات میں ٹرانزٹ ٹریڈ سے متعلق بات چیت ہوئی۔
افغان اُمور کے بعض ماہرین کی رائے ہے کہ پاک افغان تعلقات میں تلخی کا بڑا سبب دونوں مُلکوں کے تجارتی تعلقات ہیں۔ افغانستان میں کوئی صنعت نہیں اور تجارت ہی اُن کا ذریعہ معاش ہے جس کا زیادہ تر انحصار پاکستان پر ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے افغانستان نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے سے اپنی تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کی لیکن ایک تو یہ کہ ایران کے ساتھ افغانستان کا صرف ایک بارڈر ملتا ہے جس سے افغانستان کے تجارتی سامان کو بندرگاہ تک پہنچنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے طورخم، خرلاچی، غلام خان، انگور اڈہ اور چمن سمیت زیادہ گزرگاہیں ہیں۔ افغان تجارت کے لیے پاکستان موزوں ترین مُلک ہے۔
افغان اُمور پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی فخر کاکاخیل کے مطابق جب پاکستان، افغانستان کے ساتھ اپنے بارڈرز کو بند کرتا ہے تو وہاں کاروبار کا شدید نقصان ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں میں غم و غصّہ بڑھتا ہے۔
نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار کے دورۂ کابل کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا فوکس تجارت ہی رہی۔ افغان اُمور کےماہرین کا خیال ہے کہ تجارت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر کر سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں