وزیراعظم نے یونان کشتی حادثے کی سست تحقیقات پر سربراہ ایف آئی اے کی چھٹی کردی
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
وزیراعظم نے یونان کشتی حادثے کی سست تحقیقات پر سربراہ ایف آئی اے کی چھٹی کردی WhatsAppFacebookTwitter 0 29 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے یونان کشتی حادثے کی تحقیقات میں سست رفتاری پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سربراہ احمد اسحٰق جہانگیر کو عہدے سے ہٹا دیا۔
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے یونان میں کشتی حادثے میں پاکستانی تارکین وطن کی اموات کے شروع کی گئی تحقیقات میں سست رفتاری پر برتنے پر ڈی جی ایف آئی اے احمد اسحٰق جہانگیر کو عہدے سے فارغ کردیا، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔
واضح رہے کہ 2 روز قبل یونان کشتی حادثے میں ملوث ایف آئی اے کے ایک انسپکٹر، 2 سب انسپکٹرز، 2 ہیڈ کانسٹیبل اور 8 کانسٹیبلز کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا تھا۔
ترجمان ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ کشتی حادثے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے احمد اسحٰق جہانگیر نے گزشتہ ماہ کشتی حادثے میں ملوث اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائیوں پر سماعت کی تھی۔
اس موقع پر انہیں آگاہ کیا گیا تھا کہ گزشتہ سال کے یونان کشتی حادثے میں ملوث ایک انسپکٹر، 2 سب انسپکٹرز، 2 ہیڈ کانسٹیبل اور 8 کانسٹیبلز کو نوکری سے برخاست جبکہ 3 کانسٹیبلز کی ترقی روکنے کے احکامات صادر کیے گئے ہیں، ترجمان نے بتایا تھا کہ سزا پانے والے اہلکار فیصل آباد ایئرپورٹ میں تعینات تھے۔
اس سے قبل بھی کشتی حادثات میں ملوث 37 اہلکاروں کو ملازمت سے برخاست کیا جا چکا ہے۔
یاد رہے کہ 16 دسمبر کو یونان کے جنوبی جزیرے گاوڈوس کے قریب کشتی الٹنے کے متعدد تارکین وطن سمیت 40 پاکستانیوں کی موت ہو گئی تھی۔
واقعے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ سے متعلق جاری تحقیقات جلد از جلد مکمل کر کے ٹھوس سفارشات پیش کرنے، سہولت کاری میں ملوث وفاقی تحقیقاتی ادارے کے اہلکاروں کی نشاندہی اور ان خلاف کے سخت کارروائی اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے متعلقہ اداروں کو آپس کے رابطے مزید بہتر بنانے کی ہدایت کی تھی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: یونان کشتی حادثے ایف آئی اے نے یونان
پڑھیں:
ایمنسٹی کا اسرائیل پر جنگی جرائم کا الزام: تہران جیل پر حملے کی تحقیقات کا مطالبہ
پیرس: انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کی جانب سے ایران کی ایوین جیل پر کئے گئے فضائی حملے کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے اس کی فوری بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ فضائی حملہ گزشتہ ماہ ہونے والی 12 روزہ جنگ کے دوران کیا گیا تھا، جس کی اسرائیل نے بھی تصدیق کی ہے۔ ایرانی حکام کے عبوری اعداد و شمار کے مطابق اس حملے میں 79 افراد جاں بحق ہوئے۔
ایمنسٹی کے مطابق، یہ حملہ نہ صرف سیاسی قیدیوں کو رکھنے والی جیل پر کیا گیا بلکہ انتظامی عمارت کے کئی حصے بھی تباہ ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں انتظامی عملہ، سیکیورٹی گارڈز، قیدی، ملاقات کو آئے ہوئے رشتہ دار اور قریب رہائش پذیر عام شہری شامل ہیں۔
تنظیم نے کہا کہ "ایوین جیل کسی طور بھی قانونی عسکری ہدف نہیں تھی" اور دستیاب ویڈیو شواہد، سیٹلائٹ تصاویر اور عینی شاہدین کی گواہیوں کی بنیاد پر یہ حملہ جان بوجھ کر کیا گیا۔
ایمنسٹی نے واضح کیا کہ "اس حملے میں جیل کے چھ مختلف مقامات کو شدید نقصان پہنچا، جو بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔"
واضح رہے کہ یہ حملہ 13 جون کو اسرائیل کی جانب سے ایران کے جوہری عزائم کو روکنے کے لیے شروع کی گئی بمباری مہم کا حصہ تھا۔ حملے کے وقت جیل میں 1,500 سے 2,000 قیدی موجود تھے جن میں فرانس کے دو شہری سیسل کوہلر اور جیک پیرس بھی شامل تھے، جن پر جاسوسی کا الزام تھا۔