دنیا تباہی کے قریب! قیامت کی گھڑی میں ایک سیکنڈ مزید کم
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
قیامت کی گھڑی (Doomsday Clock) جو دنیا کو لاحق تباہ کن خطرات کی علامت سمجھی جاتی ہے، اس سال ایک سیکنڈ کم ہوکر 89 سیکنڈ پر چلی گئی ہے۔
یہ تاریخ میں سب سے کم وقت ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ دنیا تباہی کے پہلے سے زیادہ قریب ہے، یہ گھڑی حقیقی وقت نہیں بتاتی بلکہ ایک علامتی تصور ہے جو سائنسدانوں نے دنیا کی تباہی کے خطرے کو ظاہر کرنے کے لیے بنائی ہے۔
اس میں "آدھی رات" (Midnight) کا وقت مکمل تباہی کی علامت ہے یعنی اگر گھڑی رات 12 بجے پر پہنچ جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دنیا کو کوئی تباہ کن واقعہ پیش آ چکا ہے۔
قیامت کی گھڑی کے مطابق دنیا کی تباہی میں 89 سیکنڈ باقی ہیں یعنی یہ گھڑی ابھی 11:58:31 پر سیٹ ہے۔
یہ گھڑی حقیقت میں اصل وقت نہیں ناپتی بلکہ علامتی طور پر یہ ظاہر کرتی ہے کہ دنیا تباہی کے کتنے قریب ہے۔
یونیورسٹی آف شکاگو میں ڈیپارٹمنٹ آف فزکس کے پروفیسر نے منگل کو پریس بریفنگ میں کہا کہ ہم نے گھڑی کو آدھی رات کے قریب مقرر کیا ہے کیونکہ ہمیں جوہری و حیاتیاتی خطرات، مصنوعی ذہانت اور موسمیاتی تبدیلی سمیت عالمی چیلنجوں کے بارے میں خاطر خواہ مثبت پیش رفت نظر نہیں آئی۔
پس منظر
یہ گھڑی 1947 میں جوہری سائنس دانوں نے بنائی تھی تاکہ دنیا کو ممکنہ تباہی کے خطرے سے آگاہ کیا جا سکے۔ 2023 میں یہ گھڑی 90 سیکنڈ پر تھی اور 2024 میں اسے مزید ایک سیکنڈ آگے بڑھا کر 89 سیکنڈ کر دیا گیا۔
خطرات کی وجوہات
ماہرین کے مطابق گھڑی کو مزید آگے بڑھانے کی بنیادی وجوہات روس یوکرین جنگ، اسرائیل فلسطین تنازع، موسمیاتی تبدیلی اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے غیر منظم خطرات اور سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی غلط معلومات کو قرار دیا گیا ہے۔
کیا وقت پیچھے جا سکتا ہے؟
جی ہاں! 1991 میں یہ گھڑی 17 منٹ پیچھے کی گئی تھی، جب امریکا اور سوویت یونین نے جوہری ہتھیاروں میں کمی کا معاہدہ کیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عالمی سطح پر مثبت اقدامات کیے جائیں تو گھڑی کو پیچھے لے جانا ممکن ہے۔
انسانیت کے لیے انتباہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ قیامت کی گھڑی مستقبل کی پیش گوئی نہیں کرتی لیکن یہ ایک انتباہ ضرور ہے کہ دنیا کو بڑے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دنیا نے جنگ، ماحولیاتی بحران اور خطرناک ٹیکنالوجیز پر قابو نہ پایا تو یہ گھڑی مزید آگے بڑھ سکتی ہے جو انسانیت کے لیے ایک خطرناک اشارہ ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تباہی کے دنیا کو کہ دنیا کے لیے
پڑھیں:
ماہرین نے فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کا حل بتا دیا
لاہور:جیسے ہی سردیاں شروع ہوئیں، لاہور ایک بار پھر خطرناک فضائی آلودگی اور اسموگ کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ مگر ماہرین ماحولیات کے مطابق اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے قدرتی حل خود فطرت میں موجود ہے، درخت اور پودے، جو فضا کے لیے قدرتی فلٹر کا کردار ادا کرتے ہیں۔
باغِ جناح لاہور کے ڈائریکٹر جلیل احمد کے مطابق چوڑے پتوں والے درخت جیسے برگد، جامن ، پیپل، نیم، شیشم، املتاس اور اریٹا گرد و غبار اور کاربن کے ذرات کو مؤثر انداز میں جذب کرتے ہیں، جس سے فضا صاف اور آکسیجن کی مقدار متوازن رہتی ہے۔ درخت نہ صرف آکسیجن پیدا کرتے ہیں بلکہ مٹی اور کاربن کے ذرات کو روک کر فضا کو صاف رکھتے ہیں۔
لاہور میں بڑھتی تعمیرات اور کم ہوتے سبزے کے باعث شہری جنگلات (اربن فاریسٹری) اور چھتوں پر باغبانی (روف ٹاپ گارڈننگ) کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔
پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) کے مطابق شہر کی 500 سے زائد عمارتوں پر روف ٹاپ گارڈنز قائم کیے جا چکے ہیں جن میں پھل دار پودے، سبزیاں اور گھاس شامل ہیں۔ یہ گارڈنز نہ صرف نقصان دہ گیسوں کو جذب کرتے ہیں بلکہ درجہ حرارت کو اوسطاً 2 سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ تک کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
پی ایچ اے کے ڈائریکٹر جنرل راجہ منصور احمد کے مطابق لنگز آف لاہور منصوبہ شہر میں فضائی آلودگی کے تدارک کے لیے ایک ماڈل کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ منصوبے کے تحت 48 لاکھ سے زائد پودے لگائے جائیں گے، جو 112 کلومیٹر طویل اور 1711 ایکڑ پر محیط جنگلاتی پٹی (رِنگ فاریسٹیشن) کا حصہ ہوں گے۔ اس منصوبے سے دو کروڑ سے زائد شہری براہِ راست فائدہ اٹھائیں گے۔
ماہر ماحولیات نسیم الرحمن کہتے ہیں کہ فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کے لیے جہاں فیکٹریوں، کارخانوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والی آلودگی کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے وہیں شہری علاقوں میں اربن فاریسٹری اور روف ٹاپ گارڈننگ کا فروغ بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اربن فاریسٹری اور روف ٹاپ گارڈننگ شہری درجہ حرارت کم کرنے کے ساتھ بارش کے پانی کے مؤثر استعمال کا ذریعہ بھی ہے۔ یہ شہری ماحولیاتی دباؤ کم کرنے کا ایک پائیدار حل ہے۔
ماہر جنگلات بدر منیر کے مطابق دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے خلاف سب سے مؤثر حیاتیاتی ہتھیار درخت ہیں۔ محکمے کی رپورٹ کے مطابق برگد کو فضائی آلودگی صاف کرنے کے لحاظ سے سب سے مؤثر درخت قرار دیا گیا ہے، اس کے بعد ارجن اور جامن کے درخت فضا سے مضر ذرات جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ درختوں کی بقا اور مؤثریت کا انحصار ان کی دیکھ بھال پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خشک یا بیمار درخت اپنی افادیت کھو دیتے ہیں اور بعض اوقات خود کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے لگتے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ شہروں میں مقامی درختوں کو ترجیح دی جائے اور شہریوں میں ان کی دیکھ بھال کا شعور پیدا کیا جائے۔
ماہرین متفق ہیں کہ اگر شہری سطح پر مقامی درختوں کی شجرکاری، روف ٹاپ گارڈننگ اور مناسب دیکھ بھال کے اقدامات مستقل بنیادوں پر کیے جائیں تو لاہور جیسے شہروں میں اسموگ اور فضائی آلودگی کے اثرات میں نمایاں کمی ممکن ہے۔