پاکستان تحریک انصاف کے مسائل کم نہ ہو سکے,شدید مالی بحران کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
عثمان خادم: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) شدید مالی بحران کا شکار ہوگئی ، جس کے بعد وفاقی قیادت نے صوبائی قیادتوں سے فوری طور پر فنڈز جمع کرنے کی ہدایت دی ہے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی وفاقی قیادت نے پارٹی کے ہر ٹکٹ ہولڈر، سٹیک ہولڈر اور عہدیدار کو ایک لاکھ 20 ہزار روپے وفاقی فنڈز میں جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔
پنجاب سے 150 پارٹی عہدیداروں نے 1 کروڑ 80 لاکھ روپے جمع کروا دیے ہیں جبکہ گزشتہ چار ماہ سے پی ٹی آئی کے سیکرٹریٹ اسلام آباد کے عملے کو تنخواہیں نہیں مل سکیں۔
اساتذہ کی بھرتی:آج درخواستیں جمع کرانے کی آخری تاریخ
ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کی مالی مشکلات کے پیش نظر عہدیداروں سے دوبارہ پیسے جمع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ پارٹی کی مالی حالت کو بہتر بنایا جا سکے۔
ذریعہ: City 42
پڑھیں:
پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک برقرار، آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آزاد جموں و کشمیر کی سیاست ایک مرتبہ پھر غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہے، جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان مفادات کی کشمکش کے باعث اِن ہاؤس تبدیلی کا عمل تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت نے تاحال متبادل قائدِ ایوان کی نامزدگی کا فیصلہ نہیں کیا، جس کے باعث تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کا عمل رُکا ہوا ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی وطن واپسی کے بعد ہی حتمی فیصلہ متوقع ہے۔
پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اسے آزاد کشمیر اسمبلی میں عددی برتری حاصل ہے، تاہم ڈیڑھ ہفتہ گزرنے کے باوجود وہ اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکی۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن مبینہ طور پر قبل از وقت انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہی ہے، جس کے باعث پیپلز پارٹی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ اگر انتخابات قبل از وقت منعقد ہوتے ہیں تو پیپلز پارٹی کو اِن ہاؤس تبدیلی سے حاصل ہونے والے سیاسی فوائد محدود ہو سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پارٹی قیادت اسمبلی کی مدت مکمل کرنے پر مُصر ہے۔
ذرائع کے مطابق آزاد حکومت کا تقریباً 80 فیصد ترقیاتی بجٹ ابھی خرچ ہونا باقی ہے۔ اس کے علاوہ دو ہزار کے قریب سرکاری بھرتیاں، صحت کارڈ پروگرام اور دیگر عوامی فلاحی اقدامات نئی حکومت کے لیے اہم سیاسی مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر ان منصوبوں سے سیاسی فائدہ اٹھا سکے، مگر وقت تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ اسمبلی کی مدت جولائی میں ختم ہو رہی ہے، اس لیے مارچ میں انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔ قانون کے مطابق انتخابات سے دو ماہ قبل ترقیاتی کام روک دیے جاتے ہیں اور تبادلوں یا نئی بھرتیوں پر پابندی عائد ہو جاتی ہے۔
مبصرین کے مطابق اگر یہی صورت برقرار رہی تو پیپلز پارٹی کو صرف دو ماہ یعنی دسمبر اور جنوری کا مختصر عرصہ ملے گا، جو اس کے سیاسی ایجنڈے کے لیے ناکافی سمجھا جا رہا ہے۔