WE News:
2025-11-03@14:23:48 GMT

ورک پلیس ہراسمنٹ سے کیسے بچا جائے؟ 

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

ورک پلیس ہراسمنٹ سے کیسے بچا جائے؟ 

پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کا تناسب مردوں کے مقابلے میں کافی کم ہے، جبکہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں ہر قابلِ روزگار فرد کا معاشی دوڑ میں حصہ لینا وقت اور حالات کی ضرورت بن چکا ہے۔ خواتین کے ملازمت اختیار نہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں، جیسا کہ مناسب تعلیم کی کمی، ملازمت کے نا کافی مواقع، سرکاری ملازمتوں کا بحران، چھوٹے شہروں میں مواقع اور رحجان کا نہ ہونا، والدین یا خاوند کی عدم رضامندی اور سب سے بڑی بات دفتروں کا نا مناسب ماحول اور ہراسمنٹ کے واقعات۔

ہر پہلو پہ اگر تفصیلی بات کی جائے تو الگ سے کئی مضامین لکھے جاسکتے ہیں، مگر یہاں ہم حالات حاضرہ کے پیشِ نظر صرف خواتین کو درپیش نامناسب ماحول اور ہراسمنٹ پہ بات کریں گے، جس کے باعث خواتین نا صرف ملازمت کرنے سے بلکہ اکیلے گھر سے باہر نکلنے سے بھی کتراتی ہیں، اور اکثر گھر کے مرد اسی نامناسب ماحول کی وجہ سے تحفظات کا شکار رہتے ہیں اور اپنی خواتین کو ملازمت کرنے سے روکتے ہیں۔

صرف کام کرنے کی جگہوں یا دفتروں میں ہی نہیں بلکہ درسگاہوں اور یونیورسٹیوں میں بھی صنفی تعصب اور ہراسمنٹ عام ہے۔ عموماً خواتین اس پہ بات کرنے سے کتراتی ہیں کہ بات باہر نکلنے پہ کہیں انہیں پڑھائی یا ملازمت سے ہٹا نہ دیا جائے۔ خاموش رہنے کی ایک اور وجہ ان پہ بوس یا ہراساں کرنے والوں کی طرف سے دباؤ کا ڈالا جانا بھی ہے، جبکہ معاشرتی دباو کا مسئلہ الگ سے ہے۔

یہاں یہ کہنا کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے، کچھ غلط نہیں ہوگا، کہ خواتین مردوں کے ڈر سے مردوں ہی کے ہاتھوں ہونے والی ہراسانی کے واقعات رپورٹ کرنے سے جھجکتی ہیں۔

تعلیمی درسگاہوں اور جامعات میں خواتین پہ جملے بازی اور لباس یا شخصیت پر تبصرے معمول کی بات بن گئی ہے۔ دوسری جانب اساتذہ نمبروں کا لالچ دے کر نوجوان لڑکیوں کو جال میں پھنسا کر ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر یورنیورسٹی کی لڑکیوں کا کہنا ہے کہ اساتذہ انہیں بہانے سے اپنے دفاتر میں بلا کر بٹھاتے ہیں۔ ان کے کلاس فیلو لڑکوں کا بھی یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ لڑکیوں کو ان کے لڑکی ہونے کی وجہ سے زیادہ نمبر دیے جاتے ہیں۔

دفاتر میں خواتین کو براہ راست یا بالواسطہ اپنے سینئرز یا بوس کے ساتھ تعلقات رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ اسی طرح ان کی نوکری برقرار رہے گی، یا ان کو پروموشن ملے گی۔ یہاں تک کہ جنسی تعلقات کی پیش کش بھی کی جاتی ہے۔ بلکہ اسے پیش کش نہیں، فرمائش بھی کہا جا سکتا ہے۔

پرائیویٹ جابز میں عموماً اتنے بڑے سیٹ اپ نہیں ہوتے کہ وہاں کوئی ایسی کمیٹی یا پالیسی موجود ہو کہ ایسے واقعات کو رپورٹ کیا جاسکے اور اگر بالفرض کوئی ایسی سہولت ہو بھی تو زیادہ تر خواتین کسی داد رسی کی توقع نہیں رکھتیں۔ بلکہ ان کو اپنی نوکری جانے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ جبکہ ان کا یہ بھی کہنا ہوتا ہے کہ اگر ایک جگہ چھوڑ دیں تو کیا گارنٹی ہے کہ دوسری جگہ پھر ایسے ہی حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس معاشرے میں مردوں کے یہ رویے بہت عام ہو گئے ہیں۔

اگر کہیں خواتین یہ رپورٹ بھی کر دیں یا اس کے خلاف آواز اٹھائیں تو ان پر یقین نہیں کیا جاتا کہ وہ فائدہ اٹھانے کے لیے عورت کارڈ کھیل رہی ہیں یا ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ خواتین کو اپنی کردار کشی کا خوف ہوتا ہے جس کے باعث وہ کوئی بھی ایسی کارروائی کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

صرف جنسی ہراسانی نہیں 

ہراسانی کے علاؤہ اکثر خواتین کو مرد کولیگز کے مقابلے میں تنخواہ یا ترقی نہیں دی جاتی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ مردوں جتنی قابل نہیں ہیں یا اس کے پیچھے اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کے تقاضے پورے نہیں کرتیں۔

اس قسم کے واقعات صرف پرائیویٹ دفاتر میں ہی عام نہیں۔ سرکاری دفاتر میں زیادہ کثرت سے یہ رحجان پایا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ خواتین کے لیے ڈاکٹریا ٹیچر کے پیشے کو زیادہ محفوظ اور معزز سمجھا جاتا تھا اور اب اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کا ماحول بھی اس قابل نہیں کہ اسے محفوظ کہا جاسکے۔ اور اسکی وجہ یہی ہے کہ تعصب اور ہوس زدہ ذہنیت کے افراد ہر شعبے میں برابر موجود ہیں جو وہاں خواتین کے لیے نامناسب ماحول پیدا کرتے ہیں۔

اسپتالوں میں فی میل ڈاکٹرز یا نرسوں کو میل اسٹاف اور ڈاکٹرز کی جانب سے ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ساتھ کام کرنے کے دوران اکثر انہیں ساتھی کولیگز جان بوجھ کر چھوتے ہیں یا معنی خیز باتیں کرتے ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حتی کہ قانون ساز اسمبلیوں میں بھی خواتین کے ساتھ اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان شعبوں کو تو عام طور پر خواتین کے لیے انتہائی غیر موزوں سمجھا جاتا ہے۔

ایک خاتون کی زبانی

ایک خاتون نے چند دن پہلے مجھے اپنا یہ واقعہ سنایا، “مجھے روز دفتر جاتے ہوئے چند لڑکے گھورتے تھے اور اکثر میرے پیچھے پیچھے دفتر تک آ جاتے تھے۔ ایک روز میں نے ڈولفن اہلکار سے اس معاملے کی شکایت کی تو اس نے اپنا نمبر دے کر اگلے روز کال کرنے کو کہا، اگلے روز میری کال پہ اہلکار نے ان لڑکوں کے خلاف سخت ایکشن لیا۔ وہ معاملہ تو حل ہوا مگر 2 روز بعد اسی اہلکار نے خود میسجز کرکے مجھے ہراساں کرنا شروع کر دیا”۔

اب اگر بچانے والے ہی خود ہراساں کرنے لگیں گے تو مدد کس سے مانگی جائے؟

تصویر کا دوسرا رخ 

جہاں ایک طرف خواتین کو ہراسانی کا سامنا ہے، کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو کہ خود نمبروں یا ترقی کے لالچ میں اس قسم کی اوچھی حرکات کرتی ہیں یا اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس قسم کی خواتین مردوں کی جھجھک ختم کرتی ہیں اور دوسری خواتین کے لیے بھی ماحول کو غیر محفوظ بنا دیتی ہیں۔

ہراسانی سے کیسے بچا جائے

کتنے ہی لوگوں کو پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف ویمین ایٹ ورک پلیس ایکٹ 2010 کے بارے میں پتا ہے یا بتایا جاتا ہے؟ اداروں اور دفاتر میں اس کے متعلق رہنمائی فراہم کرنا بے حد ضروری ہے۔ ورنہ ایسے قوانین کا کوئی فائدہ نہیں جو تحفظ فراہم نہ کرسکیں۔

اگر کسی بھی قسم کے ہراسانی یا صنفی تعصب کے واقعات رونما ہوں تو ان کو رپورٹ کرنے کے لیے اداروں اور دفاتر میں کمپلینٹ سیل موجود ہونے چاہییں۔ تمام لوگوں کو ہراسانی کے قوانین کی آگاہی دی جانی چاہیے تاکہ خواتین آواز اٹھا سکیں اور مرد اس بات سے ڈریں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکتی ہے۔

خواتین کو ایسی صورتحال میں ملازمت چھوڑ کے بھاگنا یا کھل کر بات کرنے سے ڈرنا نہیں چاہیے، بلکہ ایسے حالات کا سامنا کرنا چاہیے۔ خواتین کا اعتماد ہی مرد کا خوف ہے۔ اور اس مرادنہ ذہنیت کو اب بدلنے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سعدیہ سویرا

خواتین ملازمت ورل پلیس ہراسمنٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: خواتین ملازمت ورل پلیس ہراسمنٹ خواتین کے لیے دفاتر میں کے واقعات خواتین کو کہ خواتین کا سامنا جاتا ہے ہوتا ہے کی وجہ

پڑھیں:

9مئی واقعات میں ملوث ہونے پر سہیل آفریدی کی عوامی عہدے کے لیے اہلیت سوالیہ نشان ہے، اختیار ولی خان

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اختیار ولی خان نے کہا ہے کہ حال ہی میں سامنے آنے والی ویڈیوز میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ سہیل آفریدی نے 9 مئی کے واقعات کے دوران مسلح گروہوں کی قیادت کی، جس سے ان کے کردار اور عوامی عہدے کے لیے اہلیت پر سنجیدہ سوالات اٹھ گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اختیار ولی کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی پر الزامات سراسر جھوٹ اور پروپیگنڈا ہیں، مینا خان آفریدی

اختیار ولی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ ویڈیوز میں سہیل آفریدی ہنگامہ آرائی کرنے والے مظاہرین کے ساتھ موجود ہیں اور ریاستی اہلکاروں پر پتھراؤ کی قیادت کرتے نظر آرہے ہیں۔ ان کے بقول یہ شواہد اس بات میں کوئی ابہام نہیں چھوڑتے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کی براہِ راست قیادت کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے اسے جعلی قرار دینے کی مہم شروع کر دی، تاہم فرانزک تحقیق کے بعد حقائق بالکل واضح ہو جائیں گے۔

اختیار ولی خان نے کہا کہ یہ کہنا کہ ویڈیوز کسی اور موقع کی ہیں، جرم کی سنگینی کو کم نہیں کرتا۔ ان کے مطابق سہیل آفریدی کا کردار 9 مئی کے دیگر ملزمان سے کہیں زیادہ سنگین نوعیت کا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بی آر ٹی، مالم جبہ کیس دوبارہ کھلنے چاہئیں، اختیار ولی خان

انہوں نے الزام عائد کیا کہ بطور وزیر اعلیٰ حلف اٹھانے کے باوجود سہیل آفریدی کے بیانات اور تقاریر آئینی حلف سے انحراف ہیں، اور ریاستی اداروں کے خلاف عوام کو اکسانا سنگین بغاوت کے مترادف ہے۔

اختیار ولی نے دعویٰ کیا کہ تازہ شواہد نے سہیل آفریدی اور ان کی جماعت کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے.

9 مئی کے واقعات

9 مئی 2023 کو سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد میں مظاہرین نے سرکاری و عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا، جن میں لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس بھی شامل تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

9مئی we news اختیار ولی خان سہیل آفریدی کورکمانڈر ہاؤس

متعلقہ مضامین

  • امریکا، 4 لاکھ 55 ہزار خواتین رواں سال ملازمتیں چھوڑ گئیں
  • کراچی، فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں دو افراد جاں بحق
  • 9مئی واقعات میں ملوث ہونے پر سہیل آفریدی کی عوامی عہدے کے لیے اہلیت سوالیہ نشان ہے، اختیار ولی خان
  • دنیا میں صحافی قتل کے 10 میں سے 9 واقعات غیر حل شدہ ہیں: انتونیو گوتریس
  • بارش کے باعث تاخیر، بھارت اور جنوبی افریقہ کی خواتین ورلڈ کپ فائنل کا نیا وقت مقرر
  • سعودی خواتین کے تخلیقی جوہر اجاگر کرنے کے لیے فورم آف کریئٹیو ویمن 2025 کا آغاز
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
  • شوبز کی خواتین طلاق کو پروموٹ نہ کریں: روبی انعم
  • معاملات بہتر کیسے ہونگے؟