WE News:
2025-04-25@11:23:23 GMT

ورک پلیس ہراسمنٹ سے کیسے بچا جائے؟ 

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

ورک پلیس ہراسمنٹ سے کیسے بچا جائے؟ 

پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کا تناسب مردوں کے مقابلے میں کافی کم ہے، جبکہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں ہر قابلِ روزگار فرد کا معاشی دوڑ میں حصہ لینا وقت اور حالات کی ضرورت بن چکا ہے۔ خواتین کے ملازمت اختیار نہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں، جیسا کہ مناسب تعلیم کی کمی، ملازمت کے نا کافی مواقع، سرکاری ملازمتوں کا بحران، چھوٹے شہروں میں مواقع اور رحجان کا نہ ہونا، والدین یا خاوند کی عدم رضامندی اور سب سے بڑی بات دفتروں کا نا مناسب ماحول اور ہراسمنٹ کے واقعات۔

ہر پہلو پہ اگر تفصیلی بات کی جائے تو الگ سے کئی مضامین لکھے جاسکتے ہیں، مگر یہاں ہم حالات حاضرہ کے پیشِ نظر صرف خواتین کو درپیش نامناسب ماحول اور ہراسمنٹ پہ بات کریں گے، جس کے باعث خواتین نا صرف ملازمت کرنے سے بلکہ اکیلے گھر سے باہر نکلنے سے بھی کتراتی ہیں، اور اکثر گھر کے مرد اسی نامناسب ماحول کی وجہ سے تحفظات کا شکار رہتے ہیں اور اپنی خواتین کو ملازمت کرنے سے روکتے ہیں۔

صرف کام کرنے کی جگہوں یا دفتروں میں ہی نہیں بلکہ درسگاہوں اور یونیورسٹیوں میں بھی صنفی تعصب اور ہراسمنٹ عام ہے۔ عموماً خواتین اس پہ بات کرنے سے کتراتی ہیں کہ بات باہر نکلنے پہ کہیں انہیں پڑھائی یا ملازمت سے ہٹا نہ دیا جائے۔ خاموش رہنے کی ایک اور وجہ ان پہ بوس یا ہراساں کرنے والوں کی طرف سے دباؤ کا ڈالا جانا بھی ہے، جبکہ معاشرتی دباو کا مسئلہ الگ سے ہے۔

یہاں یہ کہنا کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے، کچھ غلط نہیں ہوگا، کہ خواتین مردوں کے ڈر سے مردوں ہی کے ہاتھوں ہونے والی ہراسانی کے واقعات رپورٹ کرنے سے جھجکتی ہیں۔

تعلیمی درسگاہوں اور جامعات میں خواتین پہ جملے بازی اور لباس یا شخصیت پر تبصرے معمول کی بات بن گئی ہے۔ دوسری جانب اساتذہ نمبروں کا لالچ دے کر نوجوان لڑکیوں کو جال میں پھنسا کر ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر یورنیورسٹی کی لڑکیوں کا کہنا ہے کہ اساتذہ انہیں بہانے سے اپنے دفاتر میں بلا کر بٹھاتے ہیں۔ ان کے کلاس فیلو لڑکوں کا بھی یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ لڑکیوں کو ان کے لڑکی ہونے کی وجہ سے زیادہ نمبر دیے جاتے ہیں۔

دفاتر میں خواتین کو براہ راست یا بالواسطہ اپنے سینئرز یا بوس کے ساتھ تعلقات رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ اسی طرح ان کی نوکری برقرار رہے گی، یا ان کو پروموشن ملے گی۔ یہاں تک کہ جنسی تعلقات کی پیش کش بھی کی جاتی ہے۔ بلکہ اسے پیش کش نہیں، فرمائش بھی کہا جا سکتا ہے۔

پرائیویٹ جابز میں عموماً اتنے بڑے سیٹ اپ نہیں ہوتے کہ وہاں کوئی ایسی کمیٹی یا پالیسی موجود ہو کہ ایسے واقعات کو رپورٹ کیا جاسکے اور اگر بالفرض کوئی ایسی سہولت ہو بھی تو زیادہ تر خواتین کسی داد رسی کی توقع نہیں رکھتیں۔ بلکہ ان کو اپنی نوکری جانے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ جبکہ ان کا یہ بھی کہنا ہوتا ہے کہ اگر ایک جگہ چھوڑ دیں تو کیا گارنٹی ہے کہ دوسری جگہ پھر ایسے ہی حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس معاشرے میں مردوں کے یہ رویے بہت عام ہو گئے ہیں۔

اگر کہیں خواتین یہ رپورٹ بھی کر دیں یا اس کے خلاف آواز اٹھائیں تو ان پر یقین نہیں کیا جاتا کہ وہ فائدہ اٹھانے کے لیے عورت کارڈ کھیل رہی ہیں یا ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ خواتین کو اپنی کردار کشی کا خوف ہوتا ہے جس کے باعث وہ کوئی بھی ایسی کارروائی کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

صرف جنسی ہراسانی نہیں 

ہراسانی کے علاؤہ اکثر خواتین کو مرد کولیگز کے مقابلے میں تنخواہ یا ترقی نہیں دی جاتی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ مردوں جتنی قابل نہیں ہیں یا اس کے پیچھے اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کے تقاضے پورے نہیں کرتیں۔

اس قسم کے واقعات صرف پرائیویٹ دفاتر میں ہی عام نہیں۔ سرکاری دفاتر میں زیادہ کثرت سے یہ رحجان پایا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ خواتین کے لیے ڈاکٹریا ٹیچر کے پیشے کو زیادہ محفوظ اور معزز سمجھا جاتا تھا اور اب اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کا ماحول بھی اس قابل نہیں کہ اسے محفوظ کہا جاسکے۔ اور اسکی وجہ یہی ہے کہ تعصب اور ہوس زدہ ذہنیت کے افراد ہر شعبے میں برابر موجود ہیں جو وہاں خواتین کے لیے نامناسب ماحول پیدا کرتے ہیں۔

اسپتالوں میں فی میل ڈاکٹرز یا نرسوں کو میل اسٹاف اور ڈاکٹرز کی جانب سے ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ساتھ کام کرنے کے دوران اکثر انہیں ساتھی کولیگز جان بوجھ کر چھوتے ہیں یا معنی خیز باتیں کرتے ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حتی کہ قانون ساز اسمبلیوں میں بھی خواتین کے ساتھ اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان شعبوں کو تو عام طور پر خواتین کے لیے انتہائی غیر موزوں سمجھا جاتا ہے۔

ایک خاتون کی زبانی

ایک خاتون نے چند دن پہلے مجھے اپنا یہ واقعہ سنایا، “مجھے روز دفتر جاتے ہوئے چند لڑکے گھورتے تھے اور اکثر میرے پیچھے پیچھے دفتر تک آ جاتے تھے۔ ایک روز میں نے ڈولفن اہلکار سے اس معاملے کی شکایت کی تو اس نے اپنا نمبر دے کر اگلے روز کال کرنے کو کہا، اگلے روز میری کال پہ اہلکار نے ان لڑکوں کے خلاف سخت ایکشن لیا۔ وہ معاملہ تو حل ہوا مگر 2 روز بعد اسی اہلکار نے خود میسجز کرکے مجھے ہراساں کرنا شروع کر دیا”۔

اب اگر بچانے والے ہی خود ہراساں کرنے لگیں گے تو مدد کس سے مانگی جائے؟

تصویر کا دوسرا رخ 

جہاں ایک طرف خواتین کو ہراسانی کا سامنا ہے، کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو کہ خود نمبروں یا ترقی کے لالچ میں اس قسم کی اوچھی حرکات کرتی ہیں یا اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس قسم کی خواتین مردوں کی جھجھک ختم کرتی ہیں اور دوسری خواتین کے لیے بھی ماحول کو غیر محفوظ بنا دیتی ہیں۔

ہراسانی سے کیسے بچا جائے

کتنے ہی لوگوں کو پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف ویمین ایٹ ورک پلیس ایکٹ 2010 کے بارے میں پتا ہے یا بتایا جاتا ہے؟ اداروں اور دفاتر میں اس کے متعلق رہنمائی فراہم کرنا بے حد ضروری ہے۔ ورنہ ایسے قوانین کا کوئی فائدہ نہیں جو تحفظ فراہم نہ کرسکیں۔

اگر کسی بھی قسم کے ہراسانی یا صنفی تعصب کے واقعات رونما ہوں تو ان کو رپورٹ کرنے کے لیے اداروں اور دفاتر میں کمپلینٹ سیل موجود ہونے چاہییں۔ تمام لوگوں کو ہراسانی کے قوانین کی آگاہی دی جانی چاہیے تاکہ خواتین آواز اٹھا سکیں اور مرد اس بات سے ڈریں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکتی ہے۔

خواتین کو ایسی صورتحال میں ملازمت چھوڑ کے بھاگنا یا کھل کر بات کرنے سے ڈرنا نہیں چاہیے، بلکہ ایسے حالات کا سامنا کرنا چاہیے۔ خواتین کا اعتماد ہی مرد کا خوف ہے۔ اور اس مرادنہ ذہنیت کو اب بدلنے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سعدیہ سویرا

خواتین ملازمت ورل پلیس ہراسمنٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: خواتین ملازمت ورل پلیس ہراسمنٹ خواتین کے لیے دفاتر میں کے واقعات خواتین کو کہ خواتین کا سامنا جاتا ہے ہوتا ہے کی وجہ

پڑھیں:

عمران خان سے ملاقات نہ کروانے پر توہین عدالت کیس سنگل بینچ میں کیسے لگ گیا؟ رپورٹ طلب

—فائل فوٹو

لارجر بینچ کے آرڈر کے خلاف بانئ پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات نہ کروانے پر توہینِ عدالت کیس سنگل بینچ میں کیسے لگ گیا؟ اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ طلب کر لی۔

عدالتی حکم کے باوجود بانئ پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کروانے پر توہینِ عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

جسٹس انعام امین منہاس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ آرڈر لارجر بینچ نے پاس کیا تھا، کیا سنگل بینچ یہ کیس سن سکتا ہے؟ اگر لارجر بینچ کے آرڈر کی توہین ہوئی ہے تو ان کو ہی سننا چاہیے، میں آفس سے رپورٹ منگواتا ہوں کہ کیسے میرے سامنے یہ کیس لگ گیا ہے، یہ لارجر بینچ کا معاملہ ہے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سنگل بینچ بھی یہ کیس سن سکتا ہے، ایک بندہ ہمارا بھیجتے ہیں باقی دوسرے لوگوں کو بھیج دیتے ہیں، جب جاتے ہیں پولیس والے بندوقیں لے کر کھڑے ہوتے ہیں، مجھے گرفتار کر لیا جاتا ہے، ہم عدالتی آرڈر کے مطابق لسٹ بھیجتے ہیں۔

پی ٹی آئی نے قائمہ کمیٹی داخلہ میں عمران خان سے ملاقات کا معاملہ اٹھا دیا

قائمہ کمیٹی داخلہ کے اجلاس میں بانئ پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات زیر بحث آگئی۔

شبلی فراز نے کہا کہ جب ہم عدالتی حکم کے مطابق جاتے ہیں تو ہماری تضحیک کی جاتی ہے، یہ میری نہیں بلکہ لیڈر آف اپوزیشن کی تضحیک ہے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب بھی روسٹرم پر آ گئے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اب 20 مارچ سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔

عمر ایوب کے وکیل علی بخاری نے کہا کہ وکیل، فیملی ممبر، فرینڈز بھی نہیں ملیں گے تو عدالتی حکم کا کیا ہو گا؟ ہماری درخواست بھی سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو رہی تھی۔

عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا کہ جج صاحب! یہ آپ کے کورٹ آرڈرز کی توہین ہے، یہ تو ججز کی توہین ہو رہی ہے، آپ ان کو سزا دیں جو آپ کے آرڈر کی توہین کر رہے ہیں، ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

عمر ایوب نے کہا کہ سابق وزیرِ اعظم جیل میں ہیں، ہمیں ان سے ملنے نہیں دیا جا رہا، بانئ پی ٹی آئی سے ان کی بہنوں کو نہیں ملنے دیا جا رہا۔

عدالتِ عالیہ اس معاملے پر رپورٹ طلب کر لی اور رپورٹ آنے تک سماعت میں 12 بجے تک وقفہ کر دیا۔

متعلقہ مضامین

  • دوبارہ سرکاری ملازمت پر پنشن یا تنخواہ میں سے صرف ایک سہولت ملے گی، وزارت خزانہ
  • عمران خان سے ملاقات نہ کروانے پر توہین عدالت کیس سنگل بینچ میں کیسے لگ گیا؟ رپورٹ طلب
  • بھارت کے اعلانات غیر مناسب ، ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے گا: وزیر خارجہ
  • خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ
  • بیک وقت پنشن اورتنخواہ لینے پر پابندی عائد
  • ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت پر پینشن یا تنخواہ میں سے کوئی ایک چیز ملے گی، وزارت خزانہ نے آفس میمورنڈم جاری کر دیا
  • پنجاب میں  خواتین کے قتل، زیادتی، اغوا ور تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ
  • ‘پاکستان کے خلاف کارروائی کی جائے’، بھارتی میڈیا کیسے جنگی ماحول بنارہا ہے؟
  • حکومتی کارکردگی کو کیسے بہتر بنایا جائے؟ وزیراعظم نے کمیٹی بنادی
  • حکومت کی اعلان کردہ مفت الیکٹرک اسکوٹی کیسے حاصل کریں، شرائط کیا ہیں؟