پارلیمانی کمیٹی کی حکومتی تجویز قابل عمل مگر تاخیرکردی
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)وزیراعظم شہباز شریف نے تحریک انصاف کے مطالبے پر جوڈیشل کمیشن کی بجائے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی پیشکش کردی ہے
جسے تحریک انصاف نے مستردکردیا،حکومت کی طرف سے یہ تجویز تاخیرسے آئی ہیاورحکومت اگرپارلیمانی کمیٹی بنانے میں سنجیدہ تھی تو اسے اس کاباضابطہ اعلان چندروزقبل کردیناچاہئے تھاتاکہ پاکستان تحریک انصاف مذاکرات کے بائیکاٹ کے اعلان سے قبل اس تجویزکاجائزہ لیتی اور دیگرجماعتوں سے مشاورت بھی کرلیتی تاہم 28جنوری کو مذاکراتی کمیٹی کے چوتھے اجلاس سے پہلے ہی سابق وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹرگوہر نے جوڈیشل کمیشن نہ بنانے پر مذاکرات کے بائیکاٹ کااعلان کردیاتھا،سپیکرسردارایازصادق ،جنہوں نے سنجیدگی اور دانشمندی کامظاہرہ کرتیہوئے مذاکرات شروع کرانے میں اہم کرداراداکیاتھاوہ اب بھی پرامید ہیں کہ مذاکرات بحال ہونے چاہئیں ،وزیراعظم شہبازشریف نے کابینہ سے اپنے خطاب میں تحریک انصاف سے گلے شکوؤں کے علاوہ یہ بھی کہاہے کہ اگر پارلیمانی کمیٹی بنتی ہے تو اس میں 2018 کے الیکشن اور 2024 کے الیکشن پر بھی بات ہوجائے ،اگر26نومبر کے واقعات پر تحریک انصاف بات کرناچاہتی ہے تو پھر 2014کے دھرنے پر بھی پارلیمانی کمیٹی میں بات ہونی چاہئے کہ یہ کس مقصدکے لیے دیاگیاتھا،اگراس بات کا جائزہ لیاجائے کہ 2018کے الیکشن میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے نہ صرف آرٹی ایس کو بٹھایاپانامہ کیس میں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے الزام میں نوازشریف کو تاحیات نااہل کیاگیا،2018کے الیکشن سے متعلق اب تو بہت سے حقائق منظرعام پرآچکے ہیں اور تحریک انصاف کے بہت سے رہنمااس بات کااعتراف کرچکے ہیں کہ فیض حمیدنے جو کھیل کھیلاتھااس کا مقصدعمران خان کواقتداردلواناتھا،عمران خان نے 2018کے الیکشن کے بعد اس وقت کی اپوزیشن کے احتجاج پر ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا صرف ایک اجلاس منعقدہوااس پارلیمانی کمیٹی کاچیئرمین پرویزخٹک کو بنایاگیاتھا،2014کے دھرنے بھی جو کچھ ہوا اس کی تمام کہانیاں اور شواہد منظرعام پر آچکے ہیں،2024کے الیکشن کاشکارپی ٹی آئی بنی ،مولانا فضل الرحمان نے بھی دھاندلی کے الزامات لگائے ،تحریک انصاف کوپارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کی پیشکش کویکسرمستردکرنے کی بجائے اس پر مزیدغورکرناچاہئے ،کیونکہ اگر ایسی کوئی کمیٹی بن جاتی ہے جس کے نتیجے میں مستقبل کے انتخابات کا شفاف انعقاد یقینی بنایاجاسکتاہے تو اس پر غورہوناچاہئے اس وقت مولانافضل الرحمان وہ واحد سیاسی شخصیت ہیں جن پرحکمران اتحاد ن لیگ ،پیپلزپارٹی ،ایم کیوایم اعتماد کرتی ہے اور اپوزیشن کی بڑی جماعت تحریک انصاف بھی ماضی کو بھلاکرمولانافضل الرحمان کے ساتھ رابطے میں ہے اور ان کے ساتھ مل کر جدوجہدکرناچاہتے ہیں حکومت اور پی ٹی آئی کو چاہئے کہ اس پارلیمانی کمیٹی کاسربراہ مولانا فضل الرحمان کو بنا دیا جائے تو ٹی اوآرزبناکر2014کے دھرنے سے لے کر 2024کے الیکشن اور26نومبرتک کے واقعات کاجائزہ لیں اور اس حوالے سے اپنی ایک جامع رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کریں ۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پارلیمانی کمیٹی تحریک انصاف کے الیکشن
پڑھیں:
پاکستان اور جرمنی جمہوریت، برداشت اور پارلیمانی طرزِ حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، مریم نواز
— اسکرین گریبوزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا ہے کہ پاکستان اور جرمنی جمہوریت، برداشت اور پارلیمانی طرزِ حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ پارلیمانی تعاون عوامی اعتماد اور باہمی تفہیم کا پُل ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے جرمن پارلیمنٹ کی رکن دِریا تُرک نَخباؤر کی ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، پارلیمانی تعاون، ماحولیات، کلین انرجی اور دیگر منصوبوں پر گفتگو ہوئی۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ سیلاب کے دوران اظہار ہمدردی و یکجہتی پاک جرمن دیرینہ دوستی کی عکاسی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جرمن تعاون نے پنجاب میں ماحولیات، توانائی اور دیگر شعبوں کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ 2024 میں پاکستان اور جرمنی کے درمیان تجارت 3.6 ارب ڈالر تک پہنچنا خوش آئند ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پنجاب جرمنی کی رینیو ایبل انرجی سمیت مختلف شعبوں میں مزید سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرتا ہے، تعلیم حکومت پنجاب کے اصلاحاتی ایجنڈے کا بنیادی ستون ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ پنجاب نصاب کی جدت، ڈیجیٹل لرننگ اور عالمی تحقیقی روابط کے فروغ پر کام کر رہا ہے، 10 ہزار سے زائد پاکستانی طلبہ جرمن جامعات میں زیرِ تعلیم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ثقافتی تعاون مؤثر سفارت کاری ہے، جرمن اداروں کے ساتھ مشترکہ فن و ثقافت کے منصوبوں کا خیرمقدم کرتے ہیں، پاکستان اور جرمنی امن، ترقی اور انسانی وقار کی مشترکہ اقدار کے حامل ہیں۔
وزیراعلیٰ نے فریڈرک ایبرٹ فاؤنڈیشن کے تحت تربیتی ورکشاپس منعقد کرنے کی تجویز پیش کی، جبکہ نوجوانوں کی روزگاری صلاحیت میں اضافے کے لیے جرمن ماڈل اپنانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔