Daily Ausaf:
2025-09-18@11:31:34 GMT

ہماری تہذیبی جنگ کے بڑے میدان

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

یہ محفل علماء کرام کی ہے اور موجودہ حالات میں ان کی ذمہ داریوں پر گفتگو اس کنونشن کا خصوصی موضوع ہے۔ جہاں تک علماء کرام کے حوالہ سے موجودہ صورتحال کا تعلق ہے، مجھے ’’چومکھی لڑائی‘‘ کا محاورہ یاد آرہا ہے جس میں انسان کو آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، چاروں طرف سے دشمنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سب سے بیک وقت لڑنا پڑتا ہے۔ لیکن اس وقت دنیا میں اہلِ دین کو اور اسلام کی نمائندگی کرنے والوں کو جن محاذوں کا سامنا ہے اور جن جن مورچوں پر لڑنا پڑ رہا ہے، اسے دیکھ کر اس محاورے کا دامن تنگ نظر آتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ شاید اسے ڈبل کر کے بھی درپیش منظر کی پوری طرح عکاسی نہ کی جا سکے۔ مگر میں ان میں سے چند اہم محاذوں اور مورچوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جن پر اس وقت دنیائے اسلام کے اہل دین کو محاذ آرائی درپیش ہے۔
(۱) پہلا مورچہ تو عالمی سطح کا ہے کہ عالمی قوتوں نے یہ بات طے کر رکھی ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اہل دین کو اقتدار اور قوت میں آنے سے ہر قیمت پر روکنا ہے، اور یہ باقاعدہ ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے۔ آپ حضرات کے علم میں ہوگا کہ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی خلافت عثمانیہ بھی جرمنی کے ساتھ تھی اور جرمنی کی شکست کی وجہ سے وہ بھی شکست سے دوچار ہو گئی تھی۔ خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے ایک طرف ترکوں کو ’’ترک نیشنل ازم‘‘ کے نام پر عربوں کے خلاف ابھارا گیا تھا، اور دوسری طرف عربوں کو ان کی برتری کا احساس دلا کر ’’عرب قومیت‘‘ کا پرچم ان کے ہاتھ میں تھما دیا گیا تھا۔
مکہ مکرمہ میں خلافت عثمانیہ کے گورنر شریف حسین کو عرب خلافت کا لالچ دے کر ترکی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا گیا تھا جس کی بغاوت کے بعد عرب علاقے ترکی کی دسترس سے نکل گئے تھے۔ فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا تھا۔ عراق اور اردن پر شریف مکہ کے ایک ایک بیٹے کو بادشاہ بنا کر حجاز پر آل سعود کا قبضہ کرا دیا گیا تھا۔
اس دوران جنگ عظیم میں شکست کے بعد جب قسطنطنیہ یعنی استنبول پر برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں نے قبضہ کر لیا تو ترکوں کو ترکی کی حکومت کے حوالے کرنے کے لیے اتحادیوں کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ترکی کے قوم پرست لیڈروں کو اس شرط پر ترکی کا حکمران تسلیم کیا گیا کہ وہ ترکی کی حدود تک محدود رہیں گے، خلافت کو ختم کر دیں گے، ملک میں نافذ اسلامی قوانین منسوخ کر دیں گے، اور اس بات کی ضمانت دیں گے کہ آئندہ کبھی اسلامی قوانین نافذ نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی خلافت بحال کی جائے گی۔
مصطفیٰ کمال اتاترک اور دیگر ترک قوم پرست لیڈروں نے ان شرائط کو قبول کر کے ترکی کا اقتدار سنبھالا اور ان شرائط پر عمل بھی کیا۔ آج بھی یہی صورتحال درپیش ہے اور مغربی ممالک اپنی ان شرائط پر مضبوطی سے قائم ہیں۔ ہمارے پڑوس افغانستان میں طالبان کی حکومت کا تیاپانچہ اسی جرم میں کیا گیا کہ انہوں نے اسلامی قوانین نافذ کر دیے تھے اور خلافت کے قیام کی طرف پیشرفت کر رہے تھے۔
اس لیے ہمارا سب سے بڑا محاذ یہ عالمی گٹھ جوڑ ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام میں اصل رکاوٹ ہے۔ اس محاذ سے عالم اسلام کی رائے عامہ کو آگاہ کرتے ہوئے عام مسلمانوں کو بیدار کرنا اور اس گٹھ جوڑ کے خلاف منظم کرنا علماء کرام کی ذمہ داری ہے۔ یہ کام انہوں نے ہی کرنا ہے۔ اور کوئی یہ کام نہیں کرے گا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی سے کوئی توقع رکھنی چاہیے۔
(۲) ہمارا دوسرا محاذ داخلی ہے اور ہمارے حکمران طبقے اور مغرب کی تہذیب و ترقی سے مرعوب حلقے ہم سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ اسلام کی کوئی ایسی نئی تعبیر و تشریح کی جائے جس میں اسلام کا پرچم بھی ہاتھ میں رہے، مغرب بھی ہم سے ناراض نہ ہو، اور ہماری عیاشی، مفادات اور موجودہ زندگی کے طور طریقوں پر بھی کوئی اثر نہ پڑے۔
سود کی حرمت کی بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کے بغیر ہماری تجارت نہیں چل سکتی، شراب کی بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ یہ دقیانوسی باتیں ہیں، ناچ گانے اور عریانی و فحاشی کی مخالفت کریں تو کلچر اور تہذیب کا سوال سامنے آ جاتا ہے، اور نماز روزے کی پابندی کی طرف توجہ دلائیں تو زندگی کی مصروفیات کا بہانہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اب ایسا اسلام جس میں نماز کی پابندی ضروری نہ ہو، سود کو نہ چھیڑا جائے، شراب پر کوئی پابندی نہ ہو، اور ناچ گانے کے فروغ میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو، ہماری سابق تاریخ میں تو اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن اب اسے ’’روشن خیال اسلام‘‘ کے عنوان سے پیش کیا جا رہا ہے اور مطالبہ یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام کی سابقہ تعبیرات کو ترک کر کے اس ’’روشن خیالی اور ترقی پسندی‘‘ کو اپنا لیا جائے۔
میں اس کے جواب میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اس قسم کے اسلام کا مطالبہ طائف والوں نے کیا تھا جس کا ذکر مولانا سید سلیمان ندویؒ نے ’’سیرت النبی‘‘ میں قبیلہ ثقیف کے قبولِ اسلام کے تذکرہ میں کیا ہے کہ بنو ثقیف کا وفد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ آیا اور گزارش کی کہ ہم طائف والے اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری چند شرائط ہیں:
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسلام کی گیا تھا ترکی کی جاتا ہے ہے اور اور اس

پڑھیں:

زمین کو بچوں کیلئے محفوظ بنانا ہماری اولین ترجیح ہے: مریم نواز

لاہور(نیوز ڈیسک) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ زمین کو بچوں کیلئے محفوظ بنانا ہماری اولین ترجیح ہے۔

اوزون کے تحفظ کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں وزیراعلیٰ مریم نواز کا کہنا تھا کہ اوزون ہماری ماحولیات کی محافظ ہے اسے بچانا انسانیت کا اہم ترین فریضہ ہے، اوزون کی تباہی کا مطلب، امراض، فصلوں کی بربادی اور نسلِ نو کے مستقبل کے لئے خطرات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی نے بارشوں کے انداز بدل دیئے، پنجاب حالیہ تباہ کن سیلاب کی شکل میں خمیازہ بھگت رہا ہے، پہلی بار پنجاب کیلئے جامع ماحولیاتی پالیسی دی تاکہ زمین بچوں کے لئے محفوظ رہ سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب ماحول دوست الیکٹرو بسیں متعارف کروائیں جو کلین انرجی سے چلتی ہیں اور آلودگی کم کرتی ہیں۔

مریم نواز نے کہا کہ ”پلانٹ فار پاکستان“ مہم کے ذریعے شجرکاری کر کے فضا کو ازسرِنو سانس لینے کے قابل بنایا جا رہا ہے، پنجاب تیزی سے گرین انرجی، سولرائزیشن اور ماحول دوست منصوبوں کی طرف بڑھ رہا ہے، اوزون پروٹیکشن محض حکومت کی نہیں ہر شہری کی ذمہ داری ہے اپنا کردار ادا کریں۔

وزیراعلیٰ پنجاب نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اپنی فضا، پانی اور زمین کو آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ بنانے میں ہاتھ بٹائیں، پنجاب سرسبز، صاف اور محفوظ مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے، سفر اب کسی صورت نہیں رکے گا۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • ہماری ہائیکورٹ کے رولز  ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہو گئے: جسٹس محسن کیانی
  • اسرائیل کے حملوں سے ہماری کارروائیوں میں شدت آئیگی، یمن
  • ترکی کا اسرائیلی سے تجارتی بندھن
  • لازوال عشق
  • ہماری پُرزور کوشش کے بعد بھی بانی پی ٹی آئی تک رسائی نہیں مل رہی: عمر ایوب
  • ہماری ہائیکورٹ کے رولز ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہوگئے، جسٹس محسن کیانی
  • نیتن یاہو کا انجام بھی ہٹلر جیسا ہی ہوگا، اردوغان
  • بھارت جنگ ہار گیا، کرکٹ کے میدان میں ہاتھ نہ ملانے کا مقصد خفت مٹانا ہے: عطا تارڑ
  • ہماری خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • زمین کو بچوں کیلئے محفوظ بنانا ہماری اولین ترجیح ہے: مریم نواز