Express News:
2025-07-25@09:55:38 GMT

لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کیجیے!

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

کرسٹینا کی عمر صرف چوبیس برس تھی۔ نیویارک کا ایک علاقہ ہے، جس کا نام، ایسٹ ولیج (East Village) ہے۔ یہاں ارب پتی افراد کے دفاتر اور گھر بھی ہیں۔ اور اختتامی حصے میں متوسط سطح کے افراد بھی مقیم ہیں۔ ایسٹ ولیج میں درجنوں نہیں، سیکڑوں ریسٹورنٹ موجود ہیں۔ ہر رنگ اور نسل کے لوگ وہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔

اَن گنت ہوٹلوں میں ایک چھوٹا سا کیفے بھی ہے۔ کرسٹینا اس ایک معمولی سے ریسٹورنٹ میں ویٹرس تھی۔ ادنیٰ شکل وصورت کی لڑکی، ان لاکھوں خواتین میں شامل تھی جو سارا دن محنت کر کے اپنا گزارا مشکل سے ہی کر پاتے ہیں۔ دراصل نیویارک ایک حددرجہ مہنگا شہر ہے۔ مین ہیٹن تو خیر انسانی عقل سے بھی زیادہ مہنگا ہے۔ ایسٹ ولیج مین ہیٹن ہی میں واقع ہے۔

کرسٹینا کی ذاتی زندگی دکھوں سے معمور تھی۔ والد، نشہ کرتا تھا اور والدہ ایک امیر آدمی کے گھر باورچن تھی۔ ظلم یہ بھی تھا کہ کرسٹینا ابھی صرف دس برس کی تھی کہ والدہ نے اپنے شوہر سے تنگ آ کر طلاق لے لی۔ کرسٹینا نے اپنے بچپن میں صرف خانگی لڑائی جھگڑا اور مار پیٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر اس کی فطرت میں ایک بہت بڑی خوبی تھی۔ گھریلو تلخی نے اس کی زندگی میں زہر گھولنے کے بجائے، اسے مسکرانا سکھا دیا تھا۔

وہ ہر ایک کی مدد کرنا چاہتی تھی مگر اس کے اپنے وسائل اتنے کم تھے کہ کسی کی مالی مدد کرنا ناممکن سا تھا۔ ویٹرس کے طور پر کرسٹینا اپنا کام حددرجہ تندہی سے کرتی تھی۔ مسکرا کر لوگوں سے کھانے کا آرڈر لیتی تھی اور خوشگوار طریقے سے اپنے کام کو نپٹاتی تھی۔ بہرحال، یہ اس کا ذاتی رویہ تھا اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اکثر اوقات اپنے گھر سے بس کے ذریعے کام پر آ جاتی تھی۔ ایک دن بارش میں کرسٹینا ڈیوٹی پر جا رہی تھی۔ بس اسٹاپ پر اتری تو وہاں اسے ایک سات آٹھ برس کا بچہ نظر آیا۔ معصوم بچے کے سارے کپڑے پانی سے شرابور تھے اور وہ سخت سردی کی وجہ سے کانپ رہا تھا۔

کرسٹینا نے بچے کو دیکھا تو وہ اس کی طرف چلی گئی۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے مکمل اجنبی تھے۔ کرسٹینا نے چھتری کھولی، بچے کو ساتھ لیا اوراپنے کیفے کی طرف چل پڑی جو نزدیک ہی تھا۔ وہاں پہنچ کر اس نے بچے کے لیے گرم سوپ بنوایا اور اسے اپنے ہاتھوں سے پلایا۔ بچے نے کہا کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں اور وہ یتیم ہے۔

کرسٹینا کا جواب تھا کہ یہ سوپ تمہارے لیے بالکل مفت ہے۔ کرسٹینا نے بچے کے گیلے کپڑوں کو بھی خشک کیا۔ بچہ بہتر ماحول کی بدولت کھلکھلا اٹھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ جب بارش ختم ہوئی تو کرسٹینا نے بچے کو اپنی جیب میں سے پچاس ڈالر دیے اور اسے کہا کہ جب بھی کھانے کی ضرورت ہو، وہ کیفے میں آ جائے۔

مگر یہ پورا واقعہ نہیں ہے۔ اس واقعہ کا ایک اور حصہ بھی ہے جو کرسٹینا کے علم میں نہیں تھا۔ جب بچہ بس اسٹاپ پر سردی کی بدولت ٹھٹھر رہا تھا، عین اسی وقت نیویارک کی ایک بہت بڑی کمپنی کا مالک اپنی قیمتی گاڑی لیے، بس اسٹاپ کے نزدیک موجود تھا۔ اس کا نام الیکس (Alex) تھا۔ گاڑی روک کر وہ خود بچے کی مدد کرنا چاہتا تھا مگر اس کے کار سے نکلنے سے پہلے ہی کرسٹینا پہنچ گئی اور بچے کو کیفے لے گئی اور وہاں اس کی بھرپور مدد کی۔ الیکس، کرسٹینا کے پیچھے پیچھے کیفے تک پہنچا اور اپنی گاڑی ہی میں سب کچھ دیکھتا رہا۔ الیکس، کرسٹینا سے حددرجہ متاثر ہوا کہ کیسے بغیر جان پہچان کے، نوجوان ویٹرس نے ایک معصوم بچے کی کتنی مؤثر مدد کی۔ ایک دن الیکس اپنے دفتر سے لنچ کے لیے نکلا اور اس کیفے میں چلا گیا جہاں کرسٹینا کام کرتی تھی۔ ویٹرس کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا کہ الیکس جیسا انسان پورا واقعہ دیکھ چکا ہے۔

الیکس نے وہاں لنچ کیا اور جب کرسٹینا بل لے کر آئی تو اس نے حددرجہ احتیاط سے بل کے ساتھ پانچ ہزار ڈالر رکھے اور فوری طور پر کیفے سے باہر چلا گیا۔ کرسٹینا نے جب بل کے ساتھ ٹپ دیکھی تو حیران رہ گئی۔ اس کا خیال تھا کہ کوئی گاہک، غلطی سے اپنے پیسے یہاں بھول گیا ہے۔ کرسٹینا ششدر تھی کہ کون اسے پانچ ہزار ڈالر ٹپ کیوں دے گا مگر الیکس واپس نہیں آیا۔ مگر وہ کیفے کے سامنے سے گزرتا ضرور تھا۔ اور کرسٹینا کو مسکراہٹ سے کام کرتے دیکھ کر پرمسرت طریقے سے واپس چلا جاتا تھا۔

کرسٹینا کو بالکل علم نہیں تھا کہ کوئی اسے کام کرتے نوٹس کر رہا ہے۔ بہرحال وقت گزرتا چلا گیا۔ ایک دن شام کے وقت، کرسٹینا اپنے گھر واپس جا رہی تھی کہ ایک قیمتی گاڑی اس کے نزدیک آئی۔ الیکس باہر نکلا اور کرسٹینا کو کہا کہ وہ اس سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے۔ کرسٹینا اور الیکس، فٹ پاتھ پر لگے ہوئے ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ الیکس نے بارش اور اس بچے کی مدد کی پوری کہانی تفصیل سے سنائی۔ یہ بھی بتایا کہ پانچ ہزار ٹپ بھی اس نے دی تھی۔ کرسٹینا مکمل طور پر حیران رہ گئی کہ کوئی اس کے انسانی مدد کے واقعہ کو اتنی تفصیل سے دیکھ رہا تھا۔ بہرحال الیکس نے کہا کہ وہ کرسٹینا کوایک کام دینا چاہتا ہے اور اس کے لیے اس نے دو لاکھ ڈالر رکھے ہوئے ہیں۔ کرسٹینا نے پریشانی سے کہا کہ وہ قطعاً دو لاکھ ڈالر نہیں لے سکتی۔

الیکس نے سنجیدگی سے کہا کہ پہلے کام کی نوعیت کو تو سن لیجیے پھر انکار کر دینا۔ الیکس نے کہا کہ وہ ایک ارب پتی انسان ہے مگر پیسے نے اسے کبھی اندرونی خوشی نہیں دی۔ جس دن، آپ بچے کی مدد کر رہی تھی، اسی دن مجھے پتہ چلا کہ اصل خوشی تو دوسروں کی بے لوث مدد کرنے میں ہے اور اس جذبہ کی بدولت ہے جس کی وجہ سے انسان لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔

میں ایک چھوٹا سا کیفے چلانا چاہتا ہوں جس کی مالک آپ ہوں گی۔ شرط صرف یہ ہے کہ کوئی بھی انسان پیسے نہ ہونے کی بدولت وہاں سے بھوکا واپس نہ جائے۔ کرسٹینا سوچ میں پڑگئی۔ الیکس نے کہا کہ آپ یہ نیا کیفے ضرور کھولیں اور انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر کام کیجیے۔ کرسٹینا بہت سوچ بچار کے بعد مان گئی۔ اور مین ہیٹن میں ہی ایک چھوٹا ساکیفے خرید کر کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ آفاقی مسکراہٹ کے ساتھ آرڈر لیتی تھی، کھانا پہنچاتی تھی، ٹیبل صاف کرتی تھی اور ہر ایک سے خوش اخلاقی سے پیش آتی تھی۔ ہاں، بندہ اگر کھانے کے پیسے نہیں دے سکتا تو وہ اس سے کوئی بھی پیسوں کا تقاضا نہیں کرتی تھی۔

یہ سچا واقعہ، دس برس پرانا ہے مگر یہ ہم سب لوگوں کے لیے ایک نصیحت ضرور چھوڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی خوشی کی بنیاد کیا ہے۔ خوش ہونے کا مطلب کیا ہے۔ خوشی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔ کیا یہ بناوٹ یا تصنع یا نیکی کے پروپیگنڈے سے منسلک ہے۔ جناب، بالکل نہیں، قطعاً نہیں۔ دراصل انسان کو اندرونی مسرت صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ عام لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ کسی جزا کے بغیر اجنبی افراد کی بے لوث مدد کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ خدا نے جو وسائل اسے مہیا کیے ہیں، وہ انھیں صرف اور صرف اپنے لیے استعمال نہیں کرتا بلکہ اس پر دوسرے مستحق لوگوں کا حق بھی مانتا ہے۔

سبق تو یہی ہے کہ لوگوں کے لیے آسانیاں در آسانیاں پیدا کی جائیں مگر یہاں سے کچھ ذہنی الجھنیں بھی شروع ہوتی ہیں۔ اگر انسان امیر نہیں ہے تو پھر وہ لوگوں کی کیسے مدد کر سکتا ہے۔ بالکل درست بات ہے کہ اگر ذاتی وسائل محدود ہیں تو آپ بذات خود عسرت کا شکار ہیں۔ تو پھر آپ کیونکر دوسروں کے کام آ سکتے ہیں۔

اس کا بہت سادہ سا حل ہے، جس پر کوئی پیسہ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ آپ، جو بھی کام کر رہے ہیں، آپ اسے خوشگوار طریقے سے سرانجام دینا شروع کر دیجیے۔ لوگوں سے مسکرا کر بات کریں۔ درشت اور غصہ کے رویہ کو بھول جایئے۔ مثبت رویہ سے، قدرت کسی ایسے غیبی دروازہ کے کواڑ آپ کے لیے کھولے گی جس کا تصور بھی آپ نہیں کر سکتے۔ کسی بھی جزا کے بغیر، اپنے رویہ کو انسان دوست رکھیے۔ آپ کی زندگی بدل جائے گی۔ بذات خود، خوش رہنا شروع کر دیں گے۔

مشکلات اگر آتی بھی ہیں تو آپ کے اس رویہ کی بدولت، سرنگوں ہو جائیں گی۔ ذرا آگے چلیے۔ زندگی کا مقصد یہی ہے۔ زندگی ہے کیا؟ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مشکل امر یہ ہے کہ اس کے مقصد کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ دراصل زندگی دوسروں میں آسانیاں تقسیم کرنے کا نام ہے اور انسانی خوشی بھی اسی امر میں پوشیدہ ہے۔ آپ کسی اجنبی کی معمولی سی مشکل کو حل کر کے دیکھیے، آپ کی روح تک خوش ہو جائے گی۔ شخصیت مکمل ہونے لگے گی۔ ہاں ایک اور بات، مسکرا کر کام کرنا بھی ایک نیکی ہے۔

صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ دوسرے انسان کو حوصلہ دینا بھی اس کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے۔ کرسٹینا کی مثال اپنے سامنے رکھیے۔ دوسروں کی مدد صرف اور صرف انسانی ہمدردی کے تحت کیجیے۔ اسے جزا سے منسلک نہ کریں۔ اگر الیکس جیسا ارب پتی، آپ کو چھپ کر نہیں دیکھ رہا، تو خدا تو ضرور دیکھ رہا ہے، اس سے آگے آپ کو مزید کیا چاہیے!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ا سانیاں پیدا کرسٹینا کو کرسٹینا نے کہا کہ وہ نے کہا کہ کی بدولت الیکس نے کرتی تھی نہیں تھا کہ کوئی بچے کی کی مدد کام کر تھا کہ اور اس بچے کو نے بچے

پڑھیں:

غزہ میں خوراک کی فراہمی مہم میں ’کریم‘ کی مدد

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 جولائی 2025ء) عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) اردن اور متحدہ عرب امارات میں عطیہ مہم شروع کر رہا ہے جس کے ذریعے غزہ اور مغربی کنارے میں لوگوں کو ہنگامی غذائی امداد فراہم کی جائے گی۔

ادارہ یہ مہم اپنی اعزاز یافتہ موبائل فون ایپلی کیشن 'شیئر دی میل' کے ذریعے چلائے گا جس میں اسے کثیرالجہتی خدمات مہیا کرنے والی ایپلی کیشن کریم کا ساتھ بھی میسر ہے۔

اس مہم کی بدولت کریم کے صارفین اس غذائی مہم میں عطیات دے سکیں گے۔

'ڈبلیو ایف پی' سلامتی کے متواتر بگڑتے حالات، محدود رسائی اور بڑھتی ہوئی مایوسی کے باوجود غزہ میں ضروری امداد پہنچا رہا ہے۔ حالیہ اندازے سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقے میں ایک تہائی آبادی کئی روز فاقے کرتی ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔

(جاری ہے)

21 مئی کے بعد ڈبلیو ایف پی کی ٹیموں نے 1,200 سے زیادہ ٹرکوں پر مشتمل درجنوں قافلوں کے ذریعے 18,247 میٹرک ٹن خوراک غزہ میں پہنچائی ہے۔

زندگیاں بچانے کی کوشش

کریم کے صارفین اس ایپلی کیشن میں 'رائٹ کلک' پلیٹ فارم کے ذریعے 'ڈبلیو ایچ او' کے ہنگامی امدادی اقدام میں براہ راست عطیات دے سکتے ہیں۔ اس رقم سے غزہ اور مغربی کنارے میں لوگوں کے لیے گندم کے آٹے، تیار کھانے اور غذائیت کی فراہمی کا اہتمام کیا جائے گا جہاں رواں سال ادارے نے 15 لاکھ لوگوں کو مدد پہنچانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔

متحدہ عرب امارات میں 'ڈبلیو ایف پی' کے ڈائریکٹر اور خلیج تعاون کونسل کے علاقے میں ادارے کے نمائندے سٹیفن اینڈرسن کریم کے ساتھ شراکت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اردن اور یو اے ای کے شہری اس مشترکہ پلیٹ فارم کے ذریعے غزہ کے لوگوں کے لیے براہ راست عطیات دے سکیں گے۔ اس طرح 'ڈبلیو ایف پی' کو زندگیاں بچانے میں مدد ملے گی۔

کریم کے سی ای او اور معاون بانی مدثر شیخہ نے کہا ہے کہ وہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے لوگوں کو بااختیار اور ضرورت کے وقت مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔

غزہ کا بحران ہنگامی انسانی صورتحال ہے جو فوری اقدامات کا تقاضا کرتی ہے اور کریم 'ڈبلیو ایف پی' کی شراکت سے دونوں ممالک میں اپنے صارفین کو اس معاملے میں براہ راست مدد دینے کے قابل بنا رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کریم کے ذریعے عطیات دینا بہت آسان عمل ہے جس میں چند ہی جگہوں پر کلک کر کے ان لوگوں کو غذائی مدد فراہم کی جا سکتی ہے جو ناقابل بیان تکالیف کا سامنا کر رہے ہیں۔

غزہ کا غذائی بحران

غزہ میں لوگوں کا دارومدار صرف امدادی خوراک پر ہے۔ علاقے میں آٹے کی قیمت اکتوبر 2023 سے پہلے کے مقابلے میں 3,000 گنا بڑھ گئی ہے جبکہ کھانا بنانے کا تیل ناپید ہے۔ 'ڈبلیو ایف پی' کے زیراہتمام لائی گئی ایک لاکھ 16 ہزار میٹرک ٹن غذائی امداد غزہ کی سرحدوں پر تیار پڑی ہے جو دو ماہ تک علاقے کی تمام آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔

کریم نے رواں سال ہنگامی امداد اور تعلیم کے لیے مدد کی فراہمی سمیت مختلف مقاصد کے لیے 200,000 ڈالر سے زیادہ مالیت کے عطیات دیے تھے۔ 'ڈبلیو ایف پی' کی مہم اردن اور یو اے ای میں کریم کے عطیہ پلیٹ فارم 'رائٹ کلک' پر لانچ کر دی گئی ہے جس تک آئی او ایس یا اینڈرائیڈ پر کریم ایپلی کیشن کے تازہ ترین ورژن کے ذریعے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ: سنگین غذائی قلت کے بعد برستے بارود نے ماحولیاتی بحران پیدا کردیا، مٹی اور پانی زہریلے ہوگئے
  • شہباز گل آستین کا سانپ، تم نے عمران خان کو دھوکہ دیا، ایجنسیوں کو وہ باتیں بتائیں جن کا عمران خان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا : اعظم سواتی
  • مہم چلانا بانی کے بیٹوں کا حق ہے، لوگوں کو بتائیں عمران خان کو کرپشن کیس میں سزا ہوئی، عطا تارڑ
  • شہباز گل آستین کا سانپ، تم نے عمران خان کو دھوکہ دیا، ایجنسیوں کو وہ باتیں بتائیں جن کا عمران خان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا : اعظم سواتی 
  • کراچی میں بیک وقت پیدا ہونے والے 5 بچوں میں سے 2 انتقال کرگئے
  • کراچی: خاتون کے ہاں 5 بچوں کی پیدائش، 2 انتقال کرگئے
  • سیلابی صورتحال کی 1912ء کے ماڈل سے لوگوں کو ارلی وارننگ دی جا رہی ہے: شیری رحمان
  • غزہ میں خوراک کی فراہمی مہم میں ’کریم‘ کی مدد
  • غزہ: حصول خوراک کی کوشش میں 67 مزید فلسطینی اسرائیلی فائرنگ سے ہلاک
  • گلوبل وارمنگ سنجیدہ مسئلہ، اس سے بچنا ہوگا، ڈاکٹر حاجی حنیف طیب