تاجروںکے وفد کی حیسکو حکام سے ملاقات،آپریشن پر تشویش کا اظہار
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)حیدرآباد سائٹ ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری نے حیسکو کے ساتھ مل کر اہم مسائل کو حل کیا۔چیئرمین عبدالرحمن راجپوت، سینئر وائس چیئرمین جھنگیر برکت اور وائس چیئرمین احسن معید شیخ کی ہدایت پر تحریک لبیک پاکستان کے دو بار نیشنل اسمبلی کے ٹکٹ ہولڈر، چیمبر آف کامرس رجسٹرڈ 19 کے مجلس عاملہ کے رکن، صدر انجمن تاجران سندھ ڈویژن کے صدر، ممبر ایگزیگٹو کمیٹی سائٹ ایسوسی ایشن سندھ صلاح الدین خان غوری کی قیادت میں وفد جس میں ایگزیکٹو ممبران اختیار آرائیں، حسن ضیا جعفری اور محمد علی راجپوت شامل تھے، نے اے سی سہیل احمد شیخ، ایکس ای این اسد پیزادہ اور ایس ڈی او ایم ایم شاہ۔ سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ملاقاتوں میں حیسکو کے حالیہ آپریشن کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا جس کے نتیجے میں لنکس اور ٹرانسفارمرز کو ہٹا دیا گیا تھا جس سے سائٹ کی مختلف فیکٹریاں متاثر ہوئیں جن میں معروف تاجر شکیل احمد کی فیکٹری بھی شامل تھی۔اے سی سہیل احمد سے بات چیت کے بعد ٹرانسفارمرز اور لنکس کو فوری طور پر بحال کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔ وفد نے فوری ایکشن لینے پر اے سی سہیل احمد کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا۔مزید برآں، بقایاجات بلوں کا مسئلہ بھی حل کیا گیا، فیکٹریاں بقایاجات قسط اور موجودہ بلوں کو ادا کرنے پر راضی ہو گئیں۔ ایک دیرینہ 20 سال پرانے 153,974 روپے بلنگ معاملہ بھی پیش کیا گیا اور اسے حل کیا گیا، سائٹ ایسوسی ایشن کے وفد نے ماہانہ 50,000 کی قسط کروا کر دی۔فیکٹری مالکان نے تحریک لبیک پاکستان کے دو بار نیشنل اسمبلی کے ٹکٹ ہولڈر، صدر حیدرآباد ڈو یژن انجمن تاجران سندھ صلاح الدین خان غوری، اختیار آرائیں، حسن ضیا جعفری، محمد علی راجپوت، اور چیئرمین عبدالرحمان راجپوت کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے سائٹ ایریا میں صنعتوں کو سپورٹ کرنے میں سائٹ ایسوسی ایشن کی انتھک محنت کو سراہا۔تحریک لبیک پاکستان نیشنل اسمبلی کے ٹکٹ ہولڈر، ممبر ایگزیگٹیوو کمیٹی ساٹ ایسوسی ایشن صلاح الدین خان غوری نے ایس ڈی او، چیف انجینئر حیسکو اور اعلی قیادت کو سائٹ ایسوسی اسیشن کا دورہ کرنے کی دعوت دی اور اس بات پر زور دیا کہ سائٹ ایریا میں فیکٹریوں کو متاثر کرنے والے حیسکو سے متعلق کوئی بھی جاری معاملات ہوں تو بل کی کاپی کے ساتھ سائٹ ایسوسی ایشن کے رجسٹرڈ آفس پر تشریف لے کر آئے، جہاں سیکرٹری جنرل رافع قریشی آپکو مدد فراہم کریں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سائٹ ایسوسی ایشن کیا گیا
پڑھیں:
لیویز فورس کا پولیس میں انضمام: بلوچستان ہائیکورٹ کا سخت نوٹس، اعلیٰ حکام کو توہین عدالت کے نوٹس جاری
بلوچستان ہائیکورٹ نے لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے سے متعلق اپنے واضح احکامات کی خلاف ورزی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکریٹری بلوچستان سمیت متعدد اعلیٰ افسران کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
عدالت عالیہ کے ڈویژن بینچ نمبر 3، جسٹس اقبال کاسی اور جسٹس ایوب ترین پر مشتمل بنچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے 26 جون اور 17 جولائی 2025 کو جاری کیے گئے عدالتی احکامات کی یاددہانی کرائی، جن میں لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے عمل کو واضح طور پر روک دیا گیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ان احکامات کے باوجود متعلقہ حکام نے مراسلہ جات جاری کیے، اجلاس منعقد کیے اور دیگر عملی اقدامات کیے، جو صریحاً عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیں بلوچستان میں لیویز کا پولیس میں انضمام، تجویز کس کی تھی؟
عدالت نے چیف سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ و قبائلی امور، ڈی جی لیویز، کمشنر ژوب ڈویژن، ڈپٹی کمشنرز قلعہ سیف اللہ، ژوب اور شیرانی سمیت ایس پیز اور دیگر متعلقہ افسران کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر وضاحت طلب کر لی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل باسط شاہ ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کی جانب سے حکم امتناع جاری ہونے کے باوجود صوبائی حکومت نے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا عمل جاری رکھا، جس میں میٹنگز، احکامات اور فیلڈ میں عملی اقدامات بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان ہائیکورٹ کے تربت بینچ نے 24 جون 2025 کو حکومت بلوچستان کی جانب سے لیویز کو پولیس میں ضم کرنے سے متعلق جاری کیے گئے نوٹیفکیشنز کو معطل کر دیا تھا اور لیویز کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے 20 مئی اور 17 جون کو جاری نوٹیفکیشنز پر عملدرآمد روک دیا تھا اور کہا تھا کہ کیس کے حتمی فیصلے تک کوئی پیش قدمی نہ کی جائے۔
لیویز فورس کی قانونی نمائندگی سینئر وکیل طاہر علی بلوچ نے کی، جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ لیویز کو پولیس میں ضم کرنا نہ صرف آئین اور قانون کے منافی ہے بلکہ اس سے عوامی مفاد بھی بری طرح متاثر ہو گا۔
واضح رہے کہ حکومت بلوچستان نے 17 جون کو ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے 13 اضلاع میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کی تھی، جو ’بی ایریا‘ کو ’اے ایریا‘ میں تبدیل کرنے کی سفارشات مرتب کرے گی۔ کمیٹی کو 10 جولائی تک رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی گئی تھی۔
قبل ازیں، جنوری 2025 میں کوئٹہ، گوادر اور لسبیلہ میں لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کا عمل مکمل کیا گیا۔ اس ضمن میں ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ اقدام قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہم آہنگی کو فروغ دے گا اور امن و امان کی صورتحال کو مزید بہتر بنائے گا۔
یہ بھی پڑھیں پاک-ایران سرحد پر تعینات لیویز فورس کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ بلوچستان میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ 2003 میں بھی نیشنل پبلک سیفٹی پلان کے تحت پورے صوبے کو ’اے ایریا‘ قرار دے کر لیویز کو پولیس کا حصہ بنایا گیا تھا، تاہم بعد ازاں 2008 میں سردار اسلم رئیسانی کی حکومت نے اس فیصلے کو واپس لیتے ہوئے لیویز کو بحال کر دیا تھا۔
لیویز فورس، جو 1860 کی دہائی میں برطانوی دور میں تشکیل دی گئی، اس وقت بلوچستان کے 82 فیصد علاقے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ دار ہے، جبکہ پولیس کا دائرہ صرف شہری علاقوں یعنی 18 فیصد حصے تک محدود ہے۔ لیویز فورس کی تعداد تقریباً 26 ہزار ہے اور یہ ایک باقاعدہ قانون کے تحت خدمات انجام دے رہی ہے۔
بلوچستان میں ’اے ایریا‘ اور ’بی ایریا‘ کی بنیاد پر پولیسنگ کا دوہرا نظام رائج ہے۔ شہری علاقوں میں پولیس، جبکہ دیہی اور قبائلی علاقوں میں لیویز فورس امن و امان کی ذمہ دار ہے۔
بلوچ عوامی حلقوں کی اکثریت لیویز کو ایک مقامی، بااعتماد اور مؤثر فورس سمجھتی ہے۔ اسی وجہ سے لیویز کے انضمام کے خلاف ہر دور میں آواز بلند کی جاتی رہی ہے، اور اب عدالتی احکامات کی روشنی میں اس مسئلے نے ایک بار پھر سنگین قانونی رخ اختیار کر لیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان ہائیکورٹ لیویز فورس