چینی ’’ڈیپ سیک‘‘ امریکی غلبے کے لئے خطرے کی گھنٹی
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
عالمی منظرنامہ بدل رہا ہے، پہلی جنگ عظیم نے نو آبادیاتی نظام کو کمزور کیا۔ عالمی برطانوی استعمار کمزور ہوا۔ دوسری جنگ عظیم نے برطانیہ کو عالمی طاقت کے منصب جلیلہ سے فارغ کیا اور امریکہ عالمی منظر پر ابھرا۔ امریکہ نے اپنی فنی، تکنیکی اور تنظیمی برتری ثابت کی۔ ایٹم بم کی ہلاکت خیزی سامنے آئی۔ امریکہ نے اپنی جنگی ہلاکت خیزی ثابت کر دکھائی تھی پھر عالمی منظر پر چھاتا ہی گیا سوویت یونین کے خاتمے کے بعد خلیجی جنگ میں امریکہ نے اپنی فنی، تکنیکی اور حربی مہارت کا ہوشربا مظاہرہ کیا اور یونی پولر ورلڈ کا چودھری بننے کی کوشش کی لیکن 9/11نے امریکی ہیبت اور چودھراہٹ کا پول کھول دیا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان نے پرل ہابر پر حملہ کرکے امریکی ہیبت کا پردہ فاش کیا تھا لیکن امریکہ نے ہیروشیما و ناگا ساکی پر ایٹم بم برسا کر اپنی ہیبت کو گہرا کیا۔ 9/11بھی امریکی برتری کیلئے سنجیدہ چیلنج تھا۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کیا اور پھر افغانستان پر چڑھ دوڑا لیکن 20سال تک یہاں مصروف جنگ رہنے کے باوجود وہ طالبان کو شکست نہیں دے سکے۔ بالآخر 2021ء میں امریکی فوجی نکل بھاگے۔ ایسا لگتا ہے جس طرح دوسری جنگ عظیم برطانوی عظمت کے خاتمے کا باعث بنی تھی بالکل اسی طرح افغان جنگ میں شکست، امریکی عالمی چودھراہٹ کے خاتمے کی نوید ہے یہ کوئی تجزیہ یا پیش گوئی نہیں ہے۔
چین نے اپنی مصنوعی ذہانت پر مبنی اپنا چیٹ بوٹ ’’ڈیپ سیک‘‘ لانچ کیا ہے جس نے عالمی مارکیٹ میں زلزلے کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ پہلے دن امریکی کمپنیوں کے سرمائے میں 600ارب ڈالر کا گھاٹا ہو گیا۔ امریکی صدر نے اسے امریکی قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دے دیا ہے۔ چین بڑی وسعت اور تدریج کے ساتھ ہر شعبہ ہائے زندگی میں آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ امریکہ اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے کی کاوشیں کر رہا ہے۔ اپنی دھاک بٹھانے اور چودھراہٹ جتانے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے جبکہ چین سبک رفتاری سے آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے چین عالمی تجارت میں اپنا غلبہ ثابت کر چکا ہے۔ ہمارا سی پیک اسی عالمی منصوبے کا حصہ ہے اور ہماری تعمیر و ترقی کا مرکزی کردار بن گیا ہے۔ چین 2019ء میں 5۔جی لانچ کرکے انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی برتری پہلے ہی ثابت کر چکا ہے۔
امریکہ، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جس وقت دنیا پر یونی پولر نظام قائم کرنے اور خود اس کا سربراہ بننے کی کاوشیں کر رہا تھا۔ چین اس وقت قدیم شاہراہ ریشم پر تحقیق کر رہا تھا۔ اس نے صدیوں پرانی اس عظیم شاہراہ سے متعلق تحقیق شروع کر رکھی تھی۔ گہری تحقیق و تفتیش کا نتیجہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی شکل میں سامنے آیا اور چین نے اربوں نہیں کھربوں ڈالر اس منصوبے کی تکمیل کے لئے خرچ کئے۔ اس وقت تین براعظموں کے درجنوں ممالک اس منصوبے کا نہ صرف حصہ ہیں بلکہ اس سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ اربوں نہیں کھربوں ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے، لاکھوں روزگار کے مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔ پیدائش دولت کے ساتھ ساتھ گردش زر میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اشیاء ضروریہ اور اشیائے صرف کی وسیع اقسام عام انسانوں کی پہنچ میں ہیں۔ چین نے کروڑوں انسانوں کو غربت سے نکال کر اپنے نظام کی حقانیت ثابت کر دی ہے۔
ٹیلی کام انڈسٹری پر چینی مصنوعات کا راج ہے۔ ہر چھوٹی بڑی پراڈکٹ چین سے آتی ہے۔ بڑی بڑی امریکی ٹیلی کام کمپنیاں بھی اپنی حتمی پراڈکٹس کی تیاری کے لئے چینی مصنوعات پر انحصار کرتی ہیں۔ ہر بڑی چھوٹی پراڈکٹ پر میڈ ان چائنہ لکھا ہوتا ہے۔ چار پہیوں والی گاڑیوں اور ٹرکوں، بسوں کی عالمی منڈی پر بھی چینی چھائے ہوئے ہیں۔ الیکٹرک وہیکلز کی ابھرتی ہوئی مارکیٹ پر بھی چینی چھا رہے ہیں۔ لیتھیم بیٹریوں کی پیداوار کے حوالے سے بھی چین امریکیوں سے آگے نظر آ رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت دور حاضر کی اختراع ہے اور اب ایک بات طے شدہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں جو ملک اپنی برتری ثابت کرے گا وہی عالمی لیڈر ہوگا۔ چین اس شعبے میں پہلے بھی اپنی برتری ظاہر کر چکا ہے۔ اب ڈیپ سیک کی لانچ کے ذریعے چین نے اپنی برتری پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ آنے والا وقت مستقبل قریب، چین کا ہے۔ چینی عظمت کا ہے، چین کسی قسم کا شو آف کئے بغیر، کسی کو انگیخت کئے بغیر اپنے انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ برطانوی و امریکی و یورپی طرز فکر و عمل کے برعکس قوموں کو غلام بنانے اور قومی کے وسائل چوری کرنے یا ان پر قبضہ کرنے کی بجائے، چین اشتراک عمل پر ہی یقین نہیں رکھتا ہے بلکہ حاصل کردہ فلاح و بہبود میں بھی شراکت کے ماڈل پر عمل پیرا ہے۔ چین پیدائش دولت کے جدید ترین ذرائع کو بروئے کار لاکر مواقع پیدا کرتا ہے۔ ان مواقع سے نہ صرف خود فائدہ اٹھانے کی کاوشیں کرتا ہے بلکہ دوست اقوام کو بھی اس عمل میں شریک کرتا ہے۔ اس طرح چین بڑی تیزی سے اپنا حلقہ اثر پھیلا رہا ہے اس کے ساتھ جو بھی ملک جڑتا ہے۔ اس کی معاشی تعمیر و ترقی کا عمل وسعت پذیر ہو جاتا ہے۔ باہم شراکت کے اس ماڈل نے چینی معاشی فلسفے کو فروغ دیا ہے۔ چین اپنی کرنسی کے استعمال کو بھی بڑے محتاط انداز میں فروغ دے رہا ہے۔ ڈالر کی بجائے یوآن میں لین دین کی منصوبہ سازی بھی کی جا رہی ہے اور اس رجحان کی حوصلہ افزائی بھی کی جا رہی ہے۔ جس طرح عالمی تجارت، انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت کے شعبے میں چین اپنی برتری ثابت کر چکا ہے بالکل اسی طرح وہ وقت دور نہیں ہے جب چین عالمی زر کی مارکیٹ میں بھی اپنا سکہ جماتا ہوا نظر آئے گا۔
چین کی خارجہ پالیسی، دھونس، دھاندلی اور استعماری ہتھکنڈوں پر قائم نہیں ہے۔ اپنا کلچر ایکسپورٹ کرنے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتا ہے بلکہ بقائے باہمی کے اصولوں پر تجارت کے ذریعے چین اپنا اثر و رسوخ پھیلانے کی پالیسی پر گامزن ہے، اسے عالمی سطح پر پذیرائی بھی مل رہی ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ، سی پیک کی صورت میں بندھ چکا ہے، دونوں ممالک کے مفادات مشترک ہو چکے ہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت اپنی برتری امریکہ نے کر چکا ہے کے خاتمے میں بھی کے ساتھ نے اپنی رہی ہے کے لئے رہا ہے کر رہا چین نے
پڑھیں:
پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹیرف کی جنگ چھیڑ تو بیٹھے ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ چین اور جاپان کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی بدولت وہ امریکی ڈالر کی قدر گراسکتے ہیں۔ چین نے ابھی اس ہتھیار کا ایک راؤنڈ ہی فائر کیا ہے اور امریکہ کو جھٹکے لگنا شروع ہوگئے ہیں لیکن ساتھ ہی دنیا بھر میں سونے کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہے کہ پاکستان میں جلد ہی سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ ہو جائے گی۔
یہ کیا معاملہ ہے؟ ڈالر اور سونے کا آپس میں کیا تعلق ہے اور ڈالر کی قدر گرنے اور سونے کی قدر بڑھنے سے امریکی ٹیرف کا کیا تعلق ہے، اسے سمجھنے کے لیے بات بالکل ابتدا سے شروع کرتے ہیں۔
شاید آپ نے سنا ہوگا کہ امریکہ پر اربوں ڈالر کا قرض ہے۔ یا یہ کہ چین کے پاس بہت بڑی مقدار میں ڈالرز موجود ہیں۔
امریکہ نے اربوں ڈالر کا یہ قرض ٹریژری بانڈز بیچ کر حاصل کیا ہے۔ امریکی حکومت کے جاری کردہ ٹریژری بانڈز چین، جاپان سمیت مختلف ممالک نے خرید رکھے ہیں۔ بانڈز خریدنے والے ملکوں کو ان پر منافع ملتا ہے اور یہ منافع امریکی حکومت دیتی ہے۔
جاپان کے پاس سب سے زیادہ امریکی ٹریژری بانڈز ہیں جن کی مالیت 1126 ارب ڈالر بنتی ہے۔ فروری 2025 کے ڈیٹا کے مطابق چین کے پاس 784 ارب ڈالر کے ٹریژری بانڈز تھے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک نے بھی امریکی ٹریژری بانڈز خرید رکھے ہیں اور امریکہ سے ان پر منافع لیتے ہیں۔
اس منافع کی شرح حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے اور کمرشل بینکوں کے شرح منافع سے کم ہوتی ہے۔ نو اپریل کو جب صدر ٹرمپ نے ٹیرف کا اعلان کیا تو یہ شرح 4 اعشاریہ 20 فیصد تھی۔ لیکن ٹیرف کے جھٹکے کے سبب ایک ہفتے میں اس شرح میں 50 بیسس پوائنٹ کا اضافہ ہوگیا اور یہ 4 اعشاریہ 49 فیصد پر پہنچ گئی۔
امریکی ٹریژری بانڈ کی شرح منافع میں جب بھی 100 بیسس پوائنٹس اضافہ ہوتا ہے امریکہ کو 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
نئی صورت حال میں امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والوں کی دلچسپی کم ہوگئی تھی اور اس کے نتیجے میں امریکہ کو اس پر زیادہ منافع کی پیشکش کرنا پڑی۔
اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اگر امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والا کوئی نہ ہو تو ان پر امریکہ کو بہت زیادہ شرح منافع کی پیشکش کرنا پڑے گی اور اگر ٹریژری بانڈز رکھنے والے ممالک انہیں بیچنا شروع کردیں تو نہ صرف امریکہ کو منافع کی شرح مزید بڑھانا پڑے گی بلکہ ڈالر کی قدر بھی گرنا شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ امریکہ ڈالر چھاپ کر ہی بانڈز پر منافع ادا کرتا ہے۔
عالمی منڈی میں ڈالر پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔ 20 برس پہلے دنیا میں 70 فیصد تجارت ڈالر سے ہوتی تھی۔ اب صرف 58 فیصد عالمی لین دین ڈالر سے ہوتا ہے۔
امریکہ نہیں چاہتا کہ بانڈز کی مارکیٹ میں افراتفری پیدا ہو یا ڈالر کی قدر گرے۔ یا امریکہ کو بانڈز پر بہت زیادہ منافع دینا پڑے۔
اسی لیے صدر ٹرمپ نے چین کے سوا تمام ممالک کیلئے اضافی ٹیرف پر عمل درآمد تین ماہ کیلئے موخر کردیا۔
دوسری جانب امریکہ کا مرکزی بینک ٹریژری بانڈز پر شرح منافع کو زبردستی کم رکھنے کی کوشش کو رہا ہے۔
لیکن یہ کوشش بھی بد اعتمادی کا سبب بن رہی ہے۔
ایسے میں چین نے مزید ٹریژری بانڈز خریدنے کے بجائے سونا خریدنا شروع کردیا ہے۔ پچھلے مسلسل پانچ ماہ سے چین ہر ماہ اپنے ذخائر میں سونے کا اضافہ کر رہا ہے۔
اس کا اثر دیگر ممالک پر بھی ہوا ہے اور وہاں بھی مرکزی بینک سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھنے لگے ہیں۔
بلوم برگ جیسے ممتاز امریکی مالیاتی ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ڈالر کی جگہ سونا لینے والا ہے۔
ان حالات میں مارکیٹ میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ چین اور جاپان اپنے پاس موجود ٹریژی بانڈز فروخت کریں گے یا نہیں۔
امریکہ میں کئی مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان اور چین کم از کم اعلانیہ طور پر ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں انہیں خود بھی نقصان ہوگا۔ ان کے پاس موجود بانڈز کی مالیت بھی کم ہو جائے گی۔
لیکن قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ چین نے 24 ارب ڈالر کے بانڈز فروخت کیے ہیں۔
حقیقت میں چین خاموشی سے اپنے پاس موجود ٹریژری بانڈز کو بیچ رہا ہے۔ 2013 میں چین کے پاس 1350 ارب ڈالر کے امریکی ٹریژری بانڈز تھے جن کی مالیت اب 780 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔
لیکن یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چین کے پاس امریکی بانڈز کی مالیت اس سے زیادہ تھی کیونکہ یورپی اکاونٹس استعمال کرتے ہوئے بھی اس نے بانڈز خریدے تھے اور اب چین یہ بانڈز مارکیٹ میں پھینک رہا ہے۔
بلوم برگ کے مطابق دیگر عالمی سرمایہ کار بھی ڈالر کے بجائے متبادل جگہ سرمایہ کاری کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ کینڈا کا پنشن فنڈ اپنا سرمایہ یورپ منتقل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
ڈالر پر اعتماد ختم ہوا تو اس کی قدر میں لا محالہ کمی ہوگی۔ دوسری جانب سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی سپلائی محدود ہے اور قدر گرنے کا امکان نہیں۔
ڈالر کا استعمال کم ہونے یا De dollarization کے نتیجے میں سونے کی قدر میں اضافہ ناگزیر ہے۔
پاکستان میں سونے کی قیمت پہلے ہی 3 لاکھ 57 ہزار روپے فی تولہ ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ ٹیرف جنگ کے دوران عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہے۔
اگر چین اور امریکہ کی ٹیرف جنگ نے طول پکڑا تو سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ پر پہنچتے دیر نہیں لگے گی۔
مزیدپڑھیں:قائد اعظم سے ملاقات کر چکا ہوں، فیصل رحمٰن