Nai Baat:
2025-07-26@00:40:30 GMT

جینٹری بیچ:’’کہ خوشی سے مر نہ جاتے…‘‘

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

جینٹری بیچ:’’کہ خوشی سے مر نہ جاتے…‘‘

آج کے ڈیجیٹل دور میں نیوز انڈسٹری کا منظر بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ خبریں عموماً دو طرح کی ہوتی ہیں کسی حادثے یا جنگی جھڑپ کی خبریں اچانک نمودار ہوتی ہیں پرانے زمانے میں میڈیا کی زبان میں بریکنگ نیوز وہ خبر ہوتی تھی جو اچانک واقعہ ہو جائے اب تو ہر خبر کو بریکنگ نیوز کہنے کا رواج ہے۔ حادثے یا جنگی جھڑپ یا کسی آدمی کی اچانک وفات کی خبر کے علاوہ کچھ خبریں ایسی ہوتی ہیں جن کا پہلے سے یقین ہوتا ہے کہ فلاں پراجیکٹ کا افتتاح ہونا ہے یا کوئی اعلیٰ سطحی وفد یا سربراہ مملکت پاکستان کے دورے پر آ رہا ہے یہ خبریں پہلے سے اعلان شدہ ہوتی ہیں اور ان میں حیرت یا تجسس سے زیادہ ایک خوشگواری کا تاثر پہلے سے قائم ہوتا ہے کیونکہ یہ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے ان کی خبر آ چکی ہوتی ہے اور میڈیا نے اس پر ہوم ورک کیا ہوا ہوتا ہے۔

اس ہفتے اچانک اہل وطن کو امریکا کے ایک بہت بڑے سفارتی وفد کی پاکستان آمد کی خبر دی گئی جس کا مرکز و محور امریکی سرمایہ کار جینٹری بیچ تھے جو وفد کے سربراہ تھے انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا یہ ایک خوشگوار حیرت تھی کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں فارن انویسٹمنٹ نہ ہونے کے برابر ہے اور کوئی ادارہ یا ملک ہمیں قرضہ دینے کے لیے راضی نہیں ہمیں اربوں ڈالر کی امید دلائی جا رہی ہے۔

جنیٹری بیچ کا نام امریکی حلقوں میں بھی کوئی خاص شہرت نہیں رکھتا وہ ایک غیر معروف ایلیٹ ہیں جو صدر ٹرمپ کے کاروباری پارٹنر رہے ہیں اور ان کی انتخابی مہم میں چندہ دیتے ہیں وہ ٹیکساس کی ایک کمپنی ہائی گراؤنڈ ہو لڈ نگز کے مالک ہیں اور ان کے پاس کوئی حکومتی یا سرکاری عہدہ نہیں ہے۔

جینٹری بیچ کی وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کی اتنی زیادہ تشہیر حالانکہ یہ ایک پرائیویٹ دورہ تھا صرف اس لیے تھی کہ وہ ملک کے وزیراعظم کو مل رہے تھے دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ امریکی تھے حالانکہ اسلام آباد میں موجود امریکی سفیر دورے کے کسی مرحلے پر نہ تو ان کے ساتھ تھے اور نہ امریکی سفارتخانے نے اس دورے پر اپنی طرف سے کوئی بیان جاری کیا۔ جس کی وجہ سے ان کے دورے کی وہ اہمیت نہیں رہتی جو انہیں دی گئی۔ سفارتی آداب میں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی امریکی ہمارے ملک کے سرکاری دورے پر آئے اور سفارتخانہ یا ہمارا فارن آفس اس میں involve نہ ہو۔ اس سلسلے میں پاکستان فارن آفس کی طرف سے بھی کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

امریکا پاکستان میں اگر ایک ملین ڈالر بھی خرچ کرنا چاہے تو اس میں اتنے زیادہ ادارے اور دستاویزات اور تفصیلات ہوتی ہیں کہ آپ حیران رہ جائیں گے مگر جینٹری بیچ کی اعلان کردہ سرمایہ کاری میں نہ تو کوئی اعداد و شمار ہیں نہ کسی مقامی ادارے یا کمپنی کا نام ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کس صوبے میں ہو رہی ہے۔ ان کی ساری گفتگو پانی کے بلبلوں کی طرح تھی جو ہوا میں بلند ہوتے ہی ختم ہو جاتے ہیں اور پتہ نہیں چلتا کہ کہاں سے آئے اور کہاں گم ہو گئے۔

البتہ ان کی ہوائی سرمایہ کاری کے برعکس ان کا سیاسی بیان بڑا کلیئر تھا جس نے پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے اور حکمران جماعت بڑے فاتحانہ انداز میں اس کا تذکرہ کرتے پھر رہے ہیں وہ بیان ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی مشیر رچرڈ گرینل کے عمران خان کی رہائی والے بیان کو زائل کرنے کے لیے تھا جس میں جینٹری بیچ نے کہا کہ ہو سکتا ہے رچرڈ کو انٹرنیٹ پر جعلی Deep Fake ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان کے بارے میں غلط معلومات دی گئی ہوں۔ یہ وہ لب لباب تھا جس کے لیے حکمران جماعت نے اس دورے کا اہتمام کرایا تھا۔

ویسے یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک پرائیویٹ شخص پاکستان آکر ایسی باتیں اور بیانات دے رہا ہے جو کہ اس حکومت کا مؤقف نہیں ہے۔ رچرڈ گرینل نے اگر اپنے مطالبے سے لاتعلقی کا اظہار کرنا ہوتا تو وہ خود اس پر اپنا بیان جاری کرتے یا اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ ان کے بیان کر تردید کرتا۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی اپنے اپنے دائرہ کار میں امریکا میں اپنی لابنگ پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں ان دونوں جماعتوں نے وہاں کانگریس میں اور کاروباری شعبوں میں اپنے اپنے سورسز بنائے ہوئے ہیں۔ جینٹری بیچ ایک نیا سورس ہے جو ن لیگ کے ہاتھ آیا ہے ہو سکتا ہے اس کی ڈونلڈ ٹرمپ تک ایسی رسائی ہو کہ وہ ن لیگ کے لیے رعایتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ اب یہ ن لیگ کا فیصلہ کہاں تک دانشمندانہ یاسیاسی پختگی کا حامل ہے کہ انہوںنے اپنا سورس ظاہر کر کے اس سے عارضی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اگر وہ جینٹری پیج یا اس طرح کی کسی شخصیت کو اندر ہی اندر استعمال کر کے ڈونلڈ ٹرمپ تک پہنچ جاتے تو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونا تھی۔ جب اعلان کردہ لاتعداد بلین ڈالر پاکستان میں نہیں آتے جیسا کہ قوم کو بتایا گیا ہے تو ن لیگ کو اس سے فائدے کی بجائے نقصان ہو گا۔ ن لیگ نے عارضی سیاسی فائدے کو ترجیح دی ہے۔

ہماری حکومتیں ویسے بھی باہر کے لوگوں کی رائے کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں تا کہ اس طرح کے لوگ ملک سے باہر ان کے امیج کو بہتر انداز میں پیش کریں جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتیں مقامی ماہرین کو انگیج کر کے امیج قائم کرنے کی بجائے زمینی حقائق کو بہتر بنائیں۔ حکومت نے حال ہی میں عالمی شہرت یافتہ ماہر معیشت اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر Stefan Dercon کو اڑان پاکستان منصوبے میں مشاورت کی پیشکش کی ہے۔ پروفیسر سٹیفن پاکستان میں بدعنوانی اور کرپشن پر بہت زیادہ بولتے ہیں اور ان کی آواز ہر جگہ سنی جاتی ہے ان کو مشیر بنانے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ ن لیگ کے خلاف گورننس کے معاملات پر خاموشی اختیار کر لیں۔ اڑان پاکستان میں سیاسی لفرے بازی زیادہ اور حقیقت کم ہے ہم یہ کر دیں گے ہم وہ کر دیں گے لیکن ہمیں ایسا منصوبہ چاہیے جس میں بتایا جائے کہ یہ سب کچھ آپ عملاً کیسے سر انجام دیں گے۔

بہرحال ہماری دعا ہے کہ جینڑی بیچ صاحب ڈھیروں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری لے کر پاکستان آئیں جس سے ملک میں بند سرمایہ کاری کا سلسلہ پھر سے شروع ہو جائے تو ہم اس کا سارا کریڈٹ ن لیگ حکومت کو دینے کے لیے تیار ہیں لیکن جس مشکوک ماحول اور طریقے سے یہ دورہ ہوا ہے اس کی افادیت کی عملی تکمیل پر ہمارے تحفظات ہیں بقول مرزا غالب:
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سرمایہ کاری پاکستان میں جینٹری بیچ ہیں اور ان ہوتی ہیں ہوتا ہے پہلے سے کے لیے کی خبر ہے اور

پڑھیں:

حکومت کو پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا کوئی خوف نہیں، عرفان صدیقی

اسلام آباد:

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ حکومت کو پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا کوئی خوف نہیں اسی لئے 5 اگست کے حوالے سے حکومت نے کوئی میٹنگ بھی نہیں بلائی، پی ٹی آئی ہم سے نہیں ان سے بات کرنا چاہتی ہے جو ان سے بات کرنے کیلئے تیار نہیں۔

نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بیٹے قاسم اور سلمان اگر پاکستان آنا چاہتے ہیں تو خوشی سے آئیں اور احتجاج کے جو طریقے انہوں نے برطانیہ میں دیکھے ہیں ان کے مطابق بیشک احتجاج بھی کریں اور پی ٹی آئی کو بھی سکھائیں۔

انہوں ںے کہا کہ حکومت کو پی ٹی آئی کی کسی تحریک میں دلچسپی نہیں، نہ کوئی خوف ہے، اسی لئے 5 اگست کے حوالے سے حکومت نے کوئی میٹنگ بھی نہیں بلائی، پی ٹی آئی مذاکرات کیلئے پہلے بھی سنجیدہ نہیں تھی، ہمارے دروازے مذاکرات کیلئے کھلے ہیں لیکن ہم چھت پر چڑھ کر انہیں آوازیں نہیں لگائیں گے، پی ٹی آئی اُن سے بات کرنا چاہتی ہے جو اِن سے بات کرنے کیلئے تیار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں کسی طرح کا کوئی سیاسی بحران نہیں، ریاست کا کاروبار پُرامن طریقے سے چل رہا ہے اور تمام ادارے آئین و قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ سیاست دان بہادری سے جیل کاٹتے ہیں، شکایتیں اور مطالبے نہیں کیا کرتے، جیل میں جتنی سہولتیں عمران خان کو حاصل ہیں کبھی کسی قیدی کو حاصل نہیں رہیں، نواز شریف اور آصف علی زرداری سمیت کئی رہنماؤں نے جیلیں کاٹی ہیں لیکن کبھی کسی نے اس طرح شکایتیں نہیں کیں۔

انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو دفاعی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں پر حملے جرم تھے تو مجرموں کو سزائیں بھی ملنی چاہئیں، پی ٹی آئی کے جن لوگوں کو سزائیں ہو رہی ہیں ان کے پاس اپیلوں کے کئی فورم موجود ہیں، نواز شریف کے کیس تو سپریم کورٹ سے شروع ہوتے اور سپریم کورٹ میں ہی ختم ہو جاتے تھے، نہ کوئی اپیل ہوتی تھی نہ دلیل۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، بلا وجہ بیان بازی اور تشہیر ان کا شیوہ نہیں، وقت آنے پر وہ متحرک سیاسی کردار ادا کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ طالبان گڈ ہیں یا بیڈ، انہیں افغانستان سے نکال کر کون یہاں لے کر آیا؟ ٹی ٹی پی سمیت 40 ہزار طالبان عمران خان یہاں لے کر آئے تھے جس کی وجہ سے آج ہمیں دہشت گردی کے مسائل کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خارجہ امور کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر ہے، یہ کام گنڈاپور صاحب کا نہیں وہ اپنے صوبے میں امن و امان اور اربوں روپے کی کرپشن پر نظر رکھیں، مسلم لیگ (ن) کو خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت گرانے سے کوئی دلچسپی نہیں، خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی 12 سالہ حکومت اور وفاق میں عمران خان کی 4 سالہ حکومت کے کسی ایک بھی بڑے عوامی، فلاحی اور ترقیاتی منصوبے کا حوالہ نہیں دے سکتے۔

اے پی سی میں شمولیت کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ محمود خان اچکزئی صاحب کے بیان کے مطابق یہ کانفرنس موجودہ حکومت کے خاتمے کیلئے بلائی جا رہی ہے، ہم کسی ایسی سازش کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں؟

متعلقہ مضامین

  • بانی کے بیٹے خوشی سے پاکستان آئیں، برطانوی طریقوں کے مطابق احتجاج بھی کریں: عرفان صدیقی
  • حکومت کو پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا کوئی خوف نہیں، عرفان صدیقی
  • قاسم، سلمان خوشی سے آئیں ،پی ٹی آئی کی تحریک سے کوئی خوف نہیں، عرفان صدیقی
  • عوام اس نظام سے سخت تنگ ہے
  • ملک میں عدلیہ اور انصاف کا کوئی وجود نہیں رہا، عمر ایوب
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کرے تو کیا کرے؟، اسد عمر
  • بانی پی ٹی آئی کے بیٹے ضرور پاکستان آئیں، خوش آمدید کہیں گے، عطا تارڑ
  • ’ہر شو میں ایک نئی کہانی ہوتی ہے‘، ندا یاسر کو پھر تنقید کا سامنا
  • کراچی : بلدیہ ٹائون میں خاتون کے ہاں بیک وقت 5 بچوں کی پیدائش
  • خاتون کے ہاں بیک وقت 5 بچوں کی پیدائش،والدین خوشی سے نہال