اسپین میں سیاحوں کی آمد کا نیا سالانہ ریکارڈ، چورانوے ملین
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 فروری 2025ء) ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق دنیا بھر سے ہر سال جنوبی یورپ کی گرم دھوپ، ریتلے ساحلوں اور ہسپانوی ثقافت کی بہت متنوع کشش کے سبب جو کروڑوں سیاح جزیرہ نما آئبیریا کی بادشاہت اسپین کا رخ کرتے ہیں، 2024ء میں ان کی کل تعداد تقریباﹰ 94 ملین رہی، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔
اسپین ایک ایسا ملک ہے، جو اپنے ہاں سیاحت کے لیے آنے والے غیر ملکیوں کی تعداد کے لحاظ سے پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔
خشک سالی سے ہسپانوی سیاحتی صنعت متاثر
اسپین کی معیشت میں اس جنوبی یورپی ملک کو سیاحت سے ہونے والی آمدنی کا حصہ تقریباﹰ 13 فیصد بنتا ہے، وہ بھی ایسے حالات میں کہ جب یورپی یونین کے یورو زون میں شامل دیگر ریاستوں کو اپنی اپنی قومی معیشتوں میں سرد بازاری یا مجموعی قومی پیداوار میں انتہائی معمولی اضافے کا سامنا ہے۔
(جاری ہے)
اسپین میں بہت بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد پر منفی ردعمل بھیسیاحت اسپین کے لیے صرف بہت زیادہ آمدنی کی وجہ ہی نہیں ہے بلکہ اسی شعبے کے سبب عوامی سطح پر یہ احساس بھی اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ شدید ہو چکا ہے کہ 'حد سے زیادہ سیاحت‘ کے اس ملک کی معیشت اور سماجی زندگی پر منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
ان منفی سماجی اور اقتصادی اثرات میں سے نمایاں ترین یہ ہے کہ اسپین کو گزشتہ کافی عرصے سے ہاؤسنگ کے شعبے میں ایک ایسے بحران کا سامنا بھی ہے، جو اب تک کی تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود ختم نہیں ہو سکا۔
کیا موسمیاتی تبدیلیاں جنوبی یورپ میں سیاحت کو متاثر کر رہی ہیں؟
ملکی وزارت سیاحت کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اسپین میں سیاحتی شعبے کا انحصار اب زیادہ تر صرف چھٹیوں کے روایتی سیزن پر نہیں رہا۔ اس کے بجائے اب بین الاقوامی سیاح کسی بھی سیزن کے وسط میں یا بالکل غیر مصروف دنوں میں بھی بڑی تعداد میں اسپین جاتے ہیں۔
وزیر سیاحت کے جاری کردہ اعداد و شمارہسپانوی وزیر صنعت و سیاحت یوردی ایرےاُو (Jordi Hereu) نے میڈرڈ میں صحافیوں کو بتایا کہ حکام کے تخمینوں کے مطابق 2024ء میں اسپین آنے والے سیاحوں کی مجموعی تعداد تقریباﹰ 94 ملین رہی، جو 2023ء کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ بنتی ہے۔
مزید یہ کہ اسپین اس شعبے میں ''قومی سطح پر نئے سے نئے ریکارڈ بناتا جا رہا ہے۔‘‘گزشتہ برس اسپین جانے والے سیاحوں نے وہاں مجموعی طور پر تقریباﹰ 126 بلین یورو (130 بلین ڈالر کے برابر) رقوم خرچ کیں، جن کی مالیت 2023ء کے مقابلے میں 16 فیصد زیادہ رہی۔
سمندری راستے سے اسپین پہنچنے کی کوشش میں 10 ہزار سے زائد ہلاکتیں
ہسپانوی سیاحتی شعبے کی نمائندہ ملکی تنظیم Mesa del Turismo کی گزشتہ ماہ جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال جن تین ممالک سے سب سے بڑی تعداد میں سیاح اسپین کا رخ کرتے ہیں، وہ تینوں وسطی یورپی ممالک ہیں اور ان کے نام برطانیہ، فرانس اور جرمنی ہیں۔
اسپین یورپی یونین کی چوتھی سب سے بڑی معیشتاسپین کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ یہ ملکیورپی یونین کی چوتھی سب سے بڑی معیشت ہے۔ لیکن پرتگال اور یونان جیسے اپنے جنوبی یورپی ہمسایہ ممالک کی طرح اسپین کو بھی ماضی قریب میں بہت تکلیف دہ مالیاتی بچتی اقدامات کرنا پڑے تھے۔
ہزاروں تارکین وطن کی تیر کر مراکش سے اسپین پہنچنے کی کوشش
2010ء کی دہائی کے شروع میں یہ تینوں ممالک ریاستی قرضوں کے لحاظ سے انتہائی حد تک مقروض تھے۔
یہ مالی مشکلات کئی سال تک جاری رہیں۔ پھر کورونا وائرس کی عالمی وبا کے خاتمے کے بعد جب سیاحتی شعبہ پوری طرح بحال ہوا، تو اسی شعبے کی کامیابی کے باعث ہسپانوی معیشت کو دوبارہ سنبھالا ملا تھا۔جرمنی: سب سے زیادہ پھل اور سبزیاں اسپین سے درآمد
اب صورت حال یہ ہے کہ ملک کے مرکزی مالیاتی ادارے بینک آف اسپین کے مطابق 2024ء کے لیے حتمی اقتصادی شرح نمو 3.
م م / ع ا (اے ایف پی، روئٹرز)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے مقابلے میں کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
وسطی یورپ میں دائیں بازو کے عوامیت پسندوں کا نیٹ ورک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جون 2025ء) حال ہی میں ہنگری میں ہونے والی 'سی پیک کانفرنس‘ 2025 میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کم نہیں تھی۔ یورپ کے پورے دائیں بازو کے پاپولسٹ سیاسی دھارے سے تعلق رکھنے والے سرکردہ اور اُبھرتے ہوئے سیاستدانوں نے امریکی کنزرویٹو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس (CPAC) کے چوتھے اجلاس میں شرکت کے لیے ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ کا رخ کیا۔
وہاں انہوں نے ''قومی خودمختاری کو لاحق خطرے‘‘ کے بارے میں اپنی ناراضی کا اظہار کیا، جو ان کے خیال میں یورپی یونین سے پیدا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ''حب الوطنی کے ایک نئے دور‘‘ کا اعلان کیا۔ تقریب کا عروج ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان کی تقریر تھی۔
(جاری ہے)
اوربان نے ''ٹرمپ ٹورنیڈو‘‘ سے پیدا ہونے والی افراتفری کو سراہا اور تمام ''قدامت پسندوں‘‘ سے کہا کہ وہ اس سے پیدا ہونے والے مواقع سے فائدہ اٹھائیں: ''ہمیں گھر جا کر ہر ایک کو اپنے اپنے انتخابات جیتنے ہیں۔
امریکہ کے بعد ہم یورپی بھی اپنے خواب واپس لیں گے اور برسلز پر قبضہ کریں گے۔‘‘بوڈاپیسٹ کے اسٹیج پر اوربان کے ہم خیال، مثال کے طور پر جرمنی کی اے ایف ڈی، اسپین کی ووکس اور آسٹریا کی فریڈم پارٹی کے سرکردہ سیاستدان موجود تھے۔ اگرچہ ان جماعتوں نے گزشتہ انتخابات میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں تاہم یورپ کے چند ممالک میں ہی دائیں بازو اور دائیں بازو کی پاپولسٹ جماعتوں کی حکومت ہے۔
اس کانفرنس میں وسطی یورپ کے تین اہم رہنماؤں نے بھی نمایاں طور پر بھی توجہ حاصل کی۔ ان میں سلوواکیہ کے وزیراعظم روبیرٹ فیٹسو، سابقہ اور ممکنہ طور پر مستقبل کے چیک وزیراعظم آندرے بابیش اور سابقہ پولش وزیراعظم ماتیوش موراویسکی شامل تھے۔
اوربان نے اس خطے کو دائیں بازو کے عوامیت پسندوں کے لیے ایک مرکز بنانے کے لیے سخت محنت کی ہے۔
انہوں نے ایک نیٹ ورک بنایا ہے، جو ان کی کامیابی کو دنیا بھر میں ہم خیال سیاستدانوں اور جماعتوں کے لیے ایک روشن مثال کے طور پر پھیلاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک دائیں بازو کے نیٹ ورکسجرمن مارشل فنڈ آف دی یونائیٹڈ اسٹیٹس (GMFUS) سے وابستہ ڈانئیل ہیگڈس نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''یورپ میں اب مشرق سے مغرب تک بین الاقوامی واقعات سے سیکھنے کا عمل جاری ہے، جو کافی غیر معمولی ہے۔
‘‘نہ صرف اوربان اور ''سی پیک‘‘ نے اس میں بہت حصہ ڈالا ہے بلکہ حکومتی فنڈز سے چلنے والے لابیسٹ نیٹ ورکس اور سیاسی و مذہبی نظریات سے وابستہ تنظیمیں بھی ہیں، جو اس خطے اور اس سے باہر پھیل چکی ہیں۔ یہ سب دائیں بازو کی پاپولسٹ قوتوں کو آپس میں جوڑنے اور ان کی پیغام رسانی کو وسیع تر عوام تک پہنچانے میں مدد کرتی ہیں۔
ہنگری اور پولینڈ قوم پرستوں کے مرکزی محوراثر و رسوخ کے ان نیٹ ورکس کے مرکز میں ہنگری کی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ ان میں ڈینیوب انسٹی ٹیوٹ، ماتیاس کوروینس کالجیم (ایم سی سی) اور سینٹر فار فنڈامینٹل رائٹس شامل ہیں، جنہوں نے سی پیک ہنگری 2025 کا اہتمام کیا تھا۔
یہ تنظیمیں پورے خطے اور اس سے باہر شاخوں کے ساتھ ایسی تقریبات کا انعقاد کرتی ہیں، جو ہم خیال ماہرین تعلیم اور کارکنوں کو اکٹھا کرتی ہیں۔
یہ نہ صرف مشرقی اور وسطی یورپ میں بلکہ برسلز اور برطانیہ میں بھی میڈیا سروسز چلاتی ہیں، جن میں دی یورپین کنزرویٹیو، برسلز سگنل اور ریمکس جیسے ادارے شامل ہیں۔نیدرلینڈز میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت اقتدار میں آ گئی
ایم سی سی ہنگری نامی تنظیم سلوواکیہ اور آسٹریا میں تعلیمی ادارے بھی چلاتی ہے اور کیتھولک چرچ سے وابستہ انتہائی قدامت پسند گروہوں، جیسے کہ پولینڈ کے 'اُرڈو ایورس‘ کے ساتھ تعاون بھی کرتی ہے۔
بوڈاپیسٹ کے تھنک ٹینک پولیٹیکل کیپیٹل کے تجزیہ کاروں کے مطابق یہ نیٹ ورکس ''ایک زنجیری ردعمل کو متحرک کرنے اور پورے یورپ میں تبدیلیاں لانے‘‘ کے لیے ہیں۔ اس طرح یورپی یونین کی طرف سے اوربان کے جمہوریت پر حملوں کو روکنے کی کوششوں کو بے اثر اور ان کی حکومت کی بقا کو یقینی بنایا جائے گا۔
سوشل لبرل اپوزیشن پارٹی ڈیموکریٹک کولیشن (ڈی کے) سے وابستہ یورپی پارلیمنٹ کی رکن کلارا دوبریو کہتی ہیں، ''سی پیک کا یورپی ایڈیشن یہ ظاہر کرتا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی عالمی قوتیں کس چیز کی خواہش رکھتی ہیں، مثال کے طور پر وکٹور اوربان جیسی طاقتوں کا اقتدار۔
‘‘ ان کے مطابق بلاشبہ ہنگری کے طاقتور رہنما وکٹور اوربان بہت سے لوگوں کے لیے ایک مثال ہیں۔اے ایف ڈی کو یورپی پارلیمان میں اب نئے اتحاد یوں کی تلاش
اوربان ایک نئے ''شفافیت قانون‘‘ کے ذریعے اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ یہ قانون ان کی حکومت کو ان تمام تنظیموں کو بلیک لسٹ کرنے کی اجازت دے گا، جو اس کے خیال میں ''غیر ملکی فنڈز کے ذریعے عوامی زندگی پر اثر انداز ہو کر ہنگری کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔
‘‘ناقدین نے خبردار کیا ہے کہ روس کے جابرانہ قوانین سے متاثرہ یہ قانونی مسودہ ہر تنقید کو جڑ سے ختم کر دے گا۔ وہ یہ بھی خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ دیگر حکومتیں ہنگری کی مثال پر عمل کر سکتی ہیں۔
کیا یورپ میں دائیں بازو کے عوامیت پسندوں کا دور شروع ہو گیا؟اگرچہ اوربان کے نیٹ ورکس نے انتہائی دائیں بازو کے بیانیوں کو یورپی مرکزی دھارے میں شامل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے تاہم وہ کئی برسوں سے ایک فعال بین الاقوامی اتحاد بنانے کی کوشش میں ناکام رہے ہیں۔
یورپی پارلیمنٹ میں ''یورپ کے لیے محب وطن‘‘ گروہ کتنا مستحکم ثابت ہو گا اور کیا یہ یورپی یونین کی قانون سازی پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ بہرحال، فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے سرکردہ سیاستدانوں نے سی پیک ہنگری 2025 میں شرکت نہیں کی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی سے دائیں بازو کی پاپولسٹ قوتوں اور قوم پرست گروہوں کے آپس میں تعلقات اور ہم آہنگی مضبوط ہوئے ہیں۔
تاہم ٹرمپ یورپ کے دائیں بازو کے پاپولسٹوں کو کس حد تک تحریک دے سکتے ہیں، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔
ادارت: افسر اعوان