اسلام آباد ہائیورٹس میں ججز کا تبادلہ، ذاتی خواہش یا آئینی اقدام
اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT
جمعہ 31 جنوری 2025 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو ایک خط لکھا گیا، اور اس کی نقول صدرپاکستان سمیت دیگر متعلقہ اٹھارٹیز کو بھی ارسال کی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں:ایک اور بحران؟ دوسری ہائیکورٹ سے جج لاکر چیف جسٹس نہ بنایا جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا یحییٰ آفریدی کو خط
کئی صفحات پر مبنی اس خط میں ٹیپ کا بند یہ تھا کہ ’اسلام آباد ہائیکورٹ کے لیے چیف جسٹس کا انتخاب موجودہ ججز ہی میں سے کیا جائے، اور اس کے لیے کسی بھی صوبے کی ہائیکورٹس کے جج کی خدمات نہ لی جائیں‘۔
اس خط میں کیے گئے مطالبے سے بھی زیادہ اہم بلکہ خطرناک بات یہ تھی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اعلیٰ ترین ججز جنہوں نے نہ صرف آئین و قانون کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے، بلکہ وہ خود قانون کے پاسدار بھی ہیں، ان کی جانب سے دھڑے بندی بلکہ یونین سازی کی فضا پیدا کی گئی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹس کے ان ججز کی روش قانون ہی کے خلاف نہیں بلکہ اس اخلاقی ضابطے سے بھی انحراف ہے، جس پر پابند رہنے کا انہوں نے حلف اٹھایا ہے۔
ذاتی خواہش یا آئینی اقدام؟یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ صوبائی ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلہ صدر پاکستان یا کسی اور کی ذاتی خواہش سے بالاتر ایک سراسر آئینی اور قانونی اقدام ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 200 کے مطابق صدر پاکستان اس طرح کے تبادلے چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ مشاورت سے کر سکتے ہیں۔
ججز مشاورتاس طرح کے فیصلوں میں متعلقہ ہائیکورٹس کے دونوں چیف جسٹسز سے بھی مشاورت کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس فیصلے پر پاکستان کے 5 چیف جسٹسز کا اتفاق ہے۔
پھر یہ تبادلہ زبردستی نہیں کیا گیا بلکہ اس میں تبادلہ پانے والے ججز کی رضامندی بھی شامل ہے۔چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ وفاق کی علامت ہے اور دیگر صوبوں سے ایسی نمائندگی کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
تاریخی نظائر:
جسٹس سردار محمد اسلمجیسا کہ اوپر بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ ججز کا دیگر صوبوں سے اسلام آباد ہائیکورٹ تبادلہ کوئی انہوںی بات نہیں ہے، اس لیے کہ جسٹس سردار محمد اسلم جو لاہور ہائی کورٹ (LHC) میں خدمات انجام دے رہے تھے کو فروری 2008 میں IHC میں ٹرانسفر کر دیا گیا اور اس کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔
جسٹس ایم بلال خاناس کے علاوہ جسٹس ایم بلال خان لاہور ہائیکورٹ میں خدمات انجام دے رہے تھے 2009 میں ان کا تبادلہ بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوا اور انہوں نے چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دیں۔
جسٹس اقبال حمید الرحمانپھر جسٹس اقبال حمید الرحمان بھی لاہور ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہوئے، انہیں 18ویں ترمیم کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔
ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام اسلام آباد ہائیکورٹ کے منتخب ججز کا خط ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ ذاتی مفاد/فائدہ ان کے رویے پر کبھی اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔
تبادلے کا فیصلہ کہاں ہوا؟صوبائی ہائیکورٹس میں فرائض انجام دینے والے ججز کے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلے کا فیصلہ پاکستان کے اعلیٰ ترین دفاتر نے کیا ہے، لہٰذا کسی بھی آئینی اقدام کیخلاف کسی بھی نوعیت کے احتجاج کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ ایکٹ 2010 کا سیکشن 3 وارشگاف الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ 12 ججز پہ مشتمل ہو گی، جو کے صوبوں اور پاکستان کے تمام علاقوں سے آئین کے مطابق لائے جا سکتے ہیں۔
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 200 صدر پاکستان کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی جج کی ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔
ان 3 ججز کی ٹرانسفر میں صرف صدر پاکستان کی منشا نہیں بلکہ 5 چیف جسٹسس کی رضا شامل ہے۔
چنانچہ یہ عمل نہ صرف آئینی طور پہ مکمل اور شفاف ہے، بلکہ فیڈریشن کے لیے بہتر ہے، کیونکہ اس سے 3 صوبوں کے ججز کو فیڈرل کیپیٹل کی ہائیکورٹ میں نمائندگی دی گئی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی بنیاد فیڈرل کیپیٹل کورٹ کی صورت میں رکھی گئی تھی، جو اسلام آباد ہائیکورٹ ایکٹ 2010 کے سیکشن 4 اور متن سے واضح ہے۔ چنانچہ یہ ہائیکورٹ تمام صوبوں اور علاقوں کی نمائندہ کورٹ ہے۔
یہ کوئی انہونی صورت حال نہیں ہے، اس سے پہلے بھی ججز دوسری ہائیکورٹس سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہو چکے ہیں۔
کرسی کی خواہشیہ ایک افسوسناک صورت حال ہے کہ چند ججز اپنی کرسی کی خواہش میں ایک آئینی عمل پہ سوال اٹھا رہے ہیں۔ حالانکہ ان ججز نے اسی آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔
26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے اپنی بالادستی واپس لی ہے۔ اب پاکستان میں وہ نظام نہیں رہا کہ چند ججز کا گروپ بیٹھ کے فیصلے کرتا تھا کے اگلے 10-20 سال تک چیف جسٹس کون بنے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ کے اسلام آباد ہائیکورٹ اسلام آباد ہائی ہائیکورٹ میں صدر پاکستان پاکستان کے ہائی کورٹ کورٹ میں چیف جسٹس کسی بھی کے لیے ججز کا ججز کی
پڑھیں:
صنم جاوید کی بریت کیخلاف درخواست پر سماعت ملتوی
رہنما پی ٹی آئی صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کیخلاف درخواست پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑنے ریمارکس دیے کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے، اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
9 مئی مقدمات میں رہنما پی ٹی آئی صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
وکیل پنجاب حکومت نے عدالت کو بتایا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی، ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کا صنم جاوید کیخلاف ایکشن، بریت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
جسٹس ہاشم کاکڑ کا کہنا تھا کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے، انہوں نے پنجاب حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اب یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں۔
جس پر وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیتے ہوئے ملزمہ کو بری کیا، جسٹس ہاشم کاکڑ بولے؛ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ کے مطابق اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے، اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
مزید پڑھیں: صنم جاوید طیبہ راجا کے ساتھ ہونے والے جھگڑے پر کھل کر بول پڑیں
وکیل پنجاب حکومت کا موقف تھا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جسٹس صلاح الدین نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ کرمنل ریویژن میں ہائیکورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم بولے؛آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے، کیا پتا کل کو آپ میرا یا کسی کا نام بھی 9 مئی مقدمات میں شامل کردیں۔
عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
9 مئی جسٹس ہاشم کاکڑ سپریم کورٹ سوموٹو صنم جاوید لاہور ہائیکورٹ