جبیل میں سابک کے تحت ( ایس ٹی ایم 2025) عظیم الشان نمائش کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
جبیل میں سابک کے زیراہتمام ( ایس ٹی ایم 2025 ) نمائش کا منظر
سعودی عرب کے انڈسٹریل شہرالجبیل میں صنعتی ادارہ سابک کی طرف سے ایس ٹی ایم 2025 کے نام سے ایک عظیم الشان نمائش کا انعقاد کیا گیا جس میں سعودی عرب سمیت پوری دنیا سے کاروباری لوگوں نے شرکت کی۔ عابد شمعون چاند کی رپورٹ کے مطابق اس نمائش کا مقصد دنیا میں مختلف قسم کے صنعتی پیداوارکو ایک دوسرے کے ساتھ متعارف کرانا اور اپنے کاروبارکودوسروں سے متعارف کرانا ہے۔ نمائش میں موجود حارسکوکمپنی کے سی ای او ریاض عارف کا کہنا تھا کہ یہ نمائش کاروباری حضرات کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ ان کا کہنا تھا اس طرح کی نمائش پاکستان میں بھی منعقد ہونی چاہیے تاکہ پاکستانی معیشت کو مضبوط کیا جا سکے۔ سی سی ٹی کمپنی کے سی ای او آفتاب جاوید اورعریبین گلف انٹرنیشنل اسکول کے ڈائریکٹرپرویزاخترملک کا کہنا تھا سابک نے مختلف ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کو ایک پلیٹ فارم دیا ہے۔ جس پرآکروہ اپنے پروجیکٹ کو لوگوں کے ساتھ شیئرکرسکتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آنے والے وقت میں اس طرح کے مزید پروگرام منعقد کیے جائیں گے جس سے انڈیسٹریل کی صعنت کو فائدہ پہنچ سکے گا۔ مختلف ملکی اورغیر ملکی کمپنیوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کاروباری معاہدے سائن کیے ہیں جس سے صنعتی پیداوار کو فروغ ملے گا اور روزگار کے مواقع میسر ہونگے۔ یاد رہے اس نمائش میں 50سے زائد ملکوں کے نمائندوں سمیت 500 سے زائد صعنتی کمپنیوں نے شرکت کی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نمائش کا
پڑھیں:
پہلی جنگ عظیم کے پیغامات والی بوتل صدی بعد Wharton ساحل پر دریافت
ایک صدی پرانی یادیں حال ہی میں Wharton، مغربی آسٹریلیا کے ساحل پر سامنے آئیں، جب پہلی جنگ عظیم کے دوران سمندر میں پھینکی گئی ایک بوتل دریافت ہوئی۔ یہ بوتل دو آسٹریلوی فوجیوں کی جانب سے اس وقت سمندر میں بھیجی گئی تھی جب وہ فرانس میں جنگ لڑنے کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔
پیٹر براؤن اور ان کی بیٹی فیلیسیٹی ساحل کی صفائی کر رہے تھے جب انہیں یہ بوتل ملی۔ پیٹر کی اہلیہ ڈیب براؤن نے بتایا،ہم نے ساحل پر بہت کام کیا ہے اور کبھی بھی کچرے کو نظر انداز نہیں کیا، شاید یہ بوتل صدیوں سے ہمارا انتظار کر رہی تھی۔
بوتل کے اندر دو خطوط موجود تھے، جنہیں فوجیوں میلکم نیویل اور ولیم ہارلے نے 15 اگست 1916 کو لکھا تھا۔ یہ دونوں فوجی ایڈیلیڈ، جنوبی آسٹریلیا سے 12 اگست کو روانہ ہوئے تھے اور فرانس میں 48 ویں آسٹریلین انفنٹری بٹالین میں شامل ہونے جا رہے تھے۔
بدقسمتی سے، میلکم نیویل ایک سال بعد جنگ میں ہلاک ہوگئے، جبکہ ولیم ہارلے دو بار زخمی ہونے کے بعد زندہ رہے اور 1934 میں کینسر کے باعث انتقال کر گئے۔
میلکم نیویل نے اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ جو بھی یہ بوتل پائے، براہ کرم یہ خط اس کی والدہ تک پہنچا دے۔ انہوں نے لکھا:میرا وقت اچھا گزر رہا ہے، کھانا بھی اچھا ہے، جہاز کا سفر مشکل ہے مگر ہم خوش ہیں۔
ولیم ہارلے نے اپنی طرف سے لکھا کہ وہ Bight کے قریب ہیں اور بوتل ڈھونڈنے والا اس خط کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔
ڈیب براؤن کے مطابق، یہ بوتل زیادہ طویل سفر نہیں کر سکی اور صدیوں تک ساحل کے ریتیلے ٹیلوں میں دفن رہی۔ حالیہ مہینوں میں Wharton کے ساحل پر ریت کے حجم میں کمی کے باعث یہ بوتل سامنے آ گئی۔ بوتل کے اندر موجود کاغذ گیلے تھے، لیکن خطوط اب بھی پڑھنے کے قابل تھے۔
یہ دریافت دونوں فوجیوں کے رشتہ داروں کے لیے حیرت انگیز لمحہ ثابت ہوئی۔ ولیم ہارلے کی پڑپوتی این ٹرنر نے کہا،ہمیں یقین نہیں آیا، یہ تو کسی کرشمے جیسا محسوس ہوتا ہے، جیسے پڑ دادا ہم سے رابطہ کر رہے ہوں۔
میلکم نیویل کے خاندان نے بھی اس دریافت کو “ناقابل یقین” قرار دیا اور کہا کہ اس نے خاندان کو ایک ساتھ جمع کر دیا ہے۔