Express News:
2025-07-07@02:15:06 GMT

دنیائے فلم کے مقبولِ زمانہ افسانوی کردار

اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT

شوبز کی مختلف اصناف میں سے فلم کو خاص اہمیت حاصل ہے یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے فلم، شوبز کی مقبول ترین صنف ہے اور اپنی اسی مقبولیت کے باعث یہ صنعت اربوں ڈالر سے اوپر جا چکی ہے۔

دنیا بھر میں فلموں نے جہاں تفریح فراہم کی، وہیں انسانی جذبات، اخلاقیات، مسائل اور تصورات کو نئی جہات بھی بخشی ہیں۔ فلمی کردار، خاص طور پر وہ جو مکمل طور پر تخیل پر مبنی ہوتے ہیں، بعض اوقات ناظرین کے دل و دماغ پر ایسے نقش چھوڑ جاتے ہیں جو برسوں تک مٹائے نہیں جا سکتے۔

ان کرداروں کی مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ تخیل کی طاقت حقیقت سے کہیں زیادہ اثر انگیز ہو سکتی ہے اور کبھی کبھی یہ کردار ہمیں حقیقت سے زیادہ قریب محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی کہانیاں، جدوجہد اور خصوصیات تب جاندار اور متاثر کن ہوتی ہیں جب وہ صرف سکرین پر نمودار ہوں۔ ان کرداروں کی گہرائی اور پس پردہ تخلیقی عمل ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ فلمی دنیا کی طاقت بے مثل ہوتی ہے۔ ذیل میں ہم ایسے خیالی کرداروں کا جائزہ لینے جا رہے ہیں، جن کے افسانوی ہونے کے باوجود، ان کا حقیقی اثر نہایت ٹھوس ہے۔

سپرمین (Superman)

دنیا کے سب سے مشہور اور طاقتور فکشنل کرداروں میں سے ایک سپر مین (Superman) ہے، جو دہائیوں سے بچوں، بڑوں اور ہر عمر کے شائقین کا محبوب کردار رہا ہے۔ یہ کردار سب سے پہلے 1938ء میں Comics DCکے ذریعے پیش کیا گیا۔ سپر مین کے خالق جیری سیگل (Jerry Siegel) اور جو شسٹر (Joe Shuster) تھے، جنہوں نے اسے امریکہ میں تخلیق کیا، لیکن یہ کردار دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں مشہور ہو گیا۔

سپر مین کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس پر بے شمار فلمیں، ٹی وی سیریز، کارٹونز، کامکس اور ویڈیو گیمز بن چکی ہیں۔ 1978ء میں ریلیز ہونے والی فلم Superman: The Movie نے اس کردار کو دنیا بھر میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ہالی وڈ کے مشہور اداکار کرسٹوفر ریو، ہنری کیول اور دیگر فنکاروں نے سپر مین کا کردار بخوبی نبھایا۔

 ہیری پوٹر (Potter Harry )

جادوئی دنیا کا یہ یتیم لڑکا آج کروڑوں لوگوں کی امیدوں، خوابوں اور خوشیوں کا حصہ ہے۔ ہیری پوٹر کی کہانی سادگی، قربانی، بہادری اور دوستی کا ایک نایاب امتزاج ہے۔ اگرچہ اس کی دنیا، کردار اور جادو سب کچھ تخیلاتی ہے، مگر ان کا اثر انسانی جذبات پر نہایت گہرا ہے۔

’’ہاگ وارٹس‘‘ جیسے خیالی اسکول، "کویڈیچ" جیسا کھیل، "ڈارٹ آرٹس" کے خلاف جنگ، یہ سب ایک مکمل تخیلاتی کائنات کی علامت ہیں۔ 1990ء کی دہائی کے وسط میں جب برطانوی مصنفہ جے کے رولنگ لندن کی ٹرین میں سفر کر رہی تھیں تو اس وقت انہیں اس اداس لیکن قوتِ مند بچے کا خیال آیا۔ یہ خیال بعد ازاں ناول Harry Potter and the Philosopher's Stone میں تبدیل ہوا، اور 1997ء میں یہ کتاب منظر عام پر آئی۔ اس تصور کو جلد ہی بڑے فلم اسٹوڈیوز نے فلمسازی کے لیے منتخب کیا۔ 2001ء سے جاری 8 فلموں کی سیریز اب تک پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔

 جیمز بونڈ (Bond James)

جاسوسی کی دنیا کا یہ شاندار کردار بہادری، ٹیکنالوجی، دلکشی اور ذہانت کا سحر انگیز امتزاج ہے۔ جیمز بونڈ نہ صرف ایک جاسوس ہے، بلکہ ایک ایسا کلچرل آئیکون بن چکا ہے، جس نے کئی دہائیوں پر محیط فلمی سیریز میں ناظرین کو محظوظ کیا۔ اس کی شروعات کی بات کریں تو 1953ء میں انگلش مصنف ایان فلیمنگ نے کیپٹلزم، سرد جنگ اور جاسوسی کو پسِ منظر میں رکھتے ہوئے اپنے ناول Casino Royale میں پہلی بار جیمز بونڈ کو متعارف کروایا۔ اس کردار کا مقصد ایک جدید، پُرکشش اور ذہین جاسوس پیش کرنا تھا، جو خفیہ برطانوی ایجنسی ایم آئی 6 کے لیے دنیا بھر میں حساس مشنز سر انجام دیتا ہو۔ 1962ء میں پہلی فلمNo Dr.

کے ساتھ جب شان کونری نے بونڈ کا کردار نبھایا، جس کے بعد یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

اس کردار نے دنیا بھر میں جاسوسی کے تصور کو بدل کر رکھ دیا۔ ہائی ٹیک گیجٹس، خطرناک مشنز، عالمی سازشوں کا پردہ فاش کرنا اور نپے تلے جذبات کے ساتھ کارروائیاں انجام دینا، یہ سب اس کردار کی شناخت بن چکی ہیں۔ فلمی دنیا میں اس کردار کو ادا کرنے والے اداکار جیسے شان کونری، روجر مور، پیرس بروسنن اور ڈینیئل کریگ نے بھی اس کردار کی مقبولیت کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ حقیقت میں کوئی "007" نہیں، مگر کئی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے جیمز بونڈ کی شہرت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مہمات کو عوام میں پُرکشش بنانے کی کوشش کی۔

 بیٹ مین (Batman)

بیٹ مین وہ کردار ہے جو بغیر کسی جادوئی طاقت کے صرف اپنی ذہانت، تکنیکی مہارت اور انسانی جذبات کی شدت سے ایک ہیرو بن گیا۔ بیٹ مین کا کردار اس بات کی علامت ہے کہ انسان صرف اپنی قوتِ ارادی، نظم و ضبط، اور نیک نیتی سے بھی دنیا کو بہتر بنا سکتا ہے۔ یہ کردار ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہیرو وہ نہیں جو سپر پاور رکھتا ہو، بلکہ وہ ہے جو درد سہہ کر بھی دوسروں کو بچاتا ہے۔

اس کا شہر "گوتم سٹی" بذاتِ خود ایک زندہ استعارہ بن چکا ہے جہاں ظلم اور انصاف کی کشمکش جاری رہتی ہے۔ 1939ء میں امریکن مزاحیہ بک پبلشر ڈی سی کامکس نے بیٹ مین کا یہ کردار شائع کیا، جسے باب کین، بل فنگر اور بوب کین نے تخلیق کیا۔ یہ کردار اس وقت سامنے آیا جب ڈاکومنٹری فلموں، کمکس اور ریڈیو کہانیوں کی مقبولیت بڑھ رہی تھی۔ 1960ء کی دہائی کے ٹی وی شو سے لے کر 1989ء کی Tim Burton فلم اور پھر Nolan کی Dark Knight Trilogy تک بیٹ مین نے ہر دہائی میں نیا روپ اپنایا، جو بہت مقبول ہوا۔

فروڈو بیگنز (Baggins Frodo)

فروڈو ایک نہایت سادہ دل، چھوٹے قد کا ہوبٹ ہے، جو بظاہر کسی جنگ یا مہم جوئی کے قابل نہیں، مگر جب دنیا کو بچانے کی بات آتی ہے تو وہ سب سے بڑی قربانی دیتا ہے۔ The Lord of the Ringsکی یہ کہانی بظاہر ایک خیالی سرزمین میں ہوتی ہے، مگر اس کے پسِ پردہ اخلاقیات، حوصلہ، وفاداری اور نفس سے لڑنے کا گہرا پیغام موجود ہے۔ فروڈو کا کردار اس بات کی علامت ہے کہ عظمت طاقت سے نہیں بلکہ قربانی سے حاصل ہوتی ہے۔ جب ہر طرف اندھیرا ہو، تب بھی امید، وفاداری اور دوستی روشنی کا کام دے سکتی ہے۔ یہی بات اس کردار کو ہر عمر کے ناظرین کے لیے متاثر کن بناتی ہے۔ انگریز مصنف اور ماہر فلکیات جان رونالڈ ریوئل ٹولکین نے 1954ء میں The Fellowship of the Ring شائع کیا، جس میں ہوبٹس، الفز، انسان اور دیگر فکشنل کردار پیش کیے گئے۔ فروڈو ایک ہو بٹ کا مرکزی کردار ہے، جو "One Ring" تباہ کرنے کے لیے خطرناک مہم پر نکلتا ہے۔ 2001ء سے شروع ہونے والی فلم ٹرائیلوجی نے یہ دنیا سینما کے شائقین کے لیے حقیقت بنا دی۔ یہ سیریز نہ صرف فینٹسی فلموں میں نیا معیار لے کر آئی، بلکہ بہترین ٹیکنیکل ایوارڈز بھی جیتے۔

 ٹرمینیٹر (Terminator The)

سائنس فکشن کی دنیا کا ایک یادگار کردار ’’ٹرمینیٹر‘‘ ہمیں ٹیکنالوجی کی طاقت اور خطرات دونوں کی جھلک دکھاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک روبوٹ ہے جو مستقبل سے آیا ہے، مگر اس کا انسانی جذبات سے جْڑا ہونا، اسے مشینی ہونے کے باوجود انسانی بناتا ہے۔ آج کی دنیا میں جہاں مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں، ٹرمینیٹر ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ اگر ٹیکنالوجی بے لگام ہو جائے تو انسانیت کس طرح تباہی کی طرف جا سکتی ہے۔ یہ کردار ایک آئندہ ممکنہ دنیا کا غماز ہے۔ 1984 میں جیمز کیمرون کی اس فلم میں سکائنیٹ نامی AI نے انسانوں کی مخالفت میں جگہ بنائی، اور ماضی میں ایک قاتل روبوٹ ٹرمینیٹر بھیجا گیا تاکہ مستقبل کے مزاحم لیڈر کو قتل کر سکے۔

 ایلس (Alice in Wonderland)

ایلس، ایک معصوم بچی جو اچانک ایک عجیب و غریب دنیا میں جا نکلتی ہے، جہاں ہر قانون بدلا اور اصول الٹا ہے۔ یہ کہانی صرف ایک خیالی مہم نہیں، بلکہ انسانی شعور، نفسیات، اور زندگی کے حقائق پر گہری علامتی تعبیر بھی ہے۔ "ایلس ان ونڈر لینڈ" کے کردار، جیسے میڈ ہیٹر، کوئین آف ہارٹس اور وائٹ ریبٹ، انسانی شخصیات اور معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ 1865ء میںبرطانوی مصنف و شاعر Lewis Carroll کی تصنیف Alice’s Adventures in Wonderland نے بچوں کی خیالی دنیا کی تصویر کشی کی، جہاں بے معنی منطق اور پاکٹ گھڑی رکھنے والا خرگوش جیسے کردار نمایاں ہیں۔ کئی دہائیوں میں اس کا متعدد بار جدید اور کلاسیکی فلمی ورژن بنایا گیا، خاص طور پر 1951ء کی Disney انیمیشن اور 2010 میںTim Burton کی فلم نے ایلس کے سفر کو نئی عمر بخشی۔

 ٹونی اسٹارک / آئرن مین (Tony Stark / Iron Man)

ٹونی اسٹارک کا کردار ایک انتہائی ذہین موجد کا ہے، جو اپنی بنائی گئی مشینوں سے دنیا کو بچانے نکلتا ہے۔ آئرن مین کی کہانی صرف ایک سپر ہیرو کی نہیں، بلکہ ایک شخص کی ہے جو اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے، اپنی انا کو چیلنج کرتا ہے، اور ایک بہتر انسان بننے کی کوشش کرتا ہے۔Marvel Comics نے 1963ء میںDon Heck، Jack Kirby، Larry Lieber اور Stan Lee  کے تعاون سے آئرن مین کی دنیا شروع کی۔ 2008ء میں رابرٹ ڈاؤنی جونیئر نے یہ کردار نبھایا، جس نے MCU (Marvel Cinematic Universe)کا آغاز کیا، جو آج تلک کامیابی سے جاری ہے، آئرن مین کی تین باقاعدہ فلمیں آ چکی ہیں جبکہ یہ دیگر سائنس فکشن ایکشن موویز میں بھی اپنا کردار ادا کر چکا ہے۔

 سپائیڈر مین (Man Spider)

پیٹر پارکر ایک عام سا طالبعلم ہوتا ہے، جسے اتفاقاً غیر معمولی طاقتیں مل جاتی ہیں۔ مگر اس کے بعد وہ ان طاقتوں کو اپنی ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے انسانیت کی بھلائی کے لیے کام میں لاتا ہے۔ اس کا مشہور جملہ’’  Great power comes with great responsibility‘‘ ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ سپائیڈر مین کا کردار اس لیے بھی مقبول ہوا کہ وہ مکمل انسانی جذبات کا حامل ہے۔ اسے بھی عشق ہوتا ہے، امتحان کا خوف ہوتا ہے، خاندان کی فکر ہوتی ہے، یہ سادہ انسانی پہلو اسے بہت زیادہ قابلِ فہم اور محبوب بناتے ہیں۔ مزاحیہ امریکی مصنف Stan Lee اور Steve Ditko نے 1962ء میں پیٹر پارکر کے کردار کو متعارف کروایا، ایک عام طالب علم جو مکڑی کے کاٹنے سے غیر معمولی طاقتیں حاصل کرتا ہے۔ اس کی مقبولیت اس وقت عروج پر پہنچی جب 2002 میں ٹوبی میگوائر، پھر 2012 میں اینڈرو روبن کے اداکاری میں نئی جان ڈالی گئی۔ اس سیریز کی اب تک تقریباً 10فلمیں ریلیز ہو چکی ہیں۔

 شریک (Shrek)

شریک، ایک ایسا کردار جو بظاہر بدتمیز اور کرخت نظر آتا ہے، مگر اندر سے محبت اور احساسات کا پیکر ہے۔ اس کی کہانی ہمارے سماجی رویوں پر طنز ہے، جہاں ظاہری شکل و صورت پر لوگوں کو پرکھا جاتا ہے۔ کِرگ جیفریز کی کتاب Shrek! (1990) سے متاثر ہو کر 2001ء میں DreamWorks نے انیمیشن "Shrek" بنائی۔ شریک کی انفرادیت، مزاح اور خوشگوار اخلاق نے اسے بچوں اور بڑوں دونوں میں پسندیدہ بنا دیا۔ اس کی سیریز میں پانچ فلمیں بنیں، اور یہ DreamWorks کی سرکردہ فریچائز میں شامل ہے۔

 ڈیوی جونز (Jones Davy)

سمندر کی گہرائیوں سے ابھرنے والا کردار ’’ڈیوی جونز‘‘ ایک خوفناک، مگر پراسرار قزاق ہے، جس کی کشتی "فلائنگ ڈچ مین" سمندر کے قیدیوں کی آخری پناہ گاہ بن چکی ہے۔Pirates of the Caribbean سیریز میں یہ کردار نہ صرف ایک ولن ہے بلکہ انسانی لالچ، موت کے خوف، اور طاقت کی ہوس کی علامت بھی ہے۔ ڈیوی جونز کے چہرے کی آکٹوپس نما ساخت، اس کی آواز اور ظالمانہ فطرت ناظرین کو مسحور بھی کرتی ہے اور خوفزدہ بھی۔ یہ کردار فلمی تخیل کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ Pirates of the Caribbean سیریز میں یہ کردار پہلی بار 2006ء میں Dead Man’s Chest میں پیش کیا گیا۔ اس کی تخلیق کا مقصد ایک ایسا رقیب بنانا تھا جس کی شکل، کردار اور حکمت عملی سمندر کی گہرائیوں کو عکاسی کرے۔ ڈیوی جونز کے چہرے کا ڈیزائن، جس میں آکٹوپس نما ٹینٹیکلز اور مکمل CGI (Computer-generated imagery) استعمال ہوا، فلم میں انوکھا تجربہ تھا۔ یہ کردار انسانی و مشینی ترکیب کی خوبصورت مثال ہے۔

سنڈریلا (Cinderella)

سنڈریلا کا کردار صدیوں پرانے لوک قصوں کا حصہ ہے، جسے وقت گزرنے کے ساتھ کئی ثقافتوں اور فلمی صنعتوں نے اپنے رنگ میں ڈھالا ہے۔ یہ کہانی ایک مظلوم، سادہ دل اور نیک سیرت لڑکی کی ہے جس پر سوتیلی ماں اور بہنیں ظلم کرتی ہیں، لیکن وہ اپنی بھلائی، صبر اور محبت کی طاقت سے آخرکار کامیاب ہوتی ہے۔ سنڈریلا محض ایک پریوں کی کہانی نہیں بلکہ امید، معصومیت، اور قسمت کے بدلنے کی علامت بن چکی ہے۔ اس کردار کی فلمی تاریخ 1950ء میں اس وقت روشن ہوئی، جب ڈزنی (Disney) نے اپنی اینیمیٹڈ فلم Cinderella ریلیز کی، جو دنیا بھر میں بچوں اور بڑوں کے دلوں کو چھو گئی۔ چمکتا ہوا گاؤن، شیشے کی جوتی، اور پری فیری گاڈ مدر جیسے عناصر نے اسے خوابوں جیسا رنگ دے دیا۔

ہلک (Hulk)

ہلک کا کردار انسان کی اندرونی کشمکش اور قابو سے باہر ہوتی طاقت کا مظہر ہے۔ یہ ایک ایسا سپر ہیرو ہے، جو بظاہر خوفناک، تباہ کن اور بے قابو دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے پس پردہ ایک حساس، ذہین اور اخلاقی طور پر با شعور انسان چھپا ہوتا ہے۔ یہ کردار ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر انسان کے اندر ایک "ہلک" چھپا ہوتا ہے، جسے قابو میں رکھنا یا اس کی توانائی کو مثبت سمت دینا ہی اصل فن ہے۔ فلمی دنیا میں ہلک کی مقبولیت اس کی طاقت، دیو قامت جسم، اور انسانی دکھ درد کے احساس کی بدولت ہے، جو اسے ایک منفرد اور ناقابلِ فراموش کردار بناتا ہے۔ ڈاکٹر بروس بینر جب ایک سائنسی تجربے کے دوران گاما رے کی شعاعوں کا شکار بنتا ہے، تو اس کے اندر ایک دوسرا روپ پیدا ہو جاتا ہے جو غصے کی شدت میں سب کچھ تہس نہس کر سکتا ہے۔ یہ دوسرا روپ ہی "ہلک" کہلاتا ہے۔ ہلک کا یہ مشہور کردار 1962ء میں مارول کامکس (Comics Marvel) کی تخلیق ہے، جسے بعدازاں اسٹین لی (Stan Lee) اور جیک کربی (Jack Kirby) نے متعارف کروایا۔ ابتدا میں یہ کردار کمکس اور کارٹونز تک محدود رہا، مگر بعد ازاں ہالی وڈ نے اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اسے فلمی دنیا کا مستقل حصہ بنا دیا۔ ہلک کی پہلی فلمی جھلک 2003ء کی فلم Hulk میں دیکھنے کو ملی، جبکہ بعد ازاں مارول سینیمیٹک یونیورس (MCU) میں یہ کردار اداکار ایڈورڈ نورٹن اور پھر مارک رفالو نے ادا کیا۔

یہ تمام کردار اگرچہ حقیقت میں موجود نہیں، مگر ان کی ابتداء ، تخلیقی تاریخ اور امتیاز نے انہیں فلمی تاریخ میں امر کر دیا ہے۔ ہر کردار نے اپنی نوعیت اور مقصد کے تحت ناظرین کے دل و دماغ میں گہرے اثرات مرتب کیے۔ فلمی دنیا اپنے ان خیالی کرداروں کے ذریعے ہمیں حقیقت کی جھلک دکھانے، خواب دکھانے اور انسانی اقدار کی ہدایت کرنے کا بے مثال ذریعہ فراہم کرتی ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انسانی جذبات میں یہ کردار دنیا بھر میں کی مقبولیت فلمی دنیا کا کردار کردار کو ایک ایسا کی مقبول دنیا میں کی علامت کی کہانی ہوتی ہے سکتا ہے کرتا ہے کی طاقت دنیا کا کی دنیا صرف ایک چکی ہیں ہوتا ہے بیٹ مین اس بات چکی ہے کے لیے مین کی بن چکی مین کا کی فلم

پڑھیں:

جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی چیلنجز اور سوشل میڈیا کا کردار

پاکستان اور بھارت کا رشتہ تاریخ، تہذیب اور جغرافیہ کے گہرے روابط رکھنے کے باوجود کشیدگی، بداعتمادی اور تنازعات سے عبارت رہا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین سرحدوں پر خار دار دیواریں تو موجود ہیں، لیکن قدرتی مسائل، خاص طور پر موسمیاتی اور ماحولیاتی چیلنجز، ان کے درمیان کسی سرحد کے پابند نہیں۔فضائی آلودگی، پانی کی کمی، ہیٹ ویوز، سمندری طوفان کے خطرات، طوفانی بارشیں اور برفانی گلیشیئرز کے پگھلنے جیسے مسائل دونوں ممالک کے شہریوں کو یکساں اور شدید متاثرکررہے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ پاکستان اور بھارت طویل المدتی موسمیاتی بحران کی لپیٹ میں ہیں، جو ان کے ماحولیاتی، معاشی اور سماجی ڈھانچے پر گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا ہمیں ایک نیا موقع فراہم کرتا ہے کہ اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر مشترکہ ماحول دوست مستقبل کی جانب بڑھا جائے۔

اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی رپورٹ ''South Asia Environmental Outlook 2024'' کے مطابق جنوبی ایشیا میں ماحولیاتی بحران کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ رپورٹ  کے مطابق ’’بھارت اور پاکستان کے شہری علاقوں میں فضائی آلودگی عالمی معیار سے کئی گنا زیادہ ہے، جس کے باعث بھارت میں سالانہ 1.6 ملین جب کہ پاکستان میں تقریباً 135,000 اموات ہوتی ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ دریائے گنگا اور سندھ کی آلودگی، زمینی پانی کی قلت اور زراعت میں کیمیکل کے بے تحاشا استعمال نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ بدقسمتی سے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی نے ماحولیاتی تعاون کو محدود کردیا ہے۔ ایسی صورتحال میں سوشل میڈیا ایک نیا رابطہ پل ثابت ہو سکتا ہے۔

2024 کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 467 ملین اور پاکستان میں 71 ملین فعال سوشل میڈیا صارفین موجود ہیں۔ یہ نوجوان صارفین انسٹاگرام، ٹوئٹر، یوٹیوب اور فیس بک کے ذریعے عالمی و مقامی مسائل پر آواز بلند کر رہے ہیں، اگر ان پلیٹ فارمزکو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ماحولیات کے تحفظ اور خطے میں امن کے فروغ کا بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں۔

اس طرح کی کئی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں، مثال کے طور پر ہیش ٹیگ #IndoPakClimateSolidarity کے ذریعے نوجوانوں نے سرحد پار ماحولیاتی یکجہتی کا اظہارکیا۔ یوٹیوب چینلز جیسے India Pakistan Together نے ماحولیاتی موضوعات پر مثبت مکالمے کو فروغ دیا۔ مختلف این جی اوز نے آن لائن کانفرنسز اور وسمینارز کے ذریعے مشترکہ ماحولیاتی حل تلاش کیے۔ عالمی سطح پر بھی دیکھاجائے تو سوشل میڈیا نے متصادم گروہوں کو ماحولیاتی مسائل  کے حوالے سے  متحدکیا جیسے فلسطین اور اسرائیل کے نوجوانوں نے EcoPeace Middle East کے ذریعے پانی کے تحفظ پر مل کر کام کیا۔ چین اور بھارت کی ڈیجیٹل مہمات نے سرحدی ماحولیاتی خطرات پر توجہ دی۔ اقوام متحدہ کے Climate Action Now جیسے عالمی پروگراموں نے سوشل میڈیا کو مؤثر ماحولیاتی سفارت کاری کا ذریعہ بنایا۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جہاں مواقع  موجود ہوتے ہیں، وہیں چیلنجز بھی ہوتے ہیں۔ بعض گروہ سوشل میڈیا کو تعصب اور دشمنی کے فروغ کے لیے استعمال کرتے ہوئے نفرت انگیز بیانیے کو پروان چڑھاتے ہیں جب کہ ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق جعلی خبریں اور اس حوالے سے سازشی نظریات ماحول دوستی کے لیے کی جانے والی کوششوں کوکمزور کرنے کا باعث بنتے ہیں، اس کے ساتھ بعض اوقات حکومتیں ریاستی سنسر شپ کے زریعے آن لائن مکالمے پر پابندیاں عائد کردیتی ہیں ۔

 ہمارے پالیسی ساز اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے مشترکہ ماحول دوست مستقبل کو پروان چڑھانے کے لیے متعدد اقدامات اٹھا سکتے ہیں جیسے، ماحولیاتی یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز اور انسٹا ایکٹیوسٹس کو ڈیجیٹل بیداری اور تحقیق پر مبنی تربیت دی جائے۔ پاکستان اور بھارت کے طلبا، محققین اورکارکنان کے درمیان ورچوئل کلائمیٹ کانفرنسز منعقد کی جائیں، دونوں ممالک کے نوجوان فلم ساز ماحولیاتی ڈاکیومنٹریز اور سوشل میڈیا سیریز بنائیں جیسے ’’ سانس ایک، شہر دو‘‘ جامعات ماحولیاتی اور سوشل میڈیا سے متعلق تحقیق کو فروغ دے کر بین الاقوامی تحقیقی گرانٹس حاصل کرسکتی ہیں۔ UNEP،SAARCاور دیگر عالمی ادارے اس ضمن میں سوشل میڈیا بیداری مہمات کو مالی اور تکنیکی معاونت بھی فراہم کرسکتے ہیں۔

ہمیں جلد از جلد اس امرکا ادراک کرنا ہوگا کہ جنوبی ایشیا کی ماحولیاتی بقا اب دونوں ممالک کے لیے بقاء کا سوال ہے۔ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو روایتی سفارتی دروازوں کو کھولے بغیر دلوں کو جوڑ سکتا ہے۔ نوجوانوں کی آوازیں اگر ماحولیاتی انصاف، پانی کی حفاظت اور صاف فضا کے لیے بلند ہوں، تو نہ صرف کشیدگی میں کمی آ سکتی ہے بلکہ ایک بہتر، مشترکہ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔

اب پاکستان اور بھارت کا مستقبل جنگ یا سیاست کے فیصلے نہیں بلکہ مشترکہ ماحولیاتی خطرات طے کریں گے۔ دریاؤں کا پانی،آلودہ فضا،گرم ہوتا موسم اور ختم ہوتی حیاتیاتی تنوع بھی ان مسائل میں شامل ہیں جن کی سرحدیں نہیں ہوتیں، اگر دونوں ملکوں کے نوجوان سوشل میڈیا کو نفرت کے بجائے فہم و فراست کا ذریعہ بنائیں، تو وہ نہ صرف ماحول کو بچا سکتے ہیں بلکہ دشمنی کی برف کو بھی پگھلا سکتے ہیں۔آج ہمیں جنگ کی زبان سے نہیں، ہوا اور پانی کی زبان سے بات کرنی ہے، اور سوشل میڈیا ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم نفرت کے شور میں ماحول کے حق میں ایک نیا نغمہ چھیڑیں۔ سوشل میڈیا، جوکل تک تفریح کا ذریعہ تھا، آج ہمارے ہاتھ میں ایک بااثر ہتھیار ہے، محبت، شعور اور مکالمے کا۔

متعلقہ مضامین

  • سابق بھارتی کرکٹر سریش رائنا نے فلمی دنیا میں قدم رکھ لیا
  • پاکستانیوں کی خوراک میں تلی ہوئی اشیاء کا راج، پیزا دعوت کی مقبول ڈش قرار
  • واقعہ کربلا دین کی سر بلندی کیلیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دینے کا درس دیتا ہے، خالد مقبول صدیقی
  • سابق بھارتی کرکٹر کی فلمی صنعت میں انٹری، فلم ٹیزر جاری
  • ہمیں بطور قوم حسینی کردار کی سخت ضرورت ہے، صدر مملکت
  • امت کو حسینی کردار اپنانا ہوگا!
  • جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی چیلنجز اور سوشل میڈیا کا کردار
  • کربلا میں خواتین کا بے نظیر کردار
  • ٹی ریکس دوڑ: امریکا سے جاپان تک مقبول ہونے والا انوکھا تفریحی ایونٹ