غسان کنفانی، عربی زبان کا عظیم کہانی کار
اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT
8 جولائی1972ء کی صبح وہ اپنی سترہ برس کی بھانجی لمیس نجم کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھا، جیسے ہی اس نے کار سٹارٹ کی ایک زوردار دھماکہ ہوا، موساد کا فٹ کیا ہوا پلاسٹک بم پھٹا اور عربی زبان کا عظیم کہانی کار، صحافی، قائد، مزاحمت کار، مصور اور عاشق غسان کنفانی اپنی بھانجی کے ہمراہ ایک پرشور انداز میں اپنی ہی دھج کے ساتھ جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔ اگر آج وہ زندہ ہوتا تو 81 برس کا ہوتا۔ مگر کیا وہ واقعتاً مر ہی گیا؟ آئیے ذرا دیکھتے ہیں۔
غسان فائز کنفانی8 اپریل1936ء کو فلسطین کے شہر عکّا میں ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کے والد فائز عبدالرزاق کنفانی ایک وکیل تھے۔ فائز شروع سے ہی سیاسی طور پر متحرک شخص تھے اور انھیں با قاعدگی سے ڈائری لکھنے کی عادت تھی۔ وہ کبھی کبھی سارے گھر والوں کو اکٹھا کر کے اپنی زندگی کے اہم واقعات کی روداد اس ڈائری میں سے پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کی جدّوجہد اور لفظ کی تاثیر کے حوالے سے غسان کی ابتدائی تربیت اس طرح ہوئی۔ اس کی عمر 12 برس تھی جب اسرائیل کا قیام ہوا اور بپھرے ہوئے یہودی قابضین نے اردگرد کی عرب آبادیوں پر حملے کر کے پہلے ہی روز اپنی توسیعی کارروائیاں شروع کر دیں۔ فلسطینی اسرائیل کے قیام کو ’’النکبہ‘‘ (رسوائی)کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ کئی دہائیوں کے بعد اس نے اپنے بیٹے کے نام لکھے ہوئے خط میں ان دنوں کو بہت یاد کیا۔ اس کے الفاظ میں: ’’میں رسوائی کو اپنے دل کے اندر اترتے ہوئے محسوس کرتا تھا، ہر روز میراکوئی نہ کوئی جاننے والااپنے ہتھیار ان قابضین کے حوالے کر کے ان سے اپنی جان کی امان حاصل کر کے فلسطین سے فرار اختیار کرتا اور مجھے لگتا جیسے میری عزّت کی ایک اور دھجی بکھر گئی ہے۔‘‘
جب اپریل 1948ء میں عکّا پر باضابطہ اسرائیلی حملہ ہوا تو آخرِکار غسان کے خاندان کو بھی جان بچا کر بھاگنا پڑا، وہ پہلے پہل لبنان کے تاریخی شہر صیدا میں مقیم ہوئے، وہاں سے غازیہ، حلب اور زبدانی سے ہوتے ہوئے پھر دمشق (شام) میں رہائش پذیر ہوئے۔ اس کے والد نے ہجرت سے ذرا ہی پہلے اپنی زندگی بھر کی بچت فلسطین میں نئے گھر کی تعمیر میں لگا دی تھی (جس کی تکمیل سے پہلے ہی انھیں وہاں سے نکلنا پڑا)۔ چنانچہ جب وہ دمشق پہنچے تو چند صلاحیتوں، کچھ احساس شکست، بے تحاشا غم اور معمولی سی نقدی کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔ غسان نے جو عرصہ خیمہ بستیوں میں اور اس کے بعد انتہائی فقر کے عالم میں گذارا وہ اسے کبھی نہیں بھولا۔ اس نے اپنے خاندان کی آمدنی میں اضافے کے لیے کم عمری میں ہی لفافے بنانے اور عدالتوں کے باہر عرضی نویسی سے لے کر ریڈیو کے پروگراموں، اخبار میں پروف ریڈنگ اور نیوز ایڈیٹنگ جیسے کئی کام شروع کر دیے تھے۔ صحافت کا پیشہ تو اسے بہت راس آیا، چنانچہ آئندہ زندگی میں اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح صحافت سے ہمیشہ جڑا رہا۔
1952ء میں جب اسے سکول سے فراغت کا سرٹیفیکٹ ملا تو وہ فلسطینی مہاجرین کی خیمہ بستیوں میں واقع اقوامِ متحدہ کے ایک سکول میں ڈرائنگ ماسٹر کے طور پر بھرتی ہو گیا۔ یہیں پر اس نے سہمے ہوئے دربدر فلسطینی بچوں کی زندگی کو کسی قدر آسان کرنے کے لیے انھیں باقاعدگی سے اپنی گھڑی ہوئی کہانیاں سنانا شروع کیا۔ کہتے ہیں کہ اس کے سکول میں تقریباً 1200 طالب علم پڑھتے تھے اور اس کے فیض تعلیم کا اثر یہ تھا کہ ان میں سے ستر فیصد طالب علموں نے بڑے ہو کر مزاحمت کے راستے کو اختیار کیا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب اس کی ملاقات عرب قوم پرستی کے فلسفے کے اولین بنیاد کاروں میں سے ایک ’’جارج حبش‘‘ سے ہوئی اور اس کے افکار سے متاثر ہو کر غسان نے اس کی جماعت ’’حرکۃ القومیین العرب‘‘ )موومنٹ آف دا عرب نیشنلسٹس (MAN میں شمولیت اختیار کر لی۔ انھی دنوں اس نے دمشق یونیورسٹی کے شعبہ عربی ادب میں داخلہ لیا اور ’’العرق والدیانۃ فی الأدب الصہیونی‘‘ (صہیونی ادب میں نسل پرستی اور مذہبیت کا مطالعہ) کے عنوان پر مقالہ لکھ کر اپنی ڈگری مکمل کی۔1956ء میں وہ ایک سرکاری سکول میں مصوری کے استاد کے طور پر بھرتی ہوکر کویت چلا گیا، جہاں اس کی بہن فائزہ اور ایک بھائی پہلے سے رہائش پذیر تھے۔ غسان اپنی بہن فائزہ سے بہت محبت کرتا تھا اور ہمیشہ اپنی کامیابیوں میں اس کی ہمت افزائی کو اہم قرار دیتا تھا۔ 1957ء میں جب غسان نے پہلی بار ایک بین الاقوامی اخبار ’’الرائی‘‘ (رائے)کی ادارت سنبھالی تو اس کی عمر صرف21 برس تھی۔ 1960ء میں وہ بیروت آگیا اور M.
بحیثیت مزاحمت کار وہ ایک عجیب انقلابی تھا جس نے کبھی ایک گولی بھی نہیں چلائی، بلکہ اس کا اسلحہ اس کا قلم تھا اور اس کا میدانِ جنگ اس کے اخبار کا دفتر۔ شروع شروع میں وہ قوم پرست سیاست پر یقین رکھتا تھا، چنانچہ جمال عبد الناصر کے فلسفۂ متحدہ عرب قومیت میں اس نے خاصی کشش محسوس کی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کے خیالات کا ارتقا ہوتا گیا اور وہ عرب قومیت اور ناصرازم سے ہوتا ہوا پکا مارکسی لیننسٹ بن گیا۔ اس کے دوست اور سیاسی مرشد جارج حبش نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ’’الجبھۃ الشعبیۃ لتحریر فلسطین‘‘ )عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین(PFLP کا ڈول ڈالا تو اسے اس نئی تنظیم کا ترجمان اور سیکرٹری انفارمیشن مقرر کیا گیا۔ تبھی اس نے الہدف نامی روزنامہ اخبار کا اجرا کیا اور موت تک اس کا مدیرِ اعلیٰ رہا۔ غسان نے PFLPکے ترجمان کی حیثیت سے1968ء میں آسٹریلوی صحافی رچرڈ کارلٹن کوجو انٹرویو دیا اس کی چند منٹ کی ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے۔ انٹرویو اس کے شہرہ آفاق داستانی نوعیت کے دفتر میں دیا گیا تھا، دیواروں پر فلسطین کے بڑے سے نقشوں کے پہلو میں ماؤ، کارل مارکس، لینن اور ہوچی منھ کی تصویریں لگی ہوئی ہیں، نیچے جمال عبد الناصر کی ایک تصویر بھی ہے مگر سب سے بڑا پوسٹر چی گویرا کی تصویر کا ہے۔ جب انٹرویو کرنے والے نے پوچھا کہ آپ مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟ غسان نے پوچھا، کس کے ساتھ مذاکرات؟ رچرڈ کارلٹن نے کہا اسرائیل کے ساتھ، غسان بے ساختہ بولا: یعنی آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ گردن اب تلوار سے مکالمہ کرے؟
اس کی زندگی کے آخری برسوں میں اس کی سیاسی سرگرمیاں بڑھ گئی تھیں۔ اس کی تنظیم PFLPکے کارپرداز نئے نئے کمیونسٹوں والے نشہ انقلاب کی ترنگ میں اس نتیجے پر پہنچے کہ فلسطینی مزاحمت اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک پڑوس کے ملکوں میں مارکسزم کا راج قائم نہیں ہو جاتا، اس لیے انھوں نے پڑوسی عرب حکومتوں (بالخصوص اردن کے شاہ حسین کی حکومت) کو ری ایکشنری اور سامراجی اتحادی قرار دے کر ان کے خلاف مسلّح جدّوجہد شروع کر دی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عالم عرب میں فلسطینی مزاحمت کے ہمدرد کم اور مخالف زیادہ ہونے لگے۔ اپنے موقف کی وضاحت اور اسے عرب و غیر عرب سامعین کے لیے معقول بنانے کا سارا بوجھ اکیلے غسان کے کاندھوں پر آ پڑا تھا۔ چنانچہ آخری تین برسوں میں وہ کچھ زیادہ ادبی تخلیقات مرتب طور پر شائع نہیں کرا سکا۔
غسان کی زندگی کا ایک بہت دلچسپ پہلو شامی ادیبہ غادۃ السمان کے ساتھ اس کا افلاطونی قسم کا شدید والہانہ عشق ہے۔ غسان اس وقت کینیڈین نژاد خاتون این (Anne)کے ساتھ شادی کے بندھن میں بیروت میں قیام پذیر تھا اور غادۃ لندن میں مقیم تھی، غسان نے غادۃ کے نام جو خطوط لکھے ان کا مجموعہ 1992ء میں شائع ہوا، وہ ایک الگ ہی دنیا ہے۔ روشنیوں کا شہر اور مشرقِ وسطیٰ کا قلب، بیروت، غسان کا پسندیدہ شہر تھا۔ غسان نے اپنی باقی ماندہ زندگی (زیرِ زمین روپوشی اور چند بیرونی دوروں کے سوا) اسی شہر میں گزاری اور یہیں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے قاتلانہ حملے میں اس نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی۔ لمیس اس کی پسندیدہ بھانجی تھی، وہ ہر برس اس کی سالگرہ پر بطور خاص اس کے لیے اس کی عمر کے مطابق کہانیاں لکھ کر تحفے کے طور پر پیش کرتا تھا۔ اس کے قتل کے روز لمیس اس کے ساتھ تھی اور پھر وہ دونوں اگلی دنیا کے سفر پر بھی ساتھ ساتھ ہی چلے گئے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے ساتھ کے لیے میں وہ اور اس
پڑھیں:
حکومت نے بجلی کے بے زبان صارفین سے ود ہولڈنگ اور جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں 490 ارب روپے جمع کرلئے
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت نے مالی سال 2024-25کے دوران بجلی کے بلوں کے ذریعے بے زبان صارفین سے وِد ہولڈنگ ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں 490 ارب روپے جمع کیے، جبکہ گزشتہ مالی سال میں یہ وصولی 600 ارب روپے تھی، یعنی 110 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی۔ اس کمی کی ممکنہ وجوہات میں گھریلو صارفین کا سولر سسٹمز کی طرف جھکاؤ اور صنعتی شعبے کی کمزور کارکردگی شامل ہے۔ایف بی آر کے عبوری اعداد و شمار کے مطابق تنخواہ دار طبقے نے مالی سال 2024-25 میں 552 ارب روپے ٹیکس ادا کیا، جو پچھلے سال کی 367 ارب روپے کی ادائیگی سے 185 ارب روپے زیادہ ہے۔اقتصادی جائزہ کے مطابق جولائی تا مارچ 2025 کے دوران ملک میں بجلی کی مجموعی کھپت 3.6 فیصد کم ہو کر 80,111 گیگا واٹ آور رہی، جبکہ پچھلے سال اسی عرصے میں یہ 83,109 گیگا واٹ آور تھی۔ بجلی کی کم کھپت کی وجوہات میں توانائی بچت اقدامات، مہنگی بجلی، آف گرِڈ سولر حل، اور صنعتی سرگرمیوں میں کمی شامل ہے۔گھریلو شعبے کا بجلی میں حصہ بڑھ کر 49.6 فیصد (39,728 GWh) ہو گیا، جو پچھلے سال 47.3 فیصد (39,286 GWh) تھا، جبکہ صنعتی شعبے کی کھپت 28,830 GWh سے کم ہو کر 21,082 GWh ہو گئی۔ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے ایف بی آر نے پراپرٹی کی خرید و فروخت پر 235 ارب روپے ٹیکس حاصل کیا، جن میں 236C سے 118 ارب اور 236K سے 117 ارب روپے شامل ہیں۔
Post Views: 2