Express News:
2025-11-04@05:26:21 GMT

غسان کنفانی، عربی زبان کا عظیم کہانی کار

اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT

8 جولائی1972ء کی صبح وہ اپنی سترہ برس کی بھانجی لمیس نجم کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھا، جیسے ہی اس نے کار سٹارٹ کی ایک زوردار دھماکہ ہوا، موساد کا فٹ کیا ہوا پلاسٹک بم پھٹا اور عربی زبان کا عظیم کہانی کار، صحافی، قائد، مزاحمت کار، مصور اور عاشق غسان کنفانی اپنی بھانجی کے ہمراہ ایک پرشور انداز میں اپنی ہی دھج کے ساتھ جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔ اگر آج وہ زندہ ہوتا تو 81 برس کا ہوتا۔ مگر کیا وہ واقعتاً مر ہی گیا؟ آئیے ذرا دیکھتے ہیں۔

غسان فائز کنفانی8 اپریل1936ء کو فلسطین کے شہر عکّا میں ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کے والد فائز عبدالرزاق کنفانی ایک وکیل تھے۔ فائز شروع سے ہی سیاسی طور پر متحرک شخص تھے اور انھیں با قاعدگی سے ڈائری لکھنے کی عادت تھی۔ وہ کبھی کبھی سارے گھر والوں کو اکٹھا کر کے اپنی زندگی کے اہم واقعات کی روداد اس ڈائری میں سے پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کی جدّوجہد اور لفظ کی تاثیر کے حوالے سے غسان کی ابتدائی تربیت اس طرح ہوئی۔ اس کی عمر 12 برس تھی جب اسرائیل کا قیام ہوا اور بپھرے ہوئے یہودی قابضین نے اردگرد کی عرب آبادیوں پر حملے کر کے پہلے ہی روز اپنی توسیعی کارروائیاں شروع کر دیں۔ فلسطینی اسرائیل کے قیام کو ’’النکبہ‘‘ (رسوائی)کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ کئی دہائیوں کے بعد اس نے اپنے بیٹے کے نام لکھے ہوئے خط میں ان دنوں کو بہت یاد کیا۔ اس کے الفاظ میں: ’’میں رسوائی کو اپنے دل کے اندر اترتے ہوئے محسوس کرتا تھا، ہر روز میراکوئی نہ کوئی جاننے والااپنے ہتھیار ان قابضین کے حوالے کر کے ان سے اپنی جان کی امان حاصل کر کے فلسطین سے فرار اختیار کرتا اور مجھے لگتا جیسے میری عزّت کی ایک اور دھجی بکھر گئی ہے۔‘‘

جب اپریل 1948ء میں عکّا پر باضابطہ اسرائیلی حملہ ہوا تو آخرِکار غسان کے خاندان کو بھی جان بچا کر بھاگنا پڑا، وہ پہلے پہل لبنان کے تاریخی شہر صیدا میں مقیم ہوئے، وہاں سے غازیہ، حلب اور زبدانی سے ہوتے ہوئے پھر دمشق (شام) میں رہائش پذیر ہوئے۔ اس کے والد نے ہجرت سے ذرا ہی پہلے اپنی زندگی بھر کی بچت فلسطین میں نئے گھر کی تعمیر میں لگا دی تھی (جس کی تکمیل سے پہلے ہی انھیں وہاں سے نکلنا پڑا)۔ چنانچہ جب وہ دمشق پہنچے تو چند صلاحیتوں، کچھ احساس شکست، بے تحاشا غم اور معمولی سی نقدی کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔ غسان نے جو عرصہ خیمہ بستیوں میں اور اس کے بعد انتہائی فقر کے عالم میں گذارا وہ اسے کبھی نہیں بھولا۔ اس نے اپنے خاندان کی آمدنی میں اضافے کے لیے کم عمری میں ہی لفافے بنانے اور عدالتوں کے باہر عرضی نویسی سے لے کر ریڈیو کے پروگراموں، اخبار میں پروف ریڈنگ اور نیوز ایڈیٹنگ جیسے کئی کام شروع کر دیے تھے۔ صحافت کا پیشہ تو اسے بہت راس آیا، چنانچہ آئندہ زندگی میں اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح صحافت سے ہمیشہ جڑا رہا۔

1952ء میں جب اسے سکول سے فراغت کا سرٹیفیکٹ ملا تو وہ فلسطینی مہاجرین کی خیمہ بستیوں میں واقع اقوامِ متحدہ کے ایک سکول میں ڈرائنگ ماسٹر کے طور پر بھرتی ہو گیا۔ یہیں پر اس نے سہمے ہوئے دربدر فلسطینی بچوں کی زندگی کو کسی قدر آسان کرنے کے لیے انھیں باقاعدگی سے اپنی گھڑی ہوئی کہانیاں سنانا شروع کیا۔ کہتے ہیں کہ اس کے سکول میں تقریباً 1200 طالب علم پڑھتے تھے اور اس کے فیض تعلیم کا اثر یہ تھا کہ ان میں سے ستر فیصد طالب علموں نے بڑے ہو کر مزاحمت کے راستے کو اختیار کیا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب اس کی ملاقات عرب قوم پرستی کے فلسفے کے اولین بنیاد کاروں میں سے ایک ’’جارج حبش‘‘ سے ہوئی اور اس کے افکار سے متاثر ہو کر غسان نے اس کی جماعت ’’حرکۃ القومیین العرب‘‘ )موومنٹ آف دا عرب نیشنلسٹس (MAN میں شمولیت اختیار کر لی۔ انھی دنوں اس نے دمشق یونیورسٹی کے شعبہ عربی ادب میں داخلہ لیا اور ’’العرق والدیانۃ فی الأدب الصہیونی‘‘ (صہیونی ادب میں نسل پرستی اور مذہبیت کا مطالعہ) کے عنوان پر مقالہ لکھ کر اپنی ڈگری مکمل کی۔1956ء میں وہ ایک سرکاری سکول میں مصوری کے استاد کے طور پر بھرتی ہوکر کویت چلا گیا، جہاں اس کی بہن فائزہ اور ایک بھائی پہلے سے رہائش پذیر تھے۔ غسان اپنی بہن فائزہ سے بہت محبت کرتا تھا اور ہمیشہ اپنی کامیابیوں میں اس کی ہمت افزائی کو اہم قرار دیتا تھا۔ 1957ء میں جب غسان نے پہلی بار ایک بین الاقوامی اخبار ’’الرائی‘‘ (رائے)کی ادارت سنبھالی تو اس کی عمر صرف21 برس تھی۔ 1960ء میں وہ بیروت آگیا اور M.

A.Nکے ترجمان ہفت روزہ ’’الحرّیۃ‘‘ (آزادی) کی ادبی ادارت کے فرائض سنبھال لیے۔ 1963ء میں وہ ’’المحرّر‘‘ کا مدیرِ اعلیٰ بن گیا۔ وہ مختلف اوقات میں ’’الانوار‘‘ اور ’’الحوادث‘‘ کی ادارت اور کالم نگاری کے فرائض بھی سر انجام دیتا رہا۔

بحیثیت مزاحمت کار وہ ایک عجیب انقلابی تھا جس نے کبھی ایک گولی بھی نہیں چلائی، بلکہ اس کا اسلحہ اس کا قلم تھا اور اس کا میدانِ جنگ اس کے اخبار کا دفتر۔ شروع شروع میں وہ قوم پرست سیاست پر یقین رکھتا تھا، چنانچہ جمال عبد الناصر کے فلسفۂ متحدہ عرب قومیت میں اس نے خاصی کشش محسوس کی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کے خیالات کا ارتقا ہوتا گیا اور وہ عرب قومیت اور ناصرازم سے ہوتا ہوا پکا مارکسی لیننسٹ بن گیا۔ اس کے دوست اور سیاسی مرشد جارج حبش نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ’’الجبھۃ الشعبیۃ لتحریر فلسطین‘‘ )عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین(PFLP کا ڈول ڈالا تو اسے اس نئی تنظیم کا ترجمان اور سیکرٹری انفارمیشن مقرر کیا گیا۔ تبھی اس نے الہدف نامی روزنامہ اخبار کا اجرا کیا اور موت تک اس کا مدیرِ اعلیٰ رہا۔ غسان نے PFLPکے ترجمان کی حیثیت سے1968ء میں آسٹریلوی صحافی رچرڈ کارلٹن کوجو انٹرویو دیا اس کی چند منٹ کی ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے۔ انٹرویو اس کے شہرہ آفاق داستانی نوعیت کے دفتر میں دیا گیا تھا، دیواروں پر فلسطین کے بڑے سے نقشوں کے پہلو میں ماؤ، کارل مارکس، لینن اور ہوچی منھ کی تصویریں لگی ہوئی ہیں، نیچے جمال عبد الناصر کی ایک تصویر بھی ہے مگر سب سے بڑا پوسٹر چی گویرا کی تصویر کا ہے۔ جب انٹرویو کرنے والے نے پوچھا کہ آپ مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟ غسان نے پوچھا، کس کے ساتھ مذاکرات؟ رچرڈ کارلٹن نے کہا اسرائیل کے ساتھ، غسان بے ساختہ بولا: یعنی آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ گردن اب تلوار سے مکالمہ کرے؟

اس کی زندگی کے آخری برسوں میں اس کی سیاسی سرگرمیاں بڑھ گئی تھیں۔ اس کی تنظیم PFLPکے کارپرداز نئے نئے کمیونسٹوں والے نشہ انقلاب کی ترنگ میں اس نتیجے پر پہنچے کہ فلسطینی مزاحمت اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک پڑوس کے ملکوں میں مارکسزم کا راج قائم نہیں ہو جاتا، اس لیے انھوں نے پڑوسی عرب حکومتوں (بالخصوص اردن کے شاہ حسین کی حکومت) کو ری ایکشنری اور سامراجی اتحادی قرار دے کر ان کے خلاف مسلّح جدّوجہد شروع کر دی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عالم عرب میں فلسطینی مزاحمت کے ہمدرد کم اور مخالف زیادہ ہونے لگے۔ اپنے موقف کی وضاحت اور اسے عرب و غیر عرب سامعین کے لیے معقول بنانے کا سارا بوجھ اکیلے غسان کے کاندھوں پر آ پڑا تھا۔ چنانچہ آخری تین برسوں میں وہ کچھ زیادہ ادبی تخلیقات مرتب طور پر شائع نہیں کرا سکا۔

غسان کی زندگی کا ایک بہت دلچسپ پہلو شامی ادیبہ غادۃ السمان کے ساتھ اس کا افلاطونی قسم کا شدید والہانہ عشق ہے۔ غسان اس وقت کینیڈین نژاد خاتون این (Anne)کے ساتھ شادی کے بندھن میں بیروت میں قیام پذیر تھا اور غادۃ لندن میں مقیم تھی، غسان نے غادۃ کے نام جو خطوط لکھے ان کا مجموعہ 1992ء میں شائع ہوا، وہ ایک الگ ہی دنیا ہے۔ روشنیوں کا شہر اور مشرقِ وسطیٰ کا قلب، بیروت، غسان کا پسندیدہ شہر تھا۔ غسان نے اپنی باقی ماندہ زندگی (زیرِ زمین روپوشی اور چند بیرونی دوروں کے سوا) اسی شہر میں گزاری اور یہیں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے قاتلانہ حملے میں اس نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی۔ لمیس اس کی پسندیدہ بھانجی تھی، وہ ہر برس اس کی سالگرہ پر بطور خاص اس کے لیے اس کی عمر کے مطابق کہانیاں لکھ کر تحفے کے طور پر پیش کرتا تھا۔ اس کے قتل کے روز لمیس اس کے ساتھ تھی اور پھر وہ دونوں اگلی دنیا کے سفر پر بھی ساتھ ساتھ ہی چلے گئے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے ساتھ کے لیے میں وہ اور اس

پڑھیں:

ڈپریشن یا کچھ اور

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جوکسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے مراد ہے کہ اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس اور بے زار رہتے ہیں یا گھبراہٹ، بے بسی، بے چینی آپ پر سوار ہے تو آپ ڈپریشن کا شکار ہیں۔

ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جس کا تعلق ہمارے مسائل سے لے کر ہماری صحت سے جڑا ہے۔ اس کے مریض معمولی سے مسائل کو بھی بڑے اورخوفناک تصور کرتے ہیں یا انھیں ایسا مایوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک عام سا مسئلہ اس قدر عظیم اور مشکل ہے جو ان کے لیے مشکلات کھڑی کر رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ بے چین، مضطرب، مایوس اور بے زار رہتے ہیں۔

ان کے ہاتھ پیر سرد ہو جاتے ہیں، ٹھنڈے پسینے آتے ہیں،گھٹن کا احساس ہوتا ہے، چہرہ اتر جاتا ہے اور یہی کیفیات مختصر اور طویل دورانیے کے بعد حقیقتاً انھیں بڑی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں جیسے دل کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ وغیرہ۔ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سی ادویات جو بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

ڈپریشن میں اضافے کا باعث بنتی ہیں لیکن اس کی بڑی اور اہم وجہ افسردگی و دکھ کو قرار دیا جاتا ہے، اگرکوئی شخص کسی صدمے میں مبتلا ہو اور اس کا صدمہ جو جذباتی، جنسی یا جسمانی زیادتی کے باعث دماغ پر نقصان دہ اثرات مرتب کرگیا تو یہ صدمہ ’’ ٹراما‘‘ کہلاتا ہے، یہ ٹراما بہت مہلک بھی ثابت ہوتا ہے کہ مریض ایک مدت تک اپنے دکھ غم میں مگن رہتا ہے، وہ باہر کی دنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے اور یہ ڈپریشن اس کی صحت کے لیے مہلک اثرات مرتب کرتا ہے۔

اسی سے جڑے ایسے ٹراما ابھرکر آتے ہیں جو انسان کی زندگی کے ان واقعات سے منسوب ہوتے ہیں جو ان کی زندگی میں اچانک ہوتے ہیں جیسے کسی عزیزکی موت، نوکری کا چلے جانا، انتہائی بے عزتی اورگھر یا اس سے جڑے حالات و واقعات وغیرہ۔ ایسے ڈپریشن انتہائی نوعیت کے بھی ثابت ہو سکتے ہیں جس میں انسان اپنے اضطراب، بے زاری، لاچاری اور کسی ردعمل کو انجام نہ دینے کی صورت میں اپنی جان دے کر اس ردعمل کو شو کرنا چاہتا ہے۔

دراصل وہ اس کے ڈپریشن اور مایوسی کی انتہا ہوتی ہے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر جتنا بھی لکھا اورکہا گیا ہے، سب آگے پیچھے ایک جیسی ہی باتیں، نشانیاں اور علاج سے منسلک ہوتے ہیں لیکن اس سے بہت سے لوگ فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے، راستے کا پتھر ہٹانے جیسے کاموں کو انجام دینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر ’’ جی ڈپریشن کے باعث اپنی جان لے لی‘‘ اور قصہ ختم۔

انسانی زندگی ایسے حالات اور واقعات سے بھری ہوئی ہے جن کو نشیب و فراز کا نام دے کر اسے جھیلنا ہی دراصل اس کی نشانی ہے۔

ورنہ کیا ایسا ہی ہے کہ دنیا میں آئے والدین جن کی زندگی میں کوئی مسئلہ یا ڈپریشن نہیں؟ پالا پوسا اور کامیابی سے تعلیمی اور دیگر مراحل عبورکرتے عملی زندگی میں داخل ہوئے اور کامیابیوں کی سیڑھیاں پھلانگتے گئے۔

کہا جاتا ہے کہ وقت کندن بنا دیتا ہے جب کندن بننا ہی نہیں تو ڈپریشن کیسا اور اگر کندن بننا ہے تو ڈپریشن سے لڑنا تو پڑے گا، ہر کامیاب انسان اپنی زندگی میں ڈپریشن میں ضرورگھرتا ہے چاہے وہ قلیل مدتی ہو یا طویل مدتی، جسے زندگی کا نشیب بھی کہا جا سکتا ہے۔

پھر بھی اگر یہ مرض انسان کے ہاتھ سے نکلتا خودکشی جیسے اختتام کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہو، تو آج کل خودکشی سے متعلق آگاہی اور روک تھام کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں خاص کر زیرو سوسائیڈ الائنس مفت آن لائن تربیت فراہم کرتا ہے۔

یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے پیاروں کے لیے فکر مند ہیں اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔مغربی ممالک میں ہمارے مشرقی اقدار کے برخلاف تنہائی سب سے بڑا عذاب ہے جو بچوں سے لے کر بوڑھوں تک میں ڈپریشن کی آخری حد تک شکار کرتا ہے لیکن اب ہمارے یہاں بھی یہ مرض تنہائی سے بڑھ کر ہجوم میں رہنے والوں کے لیے بھی عجیب پراسرار سے مسائل لے کر ابھر رہا ہے، جسے ’’ ڈپریشن‘‘ ہی کہا جا رہا ہے۔

حال ہی میں اسلام آباد کے ایک انتہائی قابل نوجوان پولیس کے افسر عدیل اکبر کے حادثے نے بھی ڈپریشن کے مسئلے پر سرخ نشان لگایا ہے۔ یہ افسر جو برائٹ اسکالر شپ پر امریکا جانے والا تھا، آخرکس قسم کے ڈپریشن کا شکار تھا، جو اس نے زیرو پوائنٹ پر جا کر اپنی زندگی ختم کر ڈالی؟

دوسروں پر پستول تاننا اور اپنے اوپر حملہ کرنا، بہت اذیت ناک ہے لیکن لمحہ بھر میں زندگی کی آخر وہ کون سی جھنجھٹیں تھیں جن سے چھٹکارے کے لیے عدیل اکبر نے نجات پا لی۔ کیا واقعی ان کی موت سے وہ سارے مسائل، دشواریاں ختم ہوگئیں، جو اس جوان کے زندہ رہنے پر آکاس بیل بن کر اس کے وجود سے چمٹتی کہیں اور کیا رخ کرتیں۔

سول ملازمین کے لیے ان کی ڈیوٹیاں، اختیارات جہاں قابل احترام بظاہر بڑے ٹھسے کے لگتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ بہت سے نرم خو اور رحم دل لوگوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہوں؟ بیوروکریسی ایک خواب ناک سفر ہے پر اس کی راہ میں کیا کچھ ہے، یہ ہم جیسے عام لوگ کیا جانیں، ہمیں تو فیصلے کرنے والے نظر آتے ہیں، کیا ان کے اعصاب بھی ایسے ہی لوہے کی مانند ہوتے ہیں جیسے کہ وہ نظر آنا چاہتے ہیں، پر حقیقت کی دنیا اس سے بہت مختلف ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کے لیے نفسیاتی طور پر فٹ رہنا ان کی کونسلنگ کرنا اور دیگر جسے ہم پاگلوں کا ڈاکٹرکہہ کر مزاحا ٹیگ لگا دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں انسانی جسم کا سردار اس کا دماغ جسے اعصاب کو کنٹرول کرنے کا عہدہ حاصل ہے، اس کی نگرانی، صحت و نگہداشت کس قدر اہم ہے بہت توجہ دی جاتی ہے۔

اعلیٰ عہدوں پر لوگ دماغی طور پر اس قدر مضبوط بنا دیے جاتے ہیں کہ وہ بڑے حادثات اور مواقعے پر اپنے جذبات کو کنٹرول کرتے کمیونٹی کے لیے فیصلے لیں۔عدیل اکبر سے پہلے بھی سول سروس کے کئی اور افسران بھی اسی طرح ڈپریشن میں اپنی جان گنوا چکے ہیں، زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کنٹونمنٹ بورڈ کے بلال پاشا بھی اپنے آپ کو گولی مار چکے ہیں، اس سے پہلے لاہور میں ریونیو کے عمران رضا عباسی، ایس پی ابرار حسین کے علاوہ اور بھی افسران اس فہرست میں نظر آ رہے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے معزز مقام پر پہنچ کر ایسی بے بسی اور مایوسی بھری موت کوئی اپنے لیے چنتا ہے توکیوں؟ وہ کیا حقائق ہیں جن کی بنیاد پر ہمارے ملک کے قیمتی لوگوں نے اپنے لیے ایسی موت منتخب کی جس کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

ہم فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں، دانت کھول کر، آنکھیں پھاڑکر پرتجسس اور خوفناک اب کیا ہوگا،کوئی غیر ملکی یا غیر مرئی ہاتھ ایک کے بعد ایک کس طرح لوگوں کو اپنی عفریت کا نشانہ بناتا ہے، آخر ایسا کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟

آنکھیں اختتام تک حیرت سے کھلی رہتی ہیں،کبھی کبھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کی اس پرجوش اور تلخ فلم میں پبلک کو ایسا ہی دیکھنے کو مل رہا ہے،کیا واقعی۔۔۔۔ یا نہیں؟ سوالات تو سر اٹھاتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • یومِ اقبال: 9 نومبر کوکوئی اضافی تعطیل نہیں ہوگی
  •  مصر : عظیم الشان عجائب گھر کا افتتاح
  • گوادر کے قریب معدومیت کے خطرے سے دوچار عربی وہیل کا حیران کن نظارہ
  • مصر کے عظیم الشان عجائب خانے نے دنیا کیلئے اپنے دروازے کھول دیے
  • نئی ٹی وی سیریز ’رابن ہڈ‘ : تاریخی حقیقت اور ذاتی پہلو کے امتزاج کے ساتھ پیش
  • ایران اپنی جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرے گا: صدر مسعود پزشکیان
  • PTCLانتظامیہ اور CBAیونین کی ڈیمانڈ پر دستخط کی تقریب
  • زباں فہمی267 ; عربی اسمائے معرفہ اور ہمارے ذرایع ابلاغ
  • ڈپریشن یا کچھ اور
  • رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر