پاکستانی نوجوان کی محبت میں مبتلا امریکی خاتون اچانک کہاں غائب ہو گئی؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
2 ماہ سے کراچی میں موجود امریکی خاتون اونیجا اینڈریو رابنسن توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ اونیجا 19 سالہ پاکستانی نوجوان ندال کی محبت میں مبتلا ہیں اور ان سے شادی کے لیے پاکستان آئی ہیں۔ پاکستان پہنچنے کے بعد ندال نے ان سے شادی کرنے سے انکار کیا تو اونیجا نے واپس جانے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد وہ آگے اور کراچی پولیس ان کے تحفظ کے لیے ان کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پولیس نے اونیجا اینڈریو رابنسن کو طبی، نفسیاتی امداد اور ان کی ملک بدری کے عمل میں تیزی لانے کے لیے وفاقی حکومت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیےامریکی خاتون سے شادی کرنے کے لیے مرد تیار، بڑی آفریں بھی کردیں
ڈی آئی جی ساؤتھ سید اسد رضا کے مطابق ساؤتھ پولیس نے کراچی کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس کو خط لکھا ہے کہ وہ امریکی خاتون کے علاج اور ملک بدری کے بارے میں وفاقی حکومت سے رہنمائی کے لیے حکومت سندھ سے رجوع کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت غیر ملکی خاتون کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے نفسیاتی وارڈ میں داخل کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیےپاکستان نوجوان کی محبت میں گرفتار امریکی خاتون وطن واپس جانے پر رضامند
خط کے مطابق امریکی خاتون 11 اکتوبر 2024 کو کراچی پہنچی تھیں۔ وہ اپنے آن لائن بننے والے دوست سے ملنے پاکستان آئی تھی جب کہ وہ نوجوان اُس وقت سے منظر سے غائب ہے۔ کراچی آنے کے بعد سے، خاتون شہر میں ادھر ادھر گھوم رہی ہے جس سے اس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔
خط میں لکھا گیا کہ ان حالات کے پیش نظر پولیس کے سربراہ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ متعلقہ حلقوں سے رجوع کریں تاکہ خاتون کو طبی امداد فراہم کرنےکے حوالے سے رہنمائی حاصل کی جا سکے اور خاتون کو وطن واپس بھیجنے کا عمل شروع کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیے’ہمارے ٹیلنٹڈ لڑکے نے امریکی خاتون کو فٹ پاتھ پر لاکر بٹھا دیا‘، کامران ٹیسوری کی ویڈیو وائرل
اسپتال ذرائع کے مطابق خاتون کی رپورٹ میں ہیموگلوبن کی سطح کم آئی ہے۔ ڈاکٹرز نے خاتون کا بلڈ ٹرانسفیوژن تجویز کیا ہے۔ امریکی خاتون کچھ معاملات میں تعاون کرتی ہیں اور کچھ میں نہیں۔ میڈیکل ہسٹری دستیاب نہ ہونے کے باعث مرض کی فوری تشخیص ممکن نہیں ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خاتون کے ساتھ ممکنہ نفسیاتی مسائل بھی لگ رہے ہیں۔ ان کے مزید ٹیسٹ کیے جائیں گے۔ لیپیڈ پروفائل، ایچ آئی وی پروفائل اور ہیپاٹائٹس پروفائل کے ٹیسٹ بھی کیے جائیں گے۔ تمام ٹیسٹوں کی بنیاد پر حتمی رپورٹ تیار کی جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اونیجا اینڈریو رابنسن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اونیجا اینڈریو رابنسن امریکی خاتون خاتون کو کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
رشتہ ایک سرد مہری کا
وہ کڑیل جوان اچانک پسینے سے شرابور، دل کی دھڑکن قابو سے باہر، گھر میں کہرام، بھاگم بھاگ اسپتال پہنچے۔ دوا دی گئی، کوئی اثر نہیں ہوا، دوسری دوا دی گئی۔ دھڑکن کچھ تھمی اور رگوں پر خون کا پریشر کچھ کم ہوا۔ لیکن یہ کیا، تھوڑی دیر بعد الٹیاں شروع ہوگئیں، تازہ تازہ خون سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ اور دواؤں کے پے در پے ادوار شاید زندگی پر چلنے والے کلہاڑے کے وار ثابت ہوئے۔
وہ کل جو اس وقت زندگی کے شور میں ہنس اور دوسروں کو ہنسا رہا تھا، آج سرد پڑا ہے۔ آنکھیں ٹنگی ہیں، ہر طرف خاموشی ہے۔ اس کا مردہ جسم شفا خانے میں رسمی کاروائی کا منتظر ہے۔ انسانی مشاہدات تو درکنار، ڈاکٹر یا نرس کے کہنے پر بھی اسپتال کے کاغذات اس بے جان جسم کو مردہ نہیں کہتے۔ دل کی بند دھڑکنوں کو مشینوں پر چیک کرکے روح کے نکل جانے کا اعلان باقی ہے۔ اس چیکنگ کی فیس اور لاکھوں کے تاوان ادا کرکے احساس کے قید خانے میں ضبط کی ہوئی لاش لے جائی جاسکتی ہے۔
کیا ہوا، کیوں ہوا، کیسے ہوا؟ کیا اس جوان کو بچایا جاسکتا تھا؟ معلومات اور خیالات کی زنجیر میں کیا کیا خلا ہیں۔ علم سے دانشمندی کی کشید میں کہاں کہاں آلودگی ہے، کہاں کہاں ملاوٹ ہے۔ اس سفر میں کہاں کہاں سیاہ دھبے ہیں، راستوں میں کہاں کہاں پر گھپ اندھیرا ہے۔ کہاں کہاں خندقیں بنائی گئی ہیں، کہاں کہاں گڑھے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پہلی دوا نے اثر نہیں کیا، کہیں دوا نے مہلک اثر تو نہیں کیا۔ راقم عہد وفا میں خاموش ہے۔
امریکا دنیا کا طاقتور ملک، سائنس کے افق پر حکومت کرنے والا ملک، جہاں سر توڑ کوشش کے باوجود سال 2024 میں 900 سے کم جنیرک ادویات استعمال کےلیے منظور ہوئیں۔ وہاں ادویات کے لیبل پر لکھے گئے وعدوں کی نگہبانی حکومت کے ادارے کرتے ہیں۔ دواؤں سے منسلک دعووں کو پرکھنے کےلیے ہزاروں پیشہ ور افراد مامور ہوتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ 2024 میں کسی آزاد وطن میں 15000 سے زائد جنیرک ادویات رجسٹرڈ کی گئیں۔ ان میں سے ایک بھی ترقی یافتہ ملک میں منظور نہیں ہوئیں۔ نہ ہی کسی نے منظوری کی درخواست جمع کرانے کی ہمت کی اور نہ ہی کسی دنیا کے ضامنوں نے اس قابل سمجھا کہ ان تک پہنچے۔
ترتیب پانے والی غیبی آواز سے بے اعتنائی کا حوصلہ نہیں۔ اس دشت کی سیاحی میں زندگی گزر گئی، اپنے مسقبل سے بے نیاز ہمارے خیالات میں جارحانہ پن حاوی رہا اور انصاف کی پیروی میں لوٹ مار کے خلاف ہمارے خواب صف آرا ہی رہے۔ ہر طرف خاموشی ہے، سناٹا ہے، گم صم ہیں۔ میسنے اور گھنے کا ہجوم ہے۔ سچ کہنے پر دشمنی پر اتر آتے ہیں، کردار کشی کرنے کےلیے محاذ بناتے ہیں۔ مجرے کراتے ہیں، پیسے لٹاتے ہیں، کوئی نہیں کہتا کہ ادویات اگر ناقص ہوں تو کسی کی روح ایسے نکلتی ہے جیسے سڑک پر آوارہ کتے کی لاش تڑپ رہی ہو اور گاڑیوں میں موسیقی کی دھن اور اپنی دھن میں مست رواں دواں۔ دواؤں کی اور جنیرک دواؤں کی بھرمار، مگر جان کی قیمت کون پوچھے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔