راولپنڈی تھانہ جاتلی کے علاقے نتھہ چھتر میں 21 سالہ یتیم لڑکی کو مبینہ زیادتی کے بعد  قتل کرکے لاش دفنانے  کے  معاملے میں مزید پیشرفت سامنے آئی ہے اور  پولیس نے ایک مزید ملزم کو گرفتار کرلیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق وجاہت نامی ملزم مزکورہ گھر جہاں لڑکی رہاہش پزیر تھی، وہاں گاڑی کھڑی کرنے کے لیے آیا، جایا کرتا تھا، ملزم کو آج عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ لیا جایے گا۔

مقتولہ کا بہنوئی ،اسکی ماں اور ہمشیرہ سمیت پڑوسی پہلے ہی گرفتار اور چار روزہ ریمانڈ پر پولیس کے پاس ہیں۔

گرفتار کیے گیے تیسرے مرد ملزم وجاہت کا ریمانڈ حاصل کرکے پولیس تینوں مرد ملزمان کو ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے فرانزک سائنس ایجنسی لے جائے گی، مقتولہ  کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے پوسٹمارٹم کےبعد ہی فرانزک سائنس ایجنسی میں پہنچا دیے گئے تھے۔ 

یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی؛ سالی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے بہنوئی اور دیگر ملزمان گرفتار

دونوں خواتین سمیت چاروں ملزمان سے تفتیش جاری ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس نے ملزمان سے لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنانے والا ڈنڈا ،اور بوتل یا برتن جس میں زہریلی گولیاں ملا کر پلائیں گیں برآمد کرنا ہے۔

تفتشیی پولیس آفیسرکا کہنا ہے کہ موبائل فونز بھی برآمد کرکے ان مین موجود پیغامات و تصاویر اگر ہیں تو انکا بھی فرانزک کرایا جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے راولپنڈی میں انسانیت کو شرما دینے والا افسوسناک واقعہ سامنے آیا تھا جہاں بہن کے گھر مقیم 21 سالہ یتیم کنواری لڑکی کو بہنوئی اور ایک دوسرا شخص مبینہ زیادتی کا نشانہ بناتا رہا، اہل خانہ بھی تشدد سے پیچھے نہ رہے حاملہ ہونے کا پتہ چلا تو مبینہ طور پر زہریلی گولیاں کھلا کر موٹ کے گھاٹ اتار دیا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق جرم چھپانے کے لیے موت کو طبی ظاہر کر کے نعش کو اچانک دفنا بھی دیا معاملہ سوشل میڈیا پر سامنے آنے پر سی پی او راولپنڈی خالد ہمدانی نے نوٹس لیا اور قبر کشائی کروا کے پوسٹمارٹم کرایا گیا تو لڑکی 8 ماہ کی حاملہ ثابت ہوئی تشدد کی بھی تصدیق ہوئی، پولیس نے بہنوئی گلفراز اور امین نامی ملزم سمیت دیگر ملوث ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

پولیس کے مطابق رواں ماہ 13 جنوری کو سوشل میڈیا پر واقعہ وائرل ہوا تو سی پی او راولپنڈی خالد ہمدانی نے نوٹس لیکر ایس پی صدر نبیل کھوکھر کو اپنی نگرانی میں چھان بین کی ہدایات کیں۔

پولیس ٹیم نے علاقے سے پوچھ گچھ کے بعد قانون کارروائی شروع کر کے عدالت سے قبر کشائی و پوسٹمارٹم کی اجازت لیکر پوسٹمارٹم کرایا تو لڑکی کے 8 ماہ سے حاملہ ہونے اور اس پر مبینہ تشدد کیے جانے کی تصدیق ہوئی جس پر تھانہ جاتلی نے پولیس مدعیت میں ہی ملزمان گلفراز عرف گلو، دوسرے ملزم امین، گلفراز کی والدہ اور ہمشیرہ کے خلاف قتل ، مبینہ زیادتی ، جرم کو چھپانے و شہادتوں کو ضائع کرنے سمیت تشدد وغیرہ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔

پولیس کی جانب سے ایف آئی آر میں ملزمہ گلزار بیگم کے مقتولہ کو زہر دینے کے انکشاف بھی شامل ہیں اسی طرح نتھہ چھتر کے رہائشی رستم علی وغیرہ دو بھائیوں کے انکشافات کو بھی ایف آئی آر کا حصہ بنایا گیا ہے جس میں وہ پولیس کو بتاتے ہیں کہ مقتولہ کی ہمشیرہ مسماتہ رافعہ جو اسی گھر میں بیاہی ہوئی ہے نے انھیں بتایا ہے کہ گلفراز عرف گلو ، مسماتہ گلزار بیگم اور مسماتہ انیلہ بی بی اکثر اوقات ہمشیرہ (مقتولہ) کو تشدد کا نشانہ بناتے رہتے۔

واقعہ سے قبل مقتولہ بہن نے اس کو بتایا کہ اس کے ساتھ گلفراز عرف گلو اور امین رفیق مبینہ زیادتی کرتے ہیں جس سے حمل ہوا اور 13 جنوری کو بچوں کو اسکول چھوڑ کر واپس آئی تو دیکھا مسماتہ گلزار بیگم اور مسماتہ انیلہ میری ہمشیرہ کو ڈنڈوں سے تشدد کر رہی تھیں اس دوران مقتولہ کی ہمیشرہ نے بتایا کہ انھوں نے گلفراز کے ساتھ مل کر زہریلی گولیاں پانی میں ملا کر پلا دی ہیں۔

پولیس حکام کا کہنا تھا کہ زہرخوانی کے متعلق حتمی تجزیے اور ڈی این اے کے نمونے فرانزک سائنس ایجنسی کو بیجھوا دیے گئے ہیں جبکہ ملزمان گلفراز عرف گلو اور امین رفیق اور دونوں خواتین ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس ٹیمیں چھاپے مارنے میں مصروف ہیں ملزمان کو جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مبینہ زیادتی کے بعد کے لیے

پڑھیں:

پولیس اسٹیٹ

سیلاب نے وسیب کے علاقے کو تباہ کردیا۔ احمد پور شرقیہ کا علاقہ بھی سیلاب کی تباہ کاریوں سے نہیں بچ سکا۔ عرفان بلوچ کی عمر 15 سال تھی۔ وہ احمد پور شرقیہ میں اپنے والدین کے ساتھ مل کر مزدوری کرتا تھا۔ جب سیلاب نے روزگار کے دروازے بند کیے تو عرفان اپنے تین دوستوں کے ساتھ بس میں سوار ہو کر کراچی چلا آیا۔ کراچی کے علاقے بفرزون کی بی آر سوسائٹی میں اس کے ایک چچا رہتے ہیں۔

عرفان بدھ 22 اکتوبر کو اپنے دوستوں ناصر اور سلیمان کے ساتھ ناشتہ کرنے عائشہ منزل گیا جہاں وہ اور اس کے دوست ٹک ٹاک بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ کراچی پولیس کے انویسٹی گیشن یونٹ کے اہلکار اس علاقے میں ’’ شکار‘‘ کی تلاش میں تھے۔ ان اہلکاروں کو یہ تینوں نوجوان شکار کی صورت میں نظر آگئے۔ پولیس اہلکاروں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کو استعمال کیا اور ان تینوں نوجوانوں کو زبردستی پولیس وین میں دھکیلا۔ ان کے موبائل فون چھین لیے گئے اور ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی گئیں اور کسی نامعلوم سیف ہاؤس میں انھیں منتقل کردیا گیا۔ پھر ان بے گناہ نوجوانوں پر تھرڈ ڈگری تشدد کا آغاز ہوا۔

پتہ نہیں یہ پولیس والے ان نوجوانوں سے کتنے ناکردہ جرائم کا اقرار کروانا چاہتے تھے مگر 15 سالہ عرفان پولیس کے بیہمانہ تشدد کو برداشت نہ کرسکا اور جان کی بازی ہار گیا۔ عرفان کے ایک ساتھی نے رپورٹر کو بتایا کہ اگرچہ عرفان زندگی کی بازی ہار چکا تھا مگر یہ پولیس والے لاش پر بھی تشدد کرتے رہے۔ پولیس والوں نے اپنی مرضی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کی، پولیس والے عرفان کی موت کو دل کا دورہ کی وجہ قرار دے رہے تھے مگر ڈاکٹر میں انسانیت موجود تھی لہٰذا پولیس والے اپنے مقصد میں ناکام رہے۔

پولیس سرجن نے مجسٹریٹ کی نگرانی میں پوسٹ مارٹم کرنے پر زور دیا اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عرفان کی موت بیہمانہ تشدد کی وجہ سے ہوئی ہے۔ عرفان کے چچا اور رشتے دار عرفان اور اس کے دوستوں کو تھانوں اور اسپتالوں میں تلاش کرتے رہے مگر کسی تھانے میں انھیں کوئی جواب نہ ملا۔ پولیس افسران نے 18 گھنٹوں بعد عرفان کے چچا کو تھانے بلایا اور عرفان کی موت کی اطلاع دی۔ پولیس افسران نے اس کے ساتھ عرفان کے دوستوں کی آنکھوں سے کالی پٹیاں اتار کر انھیں تھانے سے جانے کی اجازت دیدی۔ عرفان کے لواحقین نے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے سہراب گوٹھ کے قریب عرفان کی میت کے ساتھ احتجاج کیا۔

کچھ لمحہ بعد پولیس فورس فوراً موقع پر پہنچی اور ٹریفک کو متبادل راستوں پر منتقل کیا۔ عرفان کے لواحقین کئی گھنٹوں تک احتجاج کرتے رہے لیکن کوئی وزیر یا پولیس کا افسر ان کی داد رسی کے لیے نہیں آیا، صرف پولیس افسران نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور آخر پولیس حکام مجبور ہوئے کہ وہ کئی سپاہیوں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کریں۔

اس سے پہلے پولیس حکام نے اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کے لیے صدر تھانے میں ایک ایف آئی آر درج کی تھی جس میں اسلحہ کی برآمدگی کا دعویٰ کیا گیا تھا اور ممنوعہ مقامات کی وڈیو بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا مگر دیگر نوجوانوں کی رہائی سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ ایف آئی آر جھوٹی تھی۔ ناصر اور سلیمان نے بتایا کہ ہم تو عائشہ منزل کے پل کے نیچے ٹک ٹاک بنا رہے تھے، وہاں تو کوئی ممنوعہ مقام موجود نہیں۔

 سندھ کے وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر تشدد میں ملوث کئی سپاہی گرفتار ہوگئے ہیں اور اب یہ مقدمہ مزید تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کے سپرد کردیا گیا ہے ، یوں اب ایف آئی اے کے افسران کا امتحان کا وقت آگیا ہے۔ سپریم کورٹ کو تھانے میں عرفان کے قتل کا نوٹس لینا چاہیے۔ عدالت کی مداخلت سے ہی ان ملزمان کو قرار واقعی سزا مل سکتی ہے، مگر عرفان پہلا فرد نہیں ہے جو بے گناہ تھا اور پولیس کے تشدد سے جان سے گیا۔

 ایسے سیکڑوں افراد ہیں جو گزشتہ کئی برسوں میں پولیس کے تشدد کا شکار ہوئے۔ گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں میرپور خاص کے محکمہ صحت کے ڈاکٹر شاہنواز کو پولیس نے ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا۔ انھیں کراچی سے تھرپارکر لے جایا گیا جہاں ایک نام نہاد پولیس مقابلے میں ڈاکٹر شاہنواز کو قتل کردیا گیا۔ بعد میں ایک ہجوم نے ان کی میت کو نذرآتش کیا، اس مقدمے کا پوری دنیا میں چرچا ہوا۔ سندھ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس واقعے کا نوٹس لینا پڑا۔ ڈاکٹر شاہنواز کے قتل میں ڈی آئی جی کی سطح کے افسران شامل تھے۔

ان پولیس والوں کو گرفتار کیا گیا۔ یہ مقدمہ ابھی تک زیرِ سماعت ہے مگر اب مقدمہ میں ملوث پولیس افسران کو ان کے عہدوں پر بحال کردیا گیا ہے۔ 2018 میں عرفان جیسا ایک نوجوان نقیب اللہ محسود پولیس کے تشدد کا شکار ہوا۔ نقیب اللہ جس کا تعلق وزیرستان سے تھا سہراب گوٹھ کے علاقے میں مقیم تھا۔ اس علاقے میں پولیس کا اسپیشل یونٹ متحرک تھا۔ راؤ انوار اس یونٹ کی سربراہی کررہے تھے۔ یہ نوجوان بھی پولیس تشدد کے ہاتھوں زندگی کی جنگ ہار گیا۔ پولیس کے اسپیشل یونٹ نے اس وقت نقیب اللہ محسود کو طالبان دہشت گرد قرار دیا۔ مگر نقیب اللہ محسود کی برادری نے سپرہائی وے پر دھرنا دے دیا۔

یہ دھرنا کئی دن تک جاری رہا۔ پھر یہ دھرنا شمالی وزیرستان تک پھیل گیا۔ منظور پشتین نے اس دھرنے کی قیادت سنبھال لی۔ اس قتل کی تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ نقیب اللہ محسود ایک غریب شخص تھا جو شاید روزگار کے حصول کے لیے کراچی آیا تھا۔ اس مقدمے میں راؤ انوار سمیت کئی پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی۔ راؤ انوار اپنی گرفتاری قبل از وقت ضمانت کے لیے سپریم کورٹ تک گئے، بہرحال پولیس افسروں کے خلاف مقدمہ تو چلا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ بھی سرد پڑگیا۔

اسی واقعے کے خلاف احتجاجی تحریک کے دوران پختون تحفظ موومنٹ PTM قائم ہوئی۔ اس تحریک نے خیبر پختون خوا میں طالبان دہشت گردی کے خلاف عوام کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جرائم کی بیٹ پر کام کرنے والے ایک سینئر صحافی کہتے ہیں کہ ماورائے عدالت قتل کی مختلف قسمیں ہیں۔ ایک قسم تو یہ ہے کہ پولیس بے گناہ افراد کو پکڑتی ہے، ان پر تشدد کر کے ان کے لواحقین سے رقم حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس دوران پولیس بدترین تشدد اس لیے کرتی ہے کہ وہ کسی جرم کا اقرار کر لیں، یوں زبردستی اقرارِ جرم کرانے کی کوشش میں کمزور افراد جاں بحق ہوجاتے ہیں۔

پولیس ان افراد کا انکاؤنٹر کرتی ہے جو معروف مجرم سمجھے جاتے ہیں۔ پولیس والوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ عدالتوں سے انھیں سزا نہیں ہوسکتی، اس بناء پر پولیس کو خود ان افراد کو قتل کرنا چاہیے۔ یہ صورتحال پورے ملک کی ہے مگر گزشتہ ایک سال سے پنجاب میں یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہوچکی ہے۔

 انسانی حقوق کمیشن HRCP کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف اس سال کے 9 ماہ کے دوران پنجاب میں 500 سے زائد افراد پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس صورتحال پر سخت تشویش ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد، ڈینگی کے کیسز میں اضافہ ہونے لگا
  • کراچی میں ڈاکو راج، مزاحمت کرنے پر 18 سالہ نوجوان جاں بحق
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو افشا ہونے کے بعد اسرائیلی فوجی استغاثہ لاپتہ
  • سوڈان: آر ایس ایف نے 300 خواتین کو ہلاک، متعدد کیساتھ جنسی زیادتی کردی، سوڈانی وزیر کا دعویٰ
  • سرگودھا: 15 سالہ طالبہ سے 16 ماہ تک 5 ملزمان کی مبینہ زیادتی
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
  • فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا
  • بہاولپور، بچی سے زیادتی و قتل کا ملزم مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک
  • پولیس اسٹیٹ
  • شبر زیدی کے خلاف دو دن قبل درج ہونے والی ایف آئی آر ختم کیوں کرنا پڑی؟