امریکی ٹیکس اقدامات کو عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے تنازعات کے حل کے میکانزم میں پیش کر دیا ہے، چینی وزارت تجارت
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
امریکی ٹیکس اقدامات کو عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے تنازعات کے حل کے میکانزم میں پیش کر دیا ہے، چینی وزارت تجارت WhatsAppFacebookTwitter 0 4 February, 2025 سب نیوز
بیجنگ : چین کی وزارت تجارت کے ترجمان نے چین کی جانب سے WTO میں امریکی ٹیرف اقدامات کے خلاف کیس دائر کرنے پر صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا کہ امریکہ کی جانب سے چین سے درآمد ہونے والی مصنوعات پر ٹیرف لگانا WTO کے قواعد کی سنگین خلاف ورزی ہے اور یہ یکطرفہ پسندی اور تجارتی تحفظ پسندی کی ایک واضح مثال ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام قواعد پر مبنی کثیرالجہتی تجارتی نظام کو شدید نقصان پہنچاتا ہے، چین اور امریکہ کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون کی بنیاد کو تباہ کرتا ہے اور عالمی صنعتی چین اور سپلائی چین کے استحکام کو متاثر کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ نے بارہا یکطرفہ پسندی کو کثیرالجہتی پر ترجیح دی ہے، جس پر WTO کے اراکین کی جانب سے سخت مذمت بھی کی گئی ہے۔چین کی وزارت تجارت کے ترجمان نے کہا کہ چین امریکہ کے ان اقدامات کی سختی سے مخالفت کرتا ہے اور امریکہ پر زور دیتا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے غلط اقدامات کو درست کرے۔ انہوں نے کہا کہ چین کثیرالجہتی تجارتی نظام کا مستقل حامی اور اہم معاون ہے اور دیگر WTO اراکین کے ساتھ مل کر یکطرفہ پسندی اور تجارتی تحفظ پسندی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور بین الاقوامی تجارت میں منظم اور مستحکم ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے تیار ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔
بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔
صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔
طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔
ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔
یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔