عثمان خواجہ نے غزہ سے متعلق ٹوئٹ پر برطرف صحافی کی حمایت میں آواز اٹھادی
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
آسٹریلیا کے پاکستانی نژاد بلے باز عثمان خواجہ نے ایک ریڈیو اسٹیشن کی جانب سے کرکٹ صحافی پیٹر لالور کو سری لنکا کے خلاف جاری ٹیسٹ سیریز کے دوران اسرائیل فلسطین تنازع سے متعلق سوشل میڈیا پر بیان دینے پر کوریج سے ہٹانے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلیائی ریڈیو اسٹیشن ایس ای ین نے منگل کو تصدیق کی کہ اس نے آسٹریلوی اخبار کے سابق چیف کرکٹ لکھاری سے سوشل میڈیا پر دیے گئے کچھ بیانات کے بارے میں بات چیت کے بعد ان سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔
ایکس پر جاری صحافی کی پوسٹس میں غزہ میں اسرائیلی حملوں کے بارے میں تازہ ترین خبریں اور اسرائیلی حکومت پر نسل کشی کے الزامات ری شیئر کیے گئے۔
پاکستانی نژاد عثمان خواجہ اس سے قبل بھی فلسطینیوں کی حمایت میں آواز بلند کرتے رہے ہیں، انہوں نے انسٹاگرام پر جاری بیان میں لکھا کہ پیٹر لالور بہتر رویے کے مستحق ہیں۔
عثمان خواجہ نے کہا کہ غزہ کے لوگوں کے لیے کھڑا ہونا یہود مخالف ہونا نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی تعلق آسٹریلیا میں بسنے والے میرے یہودی بھائیوں اور بہنوں سے ہے، بلکہ اس کا تعلق صرف اسرائیلی حکومت اور ان کے مذموم اقدامات سے ہے۔
عثمان خواجہ نے کہا کہ یہود دشمنی اور اسلامو فوبیا دونوں حقیقی ہیں، دونوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور دونوں ہی اہم خدشات ہیں۔
ریڈیو کے لی بطور فری لانسر خدمات انجام دینے والے پیٹر لالور نے کہا کہ انھیں انتظامیہ نے بتایا کہ ان پر یہود دشمنی کے الزامات ہیں، میں نے ان الزامات پر اعتراض کیا۔
مجھے بتایا گیا کہ میری ریٹویٹ متوازن نہیں تھی اور ایک فریق کے لیے غیر حساس تھی اور بہت سے لوگوں نے شکایت کی تھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عثمان خواجہ
پڑھیں:
قابض انتظامیہ نے مزید 3 کشمیریوں کو سرکاری ملازتوں سے برطرف کر دیا
ذرائع کے مطابق سرکاری ملازمتوں سے برطرف کئے گئے کشمیریوں میں ایک پولیس کانسٹیبل، ایک سکول ٹیچر اور سرکاری میڈیکل کالج کا ایک جونیئر اسسٹنٹ شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں قابض انتظامیہ نے ایک پولیس کانسٹیبل سمیت تین مسلم سرکاری ملازمین کو آزادی پسند تنظیموں سے تعلق کا جواز بنا کر برطرف کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سرکاری ملازمتوں سے برطرف کئے گئے کشمیریوں میں ایک پولیس کانسٹیبل، ایک سکول ٹیچر اور سرکاری میڈیکل کالج کا ایک جونیئر اسسٹنٹ شامل ہیں۔ جنہیں قابض انتظامیہ نے "قومی سلامتی کے مفاد میں” برطرف کرنے کے بعد جیلوں میں قید کر دیا ہے۔ اگست 2019ء میں مودی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد سے قابض انتظامیہ نے 75 سے زائد کشمیری سرکاری ملازمین کو اسی طرح کے الزامات کے تحت برطرف کیا ہے۔ قابض حکام کے مطابق یہ کارروائی سرکاری اداروں میں آزادی پسند کشمیریوں اور ان کے ہمدردوں کے خلاف جاری کریک ڈان کا حصہ ہے۔ برطرف کے گئے ملازمین میں پولیس کانسٹیبل ملک اشفاق نصیر، محکمہ سکول ایجوکیشن کے ٹیچر اعجاز احمد اور گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر کے جونیئر اسسٹنٹ وسیم احمد خان شامل ہیں۔