Express News:
2025-04-25@11:29:10 GMT

امریکا میں لگی آگ

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

کسی بھی قدرتی آفت پر خوشی منانا انسانیت کے منافی ہے۔ سوشل میڈیا پہ کچھ اس طرح کا تاثر ملا کہ پاکستان میں کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ امریکا پر آئی حالیہ آفت اﷲ کا عذاب ہے اور کچھ لوگ اس پر خوش ہیں، لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ قدرتی آفات کہیں بھی آ سکتی ہیں اور کسی بھی انسان یا قوم کے لیے اس پر خوشی منانا نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ انسانیت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ یہ بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ آفات اور قدرتی حادثات ہمیشہ دکھ اور تباہی کا سبب بنتے ہیں جن کا سامنا انسان کو کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ کسی بھی قوم یا ملک کا ہو۔

لاس اینجلس کیلی فورنیا میں لگنے والی آگ نے بے شمار انسانوں کی جانیں لے لیں اور ہزاروں لوگوں کو بے گھرکر دیا۔ یہ آگ نہ صرف امیر طبقے کے لوگوں کے گھروں تک محدود رہی بلکہ غریبوں کے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایسے میں خوشی منانے کے بجائے ہمیں ان کے دکھ میں شریک ہونا چاہیے تھا۔ کسی بھی انسانی زندگی کا ضیاع چاہے وہ امریکا میں ہو یا پاکستان میں قابلِ افسوس ہے اور ہمیں اس پر خوشی نہیں منانی چاہیے۔

ہمیں انسانیت کے ناتے ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔یاد رہے کہ کشمیر میں 2005 میں آنے والا زلزلہ بھی ایک بڑا سانحہ تھا اور اس کے بعد پاکستان میں آنے والے سیلاب نے بھی بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کیا۔ ان قدرتی آفات کے بعد ہم نے اپنے محدود وسائل کے باوجود لوگوں کی مدد کی مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان آفات پر خوشی منائی جائے۔ ہم نے یہ سمجھا کہ یہ قدرتی آفات انسانیت کا امتحان ہیں اور ان کا مقابلہ ہم سب کو مل کرکرنا ہے۔ مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں جب ایسی آفات آتی ہیں تو ان کے پاس ان آفات سے نمٹنے کے لیے بہتر وسائل اور ٹیکنالوجی موجود ہوتی ہے۔

لاس اینجلس میں لگنے والی آگ کی مثال لیں جہاں امدادی کاموں میں جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کا استعمال کیا گیا جس سے نقصانات کو کم کیا جا سکا اور متاثرین کی مدد کا عمل بہتر طریقے سے جاری رہا۔ اس کے برعکس پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جب قدرتی آفات آتی ہیں تو ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ ہم ان کا بہتر مقابلہ کر سکیں۔ کشمیر میں 2005 کے زلزلے کے دوران سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے اور ہم اس پر اتنے مؤثر انداز میں نہیں قابو پا سکے۔ ہمارا انفرا اسٹرکچر وسائل اور ٹیکنالوجی اس سطح پر نہیں ہیں کہ ہم ان قدرتی آفات کے اثرات کو کم کر سکیں۔

پاکستان میں آئے دن سیلاب آتے ہیں، ایک سال خشک سالی ہوتی ہے اور اگلے سال سیلاب آ جاتے ہیں اور ہر دفعہ ان قدرتی آفات کا سامنا کرنے کے لیے ہمارے پاس مناسب وسائل کی کمی ہوتی ہے۔ ان قدرتی آفات کی شدت اور بار بار کے واقعات نے ہمارے سماجی ڈھانچے کو بھی متاثر کیا ہے۔ ہم ان آفات کا بہتر انداز میں مقابلہ کرنے کے بجائے ہر دفعہ ان سے نمٹنے کے لیے عارضی اقدامات کرتے ہیں۔ جب تک ہم ان قدرتی آفات کے مقابلے کے لیے بنیادی ڈھانچے وسائل اور ٹیکنالوجی میں بہتری نہیں لایں گے، ہم اسی طرح ان کا سامنا کرتے رہیں گے۔

لیکن اس کے باوجود جب کشمیر میں 2005 کا زلزلہ آیا تو پاکستانی عوام نے دل کھول کر امداد فراہم کی۔ کراچی سے لے کر پورے پاکستان تک لوگ امدادی سامان کے ساتھ میدان میں اُترے۔ کراچی سے ٹرکوں کے ٹرک بھر کر کھانے کا سامان کپڑے اور ضروریات زندگی کا دیگر سامان کشمیر روانہ کیا گیا۔ نہ صرف پاکستان بھر سے امدادی سامان آیا بلکہ لوگ خود رضاکار کے طور پرکام کرنے کے لیے کشمیر پہنچے۔ ان کی مدد نے متاثرین کی زندگیوں میں امید کی ایک کرن روشن کی اور اس دکھ کی گھڑی میں انسانی ہمدردی اور یکجہتی کی ایک خوبصورت مثال قائم کی۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جب ہم نے اپنے محدود وسائل کے باوجود انسانیت کے ناتے ایک دوسرے کی مدد کی اور دکھ کا بوجھ بانٹا۔

 یہ بات بھی ضروری ہے کہ ہمیں فلسطین میں ہونے والے ظلم اور امریکا میں آنے والی آفات کو ایک دوسرے سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ فلسطین میں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہماری ذمے داری ہے اور ہمیں ہر فورم پر اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، لیکن جو لوگ امریکا میں قدرتی آفات پر خوش ہو رہے ہیں۔

 ان کے لیے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ قدرتی آفات انسانی زندگیوں کو متاثرکرتی ہیں اور ان پر خوشی منانے کی کوئی وجہ نہیں۔ جب کبھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے چاہے وہ کسی بھی ملک میں ہو ہمیں اس میں متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہارکرنا چاہیے۔ ہمیں ان کے دکھ میں شریک ہونا چاہیے نہ کہ اس پر خوشی منانی چاہیے۔ قدرتی آفات کسی قوم یا ملک کے لیے بھی دکھ اور صدمے کا باعث ہوتی ہیں اور انسانیت کے لیے ایک آزمائش ہے اور ہمیں انھیں مل کر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

انسانی جان کا ضیاع جہاں بھی ہو وہ انسانیت کے خلاف ہے۔ ہمیں ہمیشہ ان آفات میں متاثر ہونے والوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور ہر قسم کے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، اگر ظلم فلسطین میں ہو رہا ہے تو ہمیں وہاں کے مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانی چاہیے اگر امریکا میں کوئی آفت آتی ہے تو ہمیں وہاں کے متاثرین کے ساتھ ہمدردی کرنی چاہیے۔ انسانیت کا دکھ ہر جگہ یکساں ہے اور ہمیں اس پرکبھی خوش نہیں ہونا چاہیے۔

 انسانی جذبات اور احساسات کو سمجھنا اور ان کی قدر کرنا ہماری اجتماعی ذمے داری ہے۔ قدرتی آفات کا سامنا کرنے والے افراد کے ساتھ کھڑا ہونا اور ان کے دکھ میں شریک ہونا انسانیت کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ ہر ملک اور قوم کی تقدیر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور ہمیں اس کے مطابق اپنی ذمے داریوں کو سمجھنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ان قدرتی ا فات پاکستان میں ہے اور ہمیں امریکا میں انسانیت کے ہونا چاہیے کا سامنا ان ا فات کے خلاف نے والے کسی بھی ہیں اور کے ساتھ ا فات ا اور ان کی مدد میں ہو کے لیے تی ہیں

پڑھیں:

’فواد خان کی فلم ریلیز نہیں ہونی چاہیے‘، پہلگام حملے کے بعد بھارت میں پاکستانی فنکار کے خلاف احتجاج

مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں نا معلوم افراد کی جانب سے سیاحوں پر ہونے والے حملے کے بعد بھارتی میڈیا میں پاکستان کے خلاف الزامات لگا رہا ہے۔ ایسے میں بھارتی صارفین اب پاکستانی اداکار فواد خان کی بھارتی رومانوی کامیڈی فلم ’عبیر گلال‘کی ریلیز پر پابندی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

فلم ’عبیر گلال‘ شروع ہی سے تنازع کا شکار رہی ہے جب مہاراشٹرا نونرمان سینا (ایم این ایس) نے بھارت میں فواد خان کی فلم کی ریلیز کی مخالفت کی اور احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایسی کسی بھی فلم کو قبول نہیں کریں گے جس میں پاکستانی فنکار ہوں۔

 آج  پہلگام کا واقعہ پیش آنے کے بعد فواد خان کی فلم بھارتی شائقین کے نشانے پر آگئی ہے اور وہ اس کی ریلیز پر مکمل پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ایک صارف نے کہا کہ’عبیر گلال‘ کی ریلیز پر پابندی لگائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور کشمیر سے آنے والی ہر چیز پر پابندی لگائی جائے۔ کشمیر میں عسکریت پسندی معمول ہے ۔

Ban #AbirGulaal and ban anything and everything from Pakistan and Kashmir. Millitancy is the only normalcy for Kashmir.

— Userhaddied (@userhaddied) April 23, 2025

ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ کوئی بھی تھیٹر فلم’عبیر گلال‘کو دکھانے کی جرات نہ کرے۔ بھارت کی حکومت کو چاہیے کہ اس فلم کو اسٹریمنگ پر بھی بین کرے۔ اس بار بالی ووڈ کو سخت سبق سکھانا ضروری ہے۔

Not a single theater should dare to screen #AbirGulaal. India GoI should block streaming providers from streaming it in India.

Bollywood needs to be taught a firm lesson this time #Pahalgam#PahalgamTerroristAttack

— extremist (@extremist) April 23, 2025

ایک صارف نے لکھا کہ یقینی بنائیں کہ ہندوستان میں کوئی بھی تھیٹر اس فلم کی نمائش نہ کر سکے۔

https://Twitter.com/rose_k01/status/1914772419123810450

صارفین کا کہنا تھا کہ فواد خان چونکہ پاکستانی اداکار ہیں اس لیے اس فلم کا بائیکاٹ ہونا چاہیے۔

Fawad Khan is a Pakistani actor.
These Bollywoodias are shameless creatures.

Boycott this movie. He will earn and use the money for terror funds.#BoycottPakiArtists #FawadKhan #AbirGulaal #BollywoodBoycott #NationFirst #PahalgamTerroristAttack#HindusUnderAttack pic.twitter.com/lFxMS8UOzh

— Bona fide???????????????? (@cyber_alph) April 23, 2025

ایک ایکس صارف کا کہنا تھا کہ یہ فلم کسی بھی صورت ریلیز نہیں ہونی چاہیے۔

This should not come out at any cost. @BajrangDalOrg @KarniSenaMumbai https://t.co/oXFi6VDMNd

— कार्तिकेय (@GodOfSanity) April 23, 2025

واضح رہے کہ 2016 میں بھی اسی طرح کی صورتحال دیکھنے کو ملی تھی جب فواد خان کی ’اے دل ہے مشکل‘ کی ریلیز سے ایک ماہ قبل اوڑی حملے ہوئے تھے، اور اس وقت بھی کچھ لوگوں نے فلم کی ریلیز پر اعتراض کیا تھا۔ بہت سےصارفین  نے ان واقعات میں مماثلت تلاش کی ہے۔ ایک صارف نے لکھا، پچھلی بار ’اے دل ہے مشکل‘ کے ساتھ یہی ہوا تھا۔ ریلیز سے ایک ہفتہ پہلے اوڑی حملہ ہوا۔ اب ’عبیر گلال‘ کی ریلیز سے تقریباً 10 دن پہلے پہلگام ہوا ہے۔ دونوں واقعات محض اتفاق نہیں لگتے یا شاید فواد خان کی قسمت ہی خراب ہے۔

فلم ’عبیر گُلال‘ رواں برس 9 مئی کو ریلیز ہو گی۔ اس میں فلم میں لیزا ہیڈن، رِدھی ڈوگرا، فریدہ جلال اور پرمیت شیٹھی سمیت متعدد انڈین اداکار کام کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’فلم ریلیز نہیں ہونے دیں گے‘، فواد خان کی بالی ووڈ فلم ریلیز سے قبل تنازعات کا شکار کیوں؟

فواد خان نے 2014 میں فلم ’خوبصورت‘ سے بالی ووڈ میں ڈیبیو کیا تھا جس میں ان کے ساتھ سونم کپور کو کاسٹ کیا گیا تھا۔ بعدازاں فواد خان فلم ’کپور اینڈ سنز‘ اور ’اے دل ہے مشکل‘ میں بھی جلوہ گر ہوئے تھے۔

یاد رہے کہ بھارت نے 18 ستمبر کو کشمیر میں اڑی فوجی اڈے پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستانی فنکاروں پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میں انڈین موشن پکچرز پروڈیوسرز ایسوسی ایشن (آئی ایم پی پی اے) نے پاک۔ بھارت کشیدگی کے پیش نظر پاکستانی فنکاروں اور ٹیکنیشنز پر بالی ووڈ میں کام کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ اور ہندو انتہا پسند گروہوں نے بھی بالی ووڈ میں کام کرنے والے پاکستانی اداکاروں کو دھمکی دی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بالی ووڈ پہلگام حملہ عبیر گلال فواد خان

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی رہنما کا موجودہ حالات پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ
  • پی ٹی آئی کا بھارتی جارحیت کے حوالے سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ
  • چین کی اقوام متحدہ میں یکطرفہ غنڈہ گردی کے خلاف بھرپور آواز
  • پہلگام حملے کی مذمت کرنے پر مشی خان پاکستانی اداکاروں پر کیوں برس پڑیں؟
  • ایران پوری "انسانیت" کیلئے خطرہ ہے، "نیتن یاہو" کی ہرزہ سرائی
  • ہمیں تیار رہنا چاہیے بھارت کوئی بھی حرکت کرسکتا ہے،سابق سفیر عبدالباسط
  • ’فواد خان کی فلم ریلیز نہیں ہونی چاہیے‘، پہلگام حملے کے بعد بھارت میں پاکستانی فنکار کے خلاف احتجاج
  • طعنہ نہ دیں، ہمارے ووٹوں سے صدر بنے ہیں، رانا ثناء کا بلاول کے بیان پر ردِ عمل
  • انسانیت کے نام پر
  • ’شہد کی مکھی کے خاتمے سے انسانیت کا ایک ہفتے میں خاتمہ‘، آئن سٹائن کی تھیوری کی حقیقت کیا؟