Express News:
2025-09-18@13:42:11 GMT

امریکا میں لگی آگ

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

کسی بھی قدرتی آفت پر خوشی منانا انسانیت کے منافی ہے۔ سوشل میڈیا پہ کچھ اس طرح کا تاثر ملا کہ پاکستان میں کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ امریکا پر آئی حالیہ آفت اﷲ کا عذاب ہے اور کچھ لوگ اس پر خوش ہیں، لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ قدرتی آفات کہیں بھی آ سکتی ہیں اور کسی بھی انسان یا قوم کے لیے اس پر خوشی منانا نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ انسانیت کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ یہ بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ آفات اور قدرتی حادثات ہمیشہ دکھ اور تباہی کا سبب بنتے ہیں جن کا سامنا انسان کو کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ کسی بھی قوم یا ملک کا ہو۔

لاس اینجلس کیلی فورنیا میں لگنے والی آگ نے بے شمار انسانوں کی جانیں لے لیں اور ہزاروں لوگوں کو بے گھرکر دیا۔ یہ آگ نہ صرف امیر طبقے کے لوگوں کے گھروں تک محدود رہی بلکہ غریبوں کے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایسے میں خوشی منانے کے بجائے ہمیں ان کے دکھ میں شریک ہونا چاہیے تھا۔ کسی بھی انسانی زندگی کا ضیاع چاہے وہ امریکا میں ہو یا پاکستان میں قابلِ افسوس ہے اور ہمیں اس پر خوشی نہیں منانی چاہیے۔

ہمیں انسانیت کے ناتے ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔یاد رہے کہ کشمیر میں 2005 میں آنے والا زلزلہ بھی ایک بڑا سانحہ تھا اور اس کے بعد پاکستان میں آنے والے سیلاب نے بھی بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کیا۔ ان قدرتی آفات کے بعد ہم نے اپنے محدود وسائل کے باوجود لوگوں کی مدد کی مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان آفات پر خوشی منائی جائے۔ ہم نے یہ سمجھا کہ یہ قدرتی آفات انسانیت کا امتحان ہیں اور ان کا مقابلہ ہم سب کو مل کرکرنا ہے۔ مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں جب ایسی آفات آتی ہیں تو ان کے پاس ان آفات سے نمٹنے کے لیے بہتر وسائل اور ٹیکنالوجی موجود ہوتی ہے۔

لاس اینجلس میں لگنے والی آگ کی مثال لیں جہاں امدادی کاموں میں جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کا استعمال کیا گیا جس سے نقصانات کو کم کیا جا سکا اور متاثرین کی مدد کا عمل بہتر طریقے سے جاری رہا۔ اس کے برعکس پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں جب قدرتی آفات آتی ہیں تو ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ ہم ان کا بہتر مقابلہ کر سکیں۔ کشمیر میں 2005 کے زلزلے کے دوران سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے اور ہم اس پر اتنے مؤثر انداز میں نہیں قابو پا سکے۔ ہمارا انفرا اسٹرکچر وسائل اور ٹیکنالوجی اس سطح پر نہیں ہیں کہ ہم ان قدرتی آفات کے اثرات کو کم کر سکیں۔

پاکستان میں آئے دن سیلاب آتے ہیں، ایک سال خشک سالی ہوتی ہے اور اگلے سال سیلاب آ جاتے ہیں اور ہر دفعہ ان قدرتی آفات کا سامنا کرنے کے لیے ہمارے پاس مناسب وسائل کی کمی ہوتی ہے۔ ان قدرتی آفات کی شدت اور بار بار کے واقعات نے ہمارے سماجی ڈھانچے کو بھی متاثر کیا ہے۔ ہم ان آفات کا بہتر انداز میں مقابلہ کرنے کے بجائے ہر دفعہ ان سے نمٹنے کے لیے عارضی اقدامات کرتے ہیں۔ جب تک ہم ان قدرتی آفات کے مقابلے کے لیے بنیادی ڈھانچے وسائل اور ٹیکنالوجی میں بہتری نہیں لایں گے، ہم اسی طرح ان کا سامنا کرتے رہیں گے۔

لیکن اس کے باوجود جب کشمیر میں 2005 کا زلزلہ آیا تو پاکستانی عوام نے دل کھول کر امداد فراہم کی۔ کراچی سے لے کر پورے پاکستان تک لوگ امدادی سامان کے ساتھ میدان میں اُترے۔ کراچی سے ٹرکوں کے ٹرک بھر کر کھانے کا سامان کپڑے اور ضروریات زندگی کا دیگر سامان کشمیر روانہ کیا گیا۔ نہ صرف پاکستان بھر سے امدادی سامان آیا بلکہ لوگ خود رضاکار کے طور پرکام کرنے کے لیے کشمیر پہنچے۔ ان کی مدد نے متاثرین کی زندگیوں میں امید کی ایک کرن روشن کی اور اس دکھ کی گھڑی میں انسانی ہمدردی اور یکجہتی کی ایک خوبصورت مثال قائم کی۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جب ہم نے اپنے محدود وسائل کے باوجود انسانیت کے ناتے ایک دوسرے کی مدد کی اور دکھ کا بوجھ بانٹا۔

 یہ بات بھی ضروری ہے کہ ہمیں فلسطین میں ہونے والے ظلم اور امریکا میں آنے والی آفات کو ایک دوسرے سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ فلسطین میں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہماری ذمے داری ہے اور ہمیں ہر فورم پر اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، لیکن جو لوگ امریکا میں قدرتی آفات پر خوش ہو رہے ہیں۔

 ان کے لیے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ قدرتی آفات انسانی زندگیوں کو متاثرکرتی ہیں اور ان پر خوشی منانے کی کوئی وجہ نہیں۔ جب کبھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے چاہے وہ کسی بھی ملک میں ہو ہمیں اس میں متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہارکرنا چاہیے۔ ہمیں ان کے دکھ میں شریک ہونا چاہیے نہ کہ اس پر خوشی منانی چاہیے۔ قدرتی آفات کسی قوم یا ملک کے لیے بھی دکھ اور صدمے کا باعث ہوتی ہیں اور انسانیت کے لیے ایک آزمائش ہے اور ہمیں انھیں مل کر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

انسانی جان کا ضیاع جہاں بھی ہو وہ انسانیت کے خلاف ہے۔ ہمیں ہمیشہ ان آفات میں متاثر ہونے والوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور ہر قسم کے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، اگر ظلم فلسطین میں ہو رہا ہے تو ہمیں وہاں کے مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانی چاہیے اگر امریکا میں کوئی آفت آتی ہے تو ہمیں وہاں کے متاثرین کے ساتھ ہمدردی کرنی چاہیے۔ انسانیت کا دکھ ہر جگہ یکساں ہے اور ہمیں اس پرکبھی خوش نہیں ہونا چاہیے۔

 انسانی جذبات اور احساسات کو سمجھنا اور ان کی قدر کرنا ہماری اجتماعی ذمے داری ہے۔ قدرتی آفات کا سامنا کرنے والے افراد کے ساتھ کھڑا ہونا اور ان کے دکھ میں شریک ہونا انسانیت کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ ہر ملک اور قوم کی تقدیر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور ہمیں اس کے مطابق اپنی ذمے داریوں کو سمجھنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ان قدرتی ا فات پاکستان میں ہے اور ہمیں امریکا میں انسانیت کے ہونا چاہیے کا سامنا ان ا فات کے خلاف نے والے کسی بھی ہیں اور کے ساتھ ا فات ا اور ان کی مدد میں ہو کے لیے تی ہیں

پڑھیں:

سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی

سیلاب اور شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کو کیا ہم محض قدرت کی آفات کے طور پر قبول کرلیں یا ہمیں ان تباہ کاریوں پر حکمران طبقات کی صلاحیتوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ان معاملات میں ان کا کتنا قصور ہے۔

حکمران اور طاقت ور طبقات ہمیشہ سے ہی ان تباہ کاریوں کو قدرت کے نام پر ڈال کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرکے اپنی نااہلی اور بدعنوانی سمیت صلاحیتوں کی کمی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔شدید بارشیں اور سیلاب کا آنا فطری امر ہوتا ہے اور اس کو روکنا ممکن نہیں ہوتا مگر ان معاملات میں پیدا ہونے والے بگاڑ سے نمٹنا اور نمٹنے کی صلاحیت کو پیدا کرنا ہی حکومتی نظام کا اصل چیلنج ہوتا ہے۔

ہر دفعہ حکومت کی سطح پر یہ ہی جواب ہوتا ہے کہ ہم نے اس بار سیلاب کی تباہ کاریوں سے بہت سبق حاصل کیا ہے اور ان غلطیوں کو اگلی بار نہیں دہرایا جائے گا۔لیکن ہر بار پہلے والی غلطیوں کو نہ صرف دہرایا جاتا ہے بلکہ پہلے سے موجود غلطیوں کو اور زیادہ بدنما انداز سے دہرایا جاتا ہے ۔

یعنی سبق یہ ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور ان معاملات سے نمٹنے میں ہماری پالیسی ایک ردعمل کی پالیسی ہے۔ اس عمل میں ہمیں ان حالات سے نمٹنے کا کوئی مستقل خاکہ نظر نہیں آتا اور ایسے لگتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی لانگ ٹرم ،مڈٹرم اور شارٹ ٹرم خاکہ یا منصوبہ موجود نہیں ہے۔

ماضی میں 2022کے سیلاب کے نتیجے میں حکمران طبقات نے بہت سے منصوبوں کی کہانی پیش کی تھی اور اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ عالمی امداد یا مالیاتی اداروں کی معاونت سے بہت سے ایسے منصوبے شروع کریں گے جو مستقبل میں ان آفات سے نمٹنے میں بڑی مدد دے سکیں گے۔

لیکن حکمرانوں کے منصوبے ،دعوے اور خوش نما خواب محض سیاسی نعرے ہی ثابت ہوئے اور عملی طور پر ہم کسی قسم کے ایسے منصوبے تیار نہیں کرسکے جو ہمیں ان حالات سے نمٹنے میں مدد دے سکتے تھے ۔

وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے برملا اعتراف کیا کہ ہم مجموعی طور پر 2022 کے سیلاب کے بعد کوئی ایسے منصوبے نہیں تیار کرسکے جو ہماری ضرورت بنتے تھے۔2025میں جو شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور یہ تباہ کاریاں آج بھی بدستور جاری ہیں وہ حکومت کی نااہلیوں کو نمایاں کرتی ہے۔

اب تک 60لاکھ سے زیادہ افراد حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئے ہیں اور یہ تعداد مزید بڑھ بھی سکتی ہے۔ ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں متاثرین کے لیے فوری ریلیف ہوتا ہے جو ان کی بنیادی ضرورت اور جان ومال کو بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔

کیونکہ پاکستان میں شفافیت پر مبنی گورننس کا نظام ہمیشہ سے خرابیوں کی مختلف نشاندہی کرتا ہے جس کی وجہ سے سیاسی ،انتظامی اور مالی سطح پر ہمیں شفافیت اور اعلیٰ اور بروقت صلاحیتوں کا فقدان دیکھنے کو ملتا ہے ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر جو بھی سیلاب کے متاثرین ہیں وہ حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی سے نالاں ہوتے ہیں اور ان کے بقول ہمارا زیادہ نقصان قدرت کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی غلط حکمت عملیوں اور عدم شفافیت کے نظام کی وجہ سے ہوتا ہے۔

لوگوں کے گھر ہی نہیں بلکہ ان کی زمینیں اور عملی طور پر زراعت سے جڑا ان کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوتا ہے ۔ان کی جمع شدہ پونجی بھی برباد ہوجاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو دوبارہ کھڑے ہونے کے لیے ریاست ،حکومت اور نجی شعبے کے محتاج ہوجاتے ہیں ۔

سیلاب کی تباہ کاریوں کی یہ کہانی نئی نہیں ہے بلکہ یہ وہی پرانی کہانی ہے جو کئی صدیوں سے ہمارے نظام کے ساتھ چل رہی ہیں اور جو لوگ بھی حکومتی یا انتظامی سطح پر ذمے داران ہوتے ہیں وہی گھوم پھر کر ہر حکومت یا انتظامی ڈھانچوں کا حصہ ہوتے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے کے لیے تیار نہیں کہ آپ کی نااہلی سے جو مسائل پیدا ہوئے اس کا حساب کون دے گا ۔

کیونکہ حکومتی نظام میں ایک ایسا مضبوط گٹھ جوڑ ہے جو ہماری بڑی ناکامیوں کی بنیاد ہے۔عالمی مالیاتی اداروں میں بھی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ یہاں پر کرپشن اور نااہلی کا کھیل نمایاں ہے اور اسی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے بھی ہماری مدد سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • ہمیں دوسری جنگ عظیم کی تاریخ کا درست نظریہ اپنانا چاہیے، چینی وزیر دفاع
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • مہمان خصوصی کاحشرنشر
  • قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا: وزیرِ دفاع خواجہ آصف
  • مسلم ممالک کو نیٹو طرز کا اتحاد بنانا چاہیے، خواجہ آصف نے تجویز دیدی
  • قطر میں اسرائیلی حملہ امریکا کی مرضی سے ہوا: وزیر دفاع خواجہ آصف
  •  اوزون کو بچانا انسانیت کا اہم ترین فریضہ ہے:مریم نواز
  • قدرتی وسائل اور توانائی سمٹ 2025 میں پاکستان کی صلاحیت اجاگر کیا جائے گا
  • اسرائیلی بربریت کو اب فوری طور پر رکنا چاہیے، اسرائیل کو انسانیت کیخلاف جنگی جرائم پر احتساب کے کٹہرے میں لانا چاہیے،وزیراعظم شہباز شریف