Nai Baat:
2025-04-25@11:37:30 GMT

جس دورمیں لٹ جائے غریب کی کمائی

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

جس دورمیں لٹ جائے غریب کی کمائی

ستائیس جنوری میرے بڑے بیٹے کی سالگرہ کی وجہ سے میرے لئے بڑا اہم دن ہے۔ لیکن اس بار اس کی اہمیت اور وجہ تذکرہ ذرا مختلف ہے۔ زندگی اپنے نشیب و فراز کے معمولات کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ کچھ واقعات آپ کے لئے جہاں تکلیف کا باعث ہوتے ہیں وہاں ان میں ایک سبق بھی پنہاں ہوتا ہے۔ سولہ برس پہلے دو ہزار آٹھ میں وقت ٹی وی کے توسط سے پاکستان کے ایک بڑے بنک کا کلائنٹ بنا تھا۔ میرا یہ اکاؤنٹ استعمال میں نہ ہونے کے باوجود آج بھی آپریشنل ہے۔ اسی بنک کا انتیس منزلہ بلڈنگ پر قائم ہیڈ آفس اپنی منفرد طرز تعمیراور اونچائی کی وجہ سے کراچی کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں ظاہری اونچائیاں اور انفرادیت اس وقت تک قابل قدر سمجھی جاتی ہیں جب تک ادارے کا چال چلن اور سروسز کا معیار اپنے کسٹمرز کی توقعات کے مطابق ہوتا ہے۔ بصورت دیگر اب تک کئی بڑے بڑے ادارے آج اپنا وجود بھی کھو چکے ہیں۔ دو ہزار چودہ میں جب مجھے چینل ٹوئنٹی فور کی لانچنگ ٹیم کاحصہ بننے کا موقع ملا تو اسی بنک میں ایک نیا اکاؤنٹ کھلوانا پڑا۔اس کے بعد جب میں ایکسپریس نیوز اور بعد ازاں جی این این ٹی وی اور چین اسٹور ایسوسی ایشن کو جوائن کیا تو بھی میری تنخواہ اس نئے اکاؤنٹ میں ٹرانسفرہوتی رہی۔ گذشتہ آٹھ برسوں سے میں اسی اکاؤنٹ سے اپنی تمام ٹرانزیکشن کررہا تھا۔ میں اپنے گھر کا کرایہ، بلز، بچوں کی فیسیں، یوٹیلیٹی بلز، ہوٹل بلز اور پٹرول وغیرہ آن لائن ٹرانزیکشن ،کنیکٹ ایپ یا اے ٹی ایم سے ادا کرتا ہوں اسلئے جیب میں زیادہ کیش نہیں رکھتا۔ ہرماہ بڑی جدوجہد کے بعد کچھ پس اندازکی جانے والی رقم بھی اسی اکاؤنٹ میں بڑھتی رہی ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ ہونے کی وجہ سے میں بینک سے کوئی پرافٹ نہیں لیتا۔ ستائیس جنوری کی شام جب میں گھر کے لئے ایک قالین اور بیٹے کے لئے کیک خریدنے پہنچا تو اے ٹی ایم نے کام کرنا بند کر دیا اور کنیکٹ ایپ سے اکاؤنٹ کی تفصیلات غائب ہوگئیں اور اس کی جگہ میرا پرانا اکاؤنٹ ایکٹو ہو گیا جس میں صرف ایک سو چوہتر روپے موجود تھے۔ نہایت شرمندگی اور خجالت۔ ایک جھٹکا لگا اور دل بیٹھ گیا کہ کہیں میرا اکاؤنٹ ہیک تو نہیں ہو گیااور رقم چوری ہوگئی ہے۔ کیونکہ ماضی قریب میں اس بنک کے صارفین کا ڈیٹا چوری ہونے کی خبریں گردش میں رہیں تھیں۔ مجبوراً بھائی کو فون کر کے ادھار کیش کا بندوبست کیا۔ اٹھائیس کی صبح قریبی برانچ سے رابطہ کیا تو وہاں کے آپریشن منیجر پہلے تو حیران ہوئے کہ اچھی خاصی رقم کے باوجود اکاؤنٹ کیوں بندکردیا، لہٰذا آپ اپنی برانچ جائیں۔ لبرٹی لاہور میں اپنی پیرنٹ برانچ جا کر آپریشنل منیجر سے تفصیلات معلوم کیں تو انھوں نے بھی حیران ہوتے ہوئے لاعلمی کا اظہار کیا۔ یہاں سے اب اس بے حسی اور نان کسٹمرسنٹرک اپروچ کا آغاز ہوگیا۔ آج کے اس جدید دور میں جب صرف ایک فنگر پرنٹ سے متعلقہ فرد کی تمام تفصیلات سامنے آجاتی ہیں۔ بطور ٹیکس فائلر میری تفصیلات سٹیٹ بینک اور متعلقہ اداروں کے پاس موجود ہیں۔ خیر بحکم بینک سٹاف میں نے فوراً نئی سیلری سلپ، شناختی کارڈ کی کاپی مع فنگر پرنٹس جمع کرا دیں۔ مجھے بتایاگیا کہ کل تک آپ کا اکاؤنٹ بحال ہو جائے گا یہ شاید کوئی مینوئل خرابی ہے۔ میں نے احتیاطاً ایک آن لائن شکایت درج کرائی تو یہ معمہ کھلا کہ آپ کے اکاؤنٹ کی تصدیق نہیں ہے ہمارے پاس۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے کہتے تو میں ضرور کراتا، پچھلے آٹھ برس میں تو آپ نے ایک بار بھی فون نہیں کیا،کوئی ای میل نہیں کی کہ اس اکاؤنٹ کا کوئی مسئلہ ہے۔۔جبکہ ہر بار ایپ کے استعمال اور ٹرانزیکشن پر فوراً ای میل آجاتی ہے۔ جواب ملا کہ بینک نے آپ کو میسج کیا تھا۔میں سر پکڑ کر رہ گیا کہ اکاؤنٹ بند کرنا ایک بڑا اوراہم فیصلہ ہے۔ میرا فون نمبر اور ای میل آپ کے پاس ہیں کم از کم مجھ سے بات تو کرتے۔ میں اگر کمپلائنس نہ دیتا تو بینک حق بجانب تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر صارفین کو مختلف کمپنیوں سے درجنوں میسج ملتے ہیں اور ہرمیسج پڑھا نہیں جاسکتا۔ طویل عرصے سے ایک بڑی رقم اپنے اکاؤنٹ میں رکھنے کے باوجود میں بنک سے کوئی منافع نہیں لے رہا اور خود کو ایک معزز کسٹمر سمجھتا تھا۔ جبکہ بینک انھی غیرمعززصارفین کے سرمائے سے خوب منافع کما رہے ہیں۔ مذکورہ بنک کا دوہزار چوبیس کے پہلے نو ماہ میں ڈکلیئرڈ منافع چھیاسی ارب روپے ہے۔ آن لائن یقین دہانی کے باوجود تین دن میں مسئلہ تو حل نہ ہوسکا۔ البتہ تیس جنوری کو ایک اور میسج موصول ہو گیا کہ آپ کو آپکی رقم موصول ہو چکی ہے۔ پھر آن لائن کال کی اور پوچھا کہ بھائی کونسی رقم ، کب اور کہاں ادا ہوئی جو آدھی رات کو میسج کر دیا؟ بولے کہ آپ کی کمپلینٹ درج ہو گئی ہے آ پ کو تین دن میں بتا دیں گے۔ پھر سے تین دن ؟ اسی دن دوبارہ برانچ پہنچا اور بینک منیجر سے ملاقات کی۔ ان کے پاس میرے کسی سوال کا تشفی بخش جواب نہیں تھا لیکن وہ بے چین ضرور تھے اس سارے عمل پر بولے آپ کی رقم ہمارے پاس ہے بس تھوڑی سی کارروائی کے بعد پے آرڈر بنا دیں گے۔ پچھلے نو دنوں میں اس سارے پراسیس نے ذہنی اذیت کاشکارکر رکھاہے۔ میرے کام اور ذاتی معاملات میں الجھاؤ ہے۔ خدانخواستہ اگرکوئی سخت اور بڑی معاشی ضرورت آن پڑی تو میں کس کے آگے ہاتھ پھیلاؤں گا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں ایک پڑھا لکھا اوران معاملات کی قدرے سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص ہوں لیکن اس کے باوجود اس قدر مشکل صورتحال سے دوچار ہوں۔ اس لئے یہ سبق ملا کہ ایک ہی ٹوکری میں سارے انڈے رکھناغلط ہے۔ اپنی یہ آپ بیتی لکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اگر کسی کمزور دل اور اعصاب والے شخص کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا اور اسے ایک لمحے کے لئے لگتا کے اس کی ساری کمائی اڑ گئی ہے تو شاید اس کی جان بھی جاسکتی تھی۔ پاکستان میں سارے حقوق اور معاہدات بحق طاقتورمحفوظ ہیں۔ ریاست بھی ان بینکوں کی مقروض ہے۔ یہ ایک گہرا گٹھ جوڑ ہے۔ وہیں بینک میں بیٹھے بیٹھے معلوم ہوا کہ موجودہ حکومت کے ایک طاقتور وزیر کی اہلیہ کا کریڈٹ کارڈ بنانے بینک کا عملہ ان کے گھر جا کر سارا عمل مکمل کر کے آیا ہے۔ لہٰذا اتنے بڑے ملک میں اگرکسی عام آدمی کااکاؤنٹ بغیر بتائے بند کر دیاجائے یا اس کی رقم نہ لوٹائی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے باوجود ا ن لائن میں ایک کے لئے گیا کہ

پڑھیں:

گردشی قرض کا خاتمہ، بینکوں سے 1275 ارب روپے قرض کیلئے بات چیت جاری ہے، اسٹیٹ بینک

اسلام آباد:

اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ حکومت پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ ختم کرنے کیلئے ایک ہزار 275 ارب روپے کے قرض کے لیے بینکوں سے بات کر رہی ہے،اس میں سے 658 ارب روپے پاور سیکٹر کے قرض ادائیگی کیلئے استعمال ہونگے، 400 ارب روپے سکوک بانڈ اور باقی رقم دیگر قرض کی ادائیگی کیلئے استعمال ہوگی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد میں ہوا۔

ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ ختم کرنے کے لیے بینکوں سے 1275 ارب روپے کا قرض لے رہی ہے جب کہ دیگر ضروریات کیلئے حکومت 670 ارب روپے کا مزید قرض لے گی حکومت اور بینکوں کے درمیان اس وقت مذاکرات حتمی مراحل میں ہیں۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ حکومت گردشی قرض کو ختم کرنے کیلئے قرض لے گی یہ قرض کتنی مدت کیلئے ہو گا پہلے قرض پر سود حکومت ادا کرتی تھی اب سود عوام ادا کریں گے؟ اس طرح معاملہ حل نہیں ہوگا کیونکہ اصل مسائل حل ہی نہیں کیے گئے۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اجلاس میں پاور ڈویژن موجود نہیں ہے اس لیے کوئی جواب نہیں دے سکے گا حکومت صرف گردشی قرض کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہی ہے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ سولر پینل کی درآمد کی آڑ میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے قائم ذیلی کمیٹی نے مزید وقت مانگا ہے۔ سلیم مانڈوی والا  نے کہا کہ ذیلی کمیٹی 6 جنوری کو قائم کی گئی تھی اور 23 اپریل تک کام مکمل نہیں ہوا، آج کمیٹی اجلاس میں محسن عزیز اور دیگر ممبران موجود نہیں ہیں۔

شیری رحمان نے کہا کہ کنوینر ذیلی کمیٹی محسن عزیز نے تجویز کیا ہے کہ معاملہ کیلئے نئی کمیٹی قائم کی جائے۔

چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ کمیٹی نے کافی کام کیا ہے ایف بی آر نے کافی تحقیقات کی ہیں اس کمیٹی کو دوبارہ تشکیل دے کر ایک ماہ کا مزید وقت دے دیا جائے۔

اجلاس میں سینیٹر ذیشان خانزادہ کے انکم ٹیکس قانون میں ترمیم کے بل پر غور کیا گیا۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس بل کو ایف بی آر نے منی بل قرار دیا ہے اس پر فنانس بل کے ذریعے ترمیم ہو سکتی ہے۔

وزارت قانون کے نمائندے نے کمیٹی کو بتایا کہ کیا پرائیویٹ ممبر کی انکم ٹیکس قانون میں ترمیم کا بل منی بل ہے یا نہیں یہ اسپیکر فیصلہ کرے گا۔

سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس بل کو اسپیکر کو بھیج دیتے ہیں۔

اجلاس میں وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ سے متعلق بریفنگ دی گئی اجلاس کو بتایا گیا کہ 32 ہزار سرکاری اسامیاں ختم کی جا چکی ہیں ، 50 سرکاری محکموں کو چار مراحل میں تحلیل ، ضم یا ختم کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایمن اور منال خان نے فٹنس روٹین اور پہلی کمائی سے متعلق اہم انکشافات کر دیے
  • بھارت کی اوچھی حرکت: حکومتِ پاکستان کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بلاک کر دیا
  • کشمیر حملے کے بعد بھارت نےحکومت پاکستان کے ایکس اکاؤنٹ تک رسائی پر پابندی لگا دی
  • پہلگام حملہ: انڈیا میں پاکستان کا سرکاری ’ایکس اکاؤنٹ‘ بلاک کر دیا گیا
  • پاکستان کی ایک اور کامیابی; 2 غیر ملکی بینکوں سے 1ارب ڈالر کے اہم مالیاتی سمجھوتے طے پاگئے
  • سلمان خان کی فلم سکندر باکس آفس پر سست روی کا شکار
  • ایمن اور منال خان کی اشتہارات سے ہوئی پہلی کمائی کتنی تھی؟
  • گردشی قرض کا خاتمہ، بینکوں سے 1275 ارب روپے قرض کیلئے بات چیت جاری ہے، اسٹیٹ بینک
  • غریب کسانوں کا پانی چھین کر چولستان مین کارپوریٹ سیکٹر کو دینا چاہتے ہیں.چوہدری منظور
  • برطانیہ: غریب طلباء جسمانی پسماندگی سے دوچار