Nai Baat:
2025-06-10@04:45:12 GMT

جس دورمیں لٹ جائے غریب کی کمائی

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

جس دورمیں لٹ جائے غریب کی کمائی

ستائیس جنوری میرے بڑے بیٹے کی سالگرہ کی وجہ سے میرے لئے بڑا اہم دن ہے۔ لیکن اس بار اس کی اہمیت اور وجہ تذکرہ ذرا مختلف ہے۔ زندگی اپنے نشیب و فراز کے معمولات کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ کچھ واقعات آپ کے لئے جہاں تکلیف کا باعث ہوتے ہیں وہاں ان میں ایک سبق بھی پنہاں ہوتا ہے۔ سولہ برس پہلے دو ہزار آٹھ میں وقت ٹی وی کے توسط سے پاکستان کے ایک بڑے بنک کا کلائنٹ بنا تھا۔ میرا یہ اکاؤنٹ استعمال میں نہ ہونے کے باوجود آج بھی آپریشنل ہے۔ اسی بنک کا انتیس منزلہ بلڈنگ پر قائم ہیڈ آفس اپنی منفرد طرز تعمیراور اونچائی کی وجہ سے کراچی کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں ظاہری اونچائیاں اور انفرادیت اس وقت تک قابل قدر سمجھی جاتی ہیں جب تک ادارے کا چال چلن اور سروسز کا معیار اپنے کسٹمرز کی توقعات کے مطابق ہوتا ہے۔ بصورت دیگر اب تک کئی بڑے بڑے ادارے آج اپنا وجود بھی کھو چکے ہیں۔ دو ہزار چودہ میں جب مجھے چینل ٹوئنٹی فور کی لانچنگ ٹیم کاحصہ بننے کا موقع ملا تو اسی بنک میں ایک نیا اکاؤنٹ کھلوانا پڑا۔اس کے بعد جب میں ایکسپریس نیوز اور بعد ازاں جی این این ٹی وی اور چین اسٹور ایسوسی ایشن کو جوائن کیا تو بھی میری تنخواہ اس نئے اکاؤنٹ میں ٹرانسفرہوتی رہی۔ گذشتہ آٹھ برسوں سے میں اسی اکاؤنٹ سے اپنی تمام ٹرانزیکشن کررہا تھا۔ میں اپنے گھر کا کرایہ، بلز، بچوں کی فیسیں، یوٹیلیٹی بلز، ہوٹل بلز اور پٹرول وغیرہ آن لائن ٹرانزیکشن ،کنیکٹ ایپ یا اے ٹی ایم سے ادا کرتا ہوں اسلئے جیب میں زیادہ کیش نہیں رکھتا۔ ہرماہ بڑی جدوجہد کے بعد کچھ پس اندازکی جانے والی رقم بھی اسی اکاؤنٹ میں بڑھتی رہی ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ ہونے کی وجہ سے میں بینک سے کوئی پرافٹ نہیں لیتا۔ ستائیس جنوری کی شام جب میں گھر کے لئے ایک قالین اور بیٹے کے لئے کیک خریدنے پہنچا تو اے ٹی ایم نے کام کرنا بند کر دیا اور کنیکٹ ایپ سے اکاؤنٹ کی تفصیلات غائب ہوگئیں اور اس کی جگہ میرا پرانا اکاؤنٹ ایکٹو ہو گیا جس میں صرف ایک سو چوہتر روپے موجود تھے۔ نہایت شرمندگی اور خجالت۔ ایک جھٹکا لگا اور دل بیٹھ گیا کہ کہیں میرا اکاؤنٹ ہیک تو نہیں ہو گیااور رقم چوری ہوگئی ہے۔ کیونکہ ماضی قریب میں اس بنک کے صارفین کا ڈیٹا چوری ہونے کی خبریں گردش میں رہیں تھیں۔ مجبوراً بھائی کو فون کر کے ادھار کیش کا بندوبست کیا۔ اٹھائیس کی صبح قریبی برانچ سے رابطہ کیا تو وہاں کے آپریشن منیجر پہلے تو حیران ہوئے کہ اچھی خاصی رقم کے باوجود اکاؤنٹ کیوں بندکردیا، لہٰذا آپ اپنی برانچ جائیں۔ لبرٹی لاہور میں اپنی پیرنٹ برانچ جا کر آپریشنل منیجر سے تفصیلات معلوم کیں تو انھوں نے بھی حیران ہوتے ہوئے لاعلمی کا اظہار کیا۔ یہاں سے اب اس بے حسی اور نان کسٹمرسنٹرک اپروچ کا آغاز ہوگیا۔ آج کے اس جدید دور میں جب صرف ایک فنگر پرنٹ سے متعلقہ فرد کی تمام تفصیلات سامنے آجاتی ہیں۔ بطور ٹیکس فائلر میری تفصیلات سٹیٹ بینک اور متعلقہ اداروں کے پاس موجود ہیں۔ خیر بحکم بینک سٹاف میں نے فوراً نئی سیلری سلپ، شناختی کارڈ کی کاپی مع فنگر پرنٹس جمع کرا دیں۔ مجھے بتایاگیا کہ کل تک آپ کا اکاؤنٹ بحال ہو جائے گا یہ شاید کوئی مینوئل خرابی ہے۔ میں نے احتیاطاً ایک آن لائن شکایت درج کرائی تو یہ معمہ کھلا کہ آپ کے اکاؤنٹ کی تصدیق نہیں ہے ہمارے پاس۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے کہتے تو میں ضرور کراتا، پچھلے آٹھ برس میں تو آپ نے ایک بار بھی فون نہیں کیا،کوئی ای میل نہیں کی کہ اس اکاؤنٹ کا کوئی مسئلہ ہے۔۔جبکہ ہر بار ایپ کے استعمال اور ٹرانزیکشن پر فوراً ای میل آجاتی ہے۔ جواب ملا کہ بینک نے آپ کو میسج کیا تھا۔میں سر پکڑ کر رہ گیا کہ اکاؤنٹ بند کرنا ایک بڑا اوراہم فیصلہ ہے۔ میرا فون نمبر اور ای میل آپ کے پاس ہیں کم از کم مجھ سے بات تو کرتے۔ میں اگر کمپلائنس نہ دیتا تو بینک حق بجانب تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر صارفین کو مختلف کمپنیوں سے درجنوں میسج ملتے ہیں اور ہرمیسج پڑھا نہیں جاسکتا۔ طویل عرصے سے ایک بڑی رقم اپنے اکاؤنٹ میں رکھنے کے باوجود میں بنک سے کوئی منافع نہیں لے رہا اور خود کو ایک معزز کسٹمر سمجھتا تھا۔ جبکہ بینک انھی غیرمعززصارفین کے سرمائے سے خوب منافع کما رہے ہیں۔ مذکورہ بنک کا دوہزار چوبیس کے پہلے نو ماہ میں ڈکلیئرڈ منافع چھیاسی ارب روپے ہے۔ آن لائن یقین دہانی کے باوجود تین دن میں مسئلہ تو حل نہ ہوسکا۔ البتہ تیس جنوری کو ایک اور میسج موصول ہو گیا کہ آپ کو آپکی رقم موصول ہو چکی ہے۔ پھر آن لائن کال کی اور پوچھا کہ بھائی کونسی رقم ، کب اور کہاں ادا ہوئی جو آدھی رات کو میسج کر دیا؟ بولے کہ آپ کی کمپلینٹ درج ہو گئی ہے آ پ کو تین دن میں بتا دیں گے۔ پھر سے تین دن ؟ اسی دن دوبارہ برانچ پہنچا اور بینک منیجر سے ملاقات کی۔ ان کے پاس میرے کسی سوال کا تشفی بخش جواب نہیں تھا لیکن وہ بے چین ضرور تھے اس سارے عمل پر بولے آپ کی رقم ہمارے پاس ہے بس تھوڑی سی کارروائی کے بعد پے آرڈر بنا دیں گے۔ پچھلے نو دنوں میں اس سارے پراسیس نے ذہنی اذیت کاشکارکر رکھاہے۔ میرے کام اور ذاتی معاملات میں الجھاؤ ہے۔ خدانخواستہ اگرکوئی سخت اور بڑی معاشی ضرورت آن پڑی تو میں کس کے آگے ہاتھ پھیلاؤں گا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں ایک پڑھا لکھا اوران معاملات کی قدرے سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص ہوں لیکن اس کے باوجود اس قدر مشکل صورتحال سے دوچار ہوں۔ اس لئے یہ سبق ملا کہ ایک ہی ٹوکری میں سارے انڈے رکھناغلط ہے۔ اپنی یہ آپ بیتی لکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اگر کسی کمزور دل اور اعصاب والے شخص کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا اور اسے ایک لمحے کے لئے لگتا کے اس کی ساری کمائی اڑ گئی ہے تو شاید اس کی جان بھی جاسکتی تھی۔ پاکستان میں سارے حقوق اور معاہدات بحق طاقتورمحفوظ ہیں۔ ریاست بھی ان بینکوں کی مقروض ہے۔ یہ ایک گہرا گٹھ جوڑ ہے۔ وہیں بینک میں بیٹھے بیٹھے معلوم ہوا کہ موجودہ حکومت کے ایک طاقتور وزیر کی اہلیہ کا کریڈٹ کارڈ بنانے بینک کا عملہ ان کے گھر جا کر سارا عمل مکمل کر کے آیا ہے۔ لہٰذا اتنے بڑے ملک میں اگرکسی عام آدمی کااکاؤنٹ بغیر بتائے بند کر دیاجائے یا اس کی رقم نہ لوٹائی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے باوجود ا ن لائن میں ایک کے لئے گیا کہ

پڑھیں:

اگلے بجٹ میں عوام پر کم سے کم ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جائے، علی خورشیدی

پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی نے کہا کہ ہماری جماعت نے کہا ہے اس دفعہ حکمران قربانی دیں، عوام میں یہی تاثر جاتا ہے کہ ہم تو کر رہے ہیں حکمران کچھ نہیں کر رہے، ایم کیو ایم اچھے برے حالات میں ملک کے ساتھ کھڑی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے کہا ہے کہ اگلے بجٹ میں عوام پر کم سے کم ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جائے۔ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے علی خورشیدی نے کہا کہ عید قرباں کے بعد بجٹ آئے گا، 77 سال سے یہی سن رہے ہیں ملک نازک دور سے گزر رہا ہے اور عوام کو قربانی دینی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت نے کہا ہے اس دفعہ حکمران قربانی دیں، عوام میں یہی تاثر جاتا ہے کہ ہم تو کر رہے ہیں حکمران کچھ نہیں کر رہے۔ اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم اچھے برے حالات میں ملک کے ساتھ کھڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس شہر میں 96 ڈمپنگ پوائنٹس بنائے گئے ہیں لیکن نا اہل میئر کی وجہ سے پورا شہر ڈمپنگ پوائنٹ میں تبدیل ہوگیا، میں کوئی سیاسی بات نہیں کر رہا ہوں یہ نااہل میئر اس کا ذمے دار ہے۔ علی خورشیدی نے کہا کہ یو سی لیول پر پہلے دن 10 گاڑیاں دی جاتی ہیں، آلائشوں کو اٹھانے کے لیے 7 سے 8 گاڑیاں چل رہی ہیں، یو سی چیئرمین نے پیسے بھی کھانے ہیں، کراچی کمیشن کھانے والوں کی آماجگاہ بنتا جارہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نجی بینک میں ڈکیتی
  • گاڑی کی ٹکر سے دو موٹرسائیکل سواروں کی ہلاکت کا مقدمہ نیم سرکاری بینک کے افسر کیخلاف درج
  • کراچی کے نجی بینک میں بڑی ڈکیتی، سکیورٹی گارڈ کی مدد سے کروڑوں کے زیورات لوٹ کر ڈاکو فرار
  • کراچی؛ نجی بینک میں بڑی ڈکیتی؛ سکیورٹی گارڈ کی مدد سے کروڑوں کے زیورات لوٹ کر ڈاکو فرار
  • زراعت میں پیچھے رہنے سے شرح نمو کا ہدف حاصل نہ ہو سکا: عارف حبیب
  • اگلے بجٹ میں عوام پر کم سے کم ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جائے، علی خورشیدی
  • کراچی میں بینک کے لاکرز لوٹ لیے گئے، سکیورٹی گارڈ سہولت کار نکلا
  • کراچی: نجی بینک میں نقب زنی کی بڑی واردات، ملزمان لاکھوں روپے، طلائی زیورات، قیمتی سامان لوٹ کرفرار
  • رونالڈو کی گرل فرینڈ کو بڑا دھچکا، کمائی کا اہم راستہ بند
  • سالوں تک غریب طبقے نے قربانیاں دیں، اب اشرافیہ کی باری ہے، فاروق ستار