چین پر دباؤ اور دھمکیاں کام نہیں کریں گی، چینی وزارت خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
چین پر دباؤ اور دھمکیاں کام نہیں کریں گی، چینی وزارت خارجہ WhatsAppFacebookTwitter 0 5 February, 2025 سب نیوز
بیجنگ : چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لین جیئن نے امریکہ کی جانب سے فینٹینل کے مسئلے کے بہانے چینی مصنوعات پر 10 فیصد اضافی ٹیرف عائد کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کی سختی سے مخالفت کی۔
انہوں نے بدھ کے روزکہا کہ “تجارتی جنگ اور ٹیرف کی جنگ” میں کوئی فاتح نہیں ہے اور چین پر دباؤ اور دھمکیاں کام نہیں کریں گی۔ چین امریکہ پر زور دیتا ہے کہ وہ غلط رویے کو درست کرکے انصاف پر مبنی مذاکرات کے ذریعے اپنی تشویش کو حل کرے اور چین-امریکہ تعلقات کی مستحکم، صحت مند اور پائیدار ترقی کو آگے بڑھائے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
دنیا ایک نئے عالمی موڑ پر، خود مختاری کا اُبھرتا ہوا بیانیہ
اسلام ٹائمز: ایران نے یہ بیج مشرقِ وسطیٰ میں بویا، سوڈان نے افریقہ میں اسے مضبوط کیا اور نیویارک کے عوام نے مغرب میں اسے آواز دی۔ دنیا اب طاقت کی نہیں، اصول کی سیاست کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسا عہد ہے، جہاں قومیں اپنی تقدیر خود لکھنا چاہتی ہیں اور عالمی طاقتوں کے پرانے کھیل کے لیے جگہ تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ وقت فیصلہ کرے گا کہ امریکہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتا ہے یا ایک نئے تصادم کی راہ ہموار ہوتی ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ دنیا اب پرانی نہیں رہی۔ دنیا اب ڈکٹیٹرشپ سے نکل کر اپنے فیصلے اپنے ایوانوں میں کرنا چاہتی ہے، ایسے فیصلے جو انسانی اصولوں پر قائم ہوں، نہ کہ استعماریت و سامراجیت پر۔ تحریر: سید عدنان زیدی
دنیا ایک نئے سیاسی و نظریاتی موڑ پر کھڑی ہے۔ ایران، سوڈان، حزب اللہ اور نیویارک۔۔۔۔ بظاہر چار مختلف محاذ، مگر ایک ہی پیغام دے رہے ہیں کہ خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ یہ چار خبریں اس ہفتے عالمی سیاست کا رخ بدلنے کی طرف واضح اشار ہ کر رہی ہیں، جہاں اصول، غیرت اور خود مختاری کے تصورات دوبارہ زندہ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں رہبرِ مسلمین کی اُن شرائط پر، جو انہوں نے ایران و امریکہ تعلقات کی بحالی کے لیے عائد کیں، جنہوں نے ایران کا اصولی مؤقف پوری دنیا پر واضح کر دیا۔ رہبرِ مسلمین نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے تین واضح اور اصولی شرائط رکھ دیں: 1۔ امریکہ اسرائیل کی حمایت مکمل طور پر ختم کرے۔ 2۔ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے فوجی اڈے بند کرے۔ 3۔ خطے کے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے۔
یہ صرف سفارتی نہیں بلکہ نظریاتی اعلان ہے کہ طاقت مفاد سے نہیں بلکہ اصول سے پیدا ہوتی ہے۔ ایران کا یہ پیغام دراصل مشرقِ وسطیٰ میں نئی خود مختار پالیسی کا آغاز ہے، جہاں کسی بھی طاقت کو "دباؤ" کے بجائے "برابری" کی سطح پر بات کرنی ہوگی۔ ایران نے لبنان کی حمایت پر مبنی اپنے بیانیے میں اسرائیل کو واضح پیغام دیا ہے کہ اگر لبنان میں حزب اللہ پر حملہ کیا گیا تو یہ جنگ صرف لبنان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایران اس جنگ میں شامل ہو کر حزب اللہ اور لبنان کا مکمل دفاع کرے گا، یہ وارننگ تین سمتوں میں گئی:
اسرائیل کے لیے: اگر حملہ کرو گے تو کئی محاذ کھل جائیں گے۔
امریکہ کے لیے: ایران اب صرف دفاع نہیں بلکہ پیش قدمی کی پالیسی پر گامزن ہے۔
عرب دنیا کے لیے: ایران خطے کی قیادت کے لیے تیار ہے۔
یہ پیغام ظاہر کرتا ہے کہ ایران اب ردِعمل نہیں بلکہ عمل کا مرکز بن چکا ہے۔ ایران اب طاقت کے ساتھ ہر منفی قوت کا سر کچلنے کے لیے آمادہ ہے اور وقت سے پہلے ہر جارحیت کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ 12 روزہ جنگ میں ایران نے ثابت کیا۔ دنیا نے دیکھا کہ ایرانی میزائلوں نے ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے امریکہ و اسرائیل کے دعووں کو کس طرح کھوکھلا کر دیا اور انہیں جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا۔ قارئینِ محترم! خطے کی طاقت کا توازن تیزی سے بدل رہا ہے، جہاں ایران ایک مضبوط جغرافیائی و نظریاتی قوت کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ اسی دوران افریقہ کے ملک سوڈان کے وزیرِاعظم کامل ادریس نے ایک بڑا اعلان کیا ہے، جس کے بعد سوڈان کے اندر مسلط کردہ جارحیت کے خلاف مزاحمت کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے۔
واضح رہے کہ مصر اور ایران کے تعاون سے کئی مقامات پر سوڈانی مزاحمت کاروں نے دہشت گرد گروہوں کے قافلوں کو تباہ کیا ہے۔ سوڈانی وزیرِاعظم نے ریپڈ سپورٹ فورس (RSF) کو دہشت گرد گروہ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ وہ گروہ ہے، جو دارفور اور فاشر میں شہریوں کے قتلِ عام میں ملوث سمجھا جاتا ہے اور جس کی مکمل پشت پناہی امریکہ اور متحدہ عرب امارات کر رہے ہیں۔ معاملہ وہی پرانا ہے، معدنیات کا، مفاد کا اور انسانی جانوں کی قیمت پر تسلط کا۔ سوڈانی وزیرِاعظم نے اقوامِ متحدہ کی امن فورس کی تعیناتی کو بھی مسترد کر دیا اور کہا کہ "بین الاقوامی افواج سوڈان کی خود مختاری کے لیے خطرہ ہیں۔" یعنی سوڈان انصاف بھی چاہتا ہے، لیکن اپنی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ یہ افریقہ میں ایک نئی فکری لہر اور مزاحمتی سوچ کا آغاز ہے، جہاں مقامی قیادت عالمی طاقتوں کے اثر سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
امریکہ جو تہران میں رجیم چینج کا خواب دیکھ رہا تھا، خود نیویارک کے اندر رجیم چینج کی فضا کا شکار ہے۔ ٹرمپ اور اسرائیل دونوں ہی اپنی حمایت کے گراف میں زبردست گراوٹ کا سامنا کر رہے ہیں۔ نیویارک کے میئر کے انتخابات میں زہران ممدانی کی جیت نے سیاسی فضا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ جیت صرف ایک انتخابی کامیابی نہیں بلکہ ایک فکری تبدیلی ہے۔ تین چیزیں اب واضح ہوچکی ہیں۔ 1۔ ٹرمپ ازم کی مقبولیت زوال کا شکار ہے۔ 2۔ اسرائیل مخالف بیانیہ امریکی سیاست میں جگہ بنا رہا ہے۔ 3۔ نئی نسل انسانی بنیادوں پر سیاست چاہتی ہے، اندھی وفاداری نہیں۔ اگرچہ زہران ممدانی مذہبی یا نظریاتی سیاستدان نہیں، لیکن ان کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی عوام بھی اب انصاف پر مبنی سیاست چاہتے ہیں۔
یہ چاروں واقعات بظاہر الگ الگ ہیں، لیکن اصل میں ایک نئی عالمی لہر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایران نے یہ بیج مشرقِ وسطیٰ میں بویا، سوڈان نے افریقہ میں اسے مضبوط کیا اور نیویارک کے عوام نے مغرب میں اسے آواز دی۔ دنیا اب طاقت کی نہیں، اصول کی سیاست کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسا عہد ہے، جہاں قومیں اپنی تقدیر خود لکھنا چاہتی ہیں اور عالمی طاقتوں کے پرانے کھیل کے لیے جگہ تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ وقت فیصلہ کرے گا کہ امریکہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتا ہے یا ایک نئے تصادم کی راہ ہموار ہوتی ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ دنیا اب پرانی نہیں رہی۔ دنیا اب ڈکٹیٹرشپ سے نکل کر اپنے فیصلے اپنے ایوانوں میں کرنا چاہتی ہے، ایسے فیصلے جو انسانی اصولوں پر قائم ہوں، نہ کہ استعماریت و سامراجیت پر۔