Juraat:
2025-11-03@14:36:11 GMT

 مظلوم کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی!

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

 مظلوم کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی!

 

مظلوم کشمیری مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے 5 ؍فروری کا دن امسال بھی بھرپور جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے۔

حسب روایت اس سال بھی پاکستان ،آزاد کشمیر اور دنیا میں جہاں جہاں بھی پاکستانی اورکشمیری آباد ہیں جلسوں، کانفرنسوں، ریلیوں اور سیمینارز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ ان پروگراموں میں تحریک آزادی کشمیر میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ کشمیری عوام کی حمایت کرتے رہنے کے عزم کابھی اعادہ کیا جارہاہے۔

یومِ یک جہتیِ کشمیر ایک تاریخی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، کشمیر کی آزادی کی تحریک کے لیے مسلح جدوجہد سے آج تک کا تجزیہ کریں تو کیاجائے تو پتہ چلے گا کہ اگرچہ اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے، لیکن یہ مسئلہ پہلے سے زیادہ گمبھیر صورت اختیار کرچکا ہے ۔

5؍ فروری 1990 اور آج 5 ؍فروری2025، یہ پورے 35 سال کا عرصہ بنتا ہے۔5؍ اگست 2019کے واقعے کے بعد تو صورتِ حال یکسر بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اب ہمارے سامنے ایک ایسی نسل ہے جس کی ترجیح ماضی کی نسبت کچھ مختلف ہے۔

آج دنیا میں ٹیکنالوجی کا راج ہے اور جنگیں بھی اسی کی مدد سے لڑی جاتی ہیں۔ کشمیری قوم کا تحریک ِحریت کے دوران میں جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی آج تک نہیں ہوسکی، اور اس وجہ سے تحریک ِ حریت بھی بہت متاثر ہوئی ہے اور دنیا بھی بدل چکی ہے۔

آج مقبوضہ کشمیر میں ظلم کے جو پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور جس طرح وہاں بھارت کی فوجیں قابض ہیں، ان کے خلاف پاکستان نے ہمیشہ اپنے بھائی بہنوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کی ہے۔5 ؍فروری کو یوم یکجہتی منانے کا مقصد اس عزم کااظہار ہے کہ پاکستان کی کشمیر کاز کے ساتھ وابستگی اٹل ہے، اور ایک دن کشمیر ضرور آزاد ہوگا، کشمیری عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور وہ آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں گے۔

یہ صحیح ہے کہ پاکستان کو سنگین سیاسی اور معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی اور ان کی جدوجہد آزادی کی حمایت پاکستان کی کسی ایک جماعت کی جانب سے نہیں ہے بلکہ یہ حمایت پوری قوم کی جانب سے ہے اور کوئی بھی پارٹی برسراقتدار کیوں نہ آئے وہ بھارتی حکومت کیلئے انتہائی نرم گوشہ رکھنے اور اپنی ذاتی تقریبات میں بھارتی حکام اور تاجروں کو مدعو کرنے کو باعث فخر سمجھنے کے باوجود کشمیر کاز کی حمایت سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔

اگرچہ مقبوضہ کشمیر کو غلام بنائے رکھنے کیلئے بھارتی حکومت کے ہتھکنڈے جاری ہیں لیکن، ایک بہتری یہ آئی ہے کہ 5؍ اگست 2019 کی دھند کے اثرات ختم ہوچکے ہیں۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جلد بھارت کا جبر انجام کو پہنچے گا۔ یہ حقیقت تو پوری عالمی برادری کے لیے اظہرمن الشمس ہے کہ کشمیری عوام نے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں کی قربانیاں دے کر اور بھارتی فوجوں کے ظلم و جبر کا ہر ہتھکنڈہ برداشت کرتے ہوئے استقامت کے ساتھ جاری رکھی ہوئی ہے، اور گزشتہ 76 برس کے دوران کسی ایک مرحلے پر بھی ان کے پائے استقلال میں کبھی لرزش آئی نہ انہوں نے کبھی اپنے کاز پر کسی مفاہمت کا سوچا، مگر بھارت کی ہندو لیڈرشپ کی نیت میں شروع دن سے ہی فتور تھا اور ہے، اس میں کلیدی کردار بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا ہی تھا جنہوں نے ایجنڈے کے تحت کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کرکے اس کے غالب حصے پر تسلط جمالیا جس کا اصل مقصد پاکستان کو کمزور کرنا تھا۔

نہرو نے ہی کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا اور اپنے ہی پیدا کیے گئے تنازع کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیاتھا، تاہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی متعدد قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کا حقِ خودارادیت تسلیم کرتے ہوئے اپنے خصوصی ایلچی کی نگرانی میں مقبوضہ وادی میں استصواب کے اہتمام کی بھارت کو ہدایت کی، مگر نہرو نے اقوام متحدہ کے فورم پر استصواب کے اہتمام کا وعدہ کرنے کے باوجود اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف کیا اور بھارتی آئین کی دفعہ 370 میں ترمیم کرکے اور دفعہ 35 میں شق اے کا اضافہ کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا جس میں آزادی کی تڑپ رکھنے والے کشمیریوں کا جینا دوبھر کردیا گیا۔ نہرو نے خود کشمیریوں کو ان کا حق دلوانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن حقیقت اس کے قطعی برعکس ہے ،حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں کے حقوق غصب کرنے کی بنیاد نہرو نے ہی رکھی، جس پر اُن کے بعد آنے والی بھارتی حکومتیں بھی عمل پیرا رہیں اور کشمیریوں کی آزادی کی آواز دبانے کے لیے آج کے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سمیت کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

مودی سرکار تو پاکستان اور مسلم دشمنی کے ایجنڈے کے تحت کشمیریوں کی نسل کُشی اور انہیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی راہ پر گامزن ہے جس کے لیے مودی نے اپنے دوسرے دورِ حکومت کے آغاز ہی میں کشمیر کی خودمختار حیثیت والی آئینی شقیں ختم کراکے اسے 5؍ اگست 2019 کو باقاعدہ بھارتی اسٹیٹ یونین کا حصہ بنالیا اور اپنے اس جبری اقدام کے خلاف دنیا بھر میں اٹھنے والی کسی بھی آواز پر کان نہیں دھرے، جبکہ وہ اس حوالے سے سلامتی کونسل میں منظور کی گئی قراردادوں کو بھی خاطر میں نہیں لائے۔ مودی سرکار کے مقبوضہ وادی کو بھارت میں ضم کرنے کے اس جبری اقدام کو آج تقریباً2ہزار دن ہوچکے ہیں اور ابھی تک مقبوضہ وادی 9 لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں کے نرغے میں ہے جنہوں نے نقل و حمل، مواصلات اور انٹرنیٹ سروس سمیت ہر چیز بند کرکے کشمیریوں کو گھروں میں محصور اور ہر آزادی سے محروم رکھا ہوا ہے۔ اس کے باوجود بھارت کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں کرسکا، اور بھارتی جاری مظالم کے خلاف کشمیری عوام نے 26 جنوری کو یوم سیاہ منایا۔

مقبوضہ کشمیرکی کُل آبادی میں95 فی صد آبادی مسلمان ہے، لیکن بھارت وہاں مسلسل ڈیموگرافی تبدیل کررہا ہے، باہر سے ہندوؤں کو لاکر بسایا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھارت کے بدترین سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اور اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اقلیتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کے اعتبار سے سب سے محفوظ اور سازگار ملک ہے، جبکہ بھارت اس معاملے میں بدترین ملک ہے جہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی زندگیاں محفوظ ہیں نہ انہیں مذہبی آزادیاں حاصل ہیں۔ بھارت کے اس سلوک نے اُس کے مذہبی اقلیتوں کے ساتھ سلوک پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان نے ہمیشہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تعاون کے عزم کا اظہار کیا ہے جو بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کو کرتار پور صاحب، گردواروں اور ان کے دیگر مذہبی مقامات پر جانے کی سہولت دینے سے ظاہر ہوتا ہے۔ پاکستان سکھ اور ہندو یاتریوں کا یکساں طور پر گرم جوشی سے خیرمقدم کرتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ بھارت میں آج جنونی ہندو معاشرہ غالب آچکا ہے، وہاں انتہا پسند مودی سرکار کی سرپرستی میں آج ہندوتوا کو فروغ مل رہا ہے، اور ہندو انتہا پسند عملاً انسانیت کے قاتل بن چکے ہیں جنہوں نے مسلمان اقلیتوں کا ہی جینا دوبھر نہیں کیا، بلکہ بھارت میں آباد دوسری اقلیتوں اور دلت ہندوؤں کو بھی راندہ درگاہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مسلمان اقلیتوں کے ساتھ تو بھارت کی انتہا درجے کی مخاصمت ہے، کیونکہ وہ پاکستان کی
بھارت کی کوکھ سے تشکیل کے ناتے سے مسلمانوں کو اکھنڈ بھارت کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ اسی پس منظر میں بھارت نے اپنے ناجائز زیرِ تسلط کشمیر میں مسلمانوں کو گزشتہ 76 برس سے بدترین ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنا رکھاہے۔بھارت نے پاکستان کو دبائے رکھنے کی نیت سے ہی کشمیر پر اپنا تسلط جمایا اور تقسیم ہند کے ایجنڈے کے برعکس اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں ہونے دیا، جبکہ اس کے جنونی توسیع پسندانہ عزائم سے اس پورے خطے اور عالمی امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

اگر اقوام عالم کو دنیا کی بقاو ترقی مقصود ہے تو پھر بھارت کے ہاتھ روکنے کے لیے نمائندہ عالمی اداروں اور عالمی قیادتوں کو عملیت پسندی پر مبنی ٹھوس کردار ادا کرنا ہو گا۔ بھارت سرکار تو اکھنڈ بھارت کے جنون میں اقوام ِعالم کی سلامتی غارت کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیری عوام 5 جنوری کویوم حقِ خودارادیت مناتے ہیں، پاکستان میں اِس سال بھی یومِ حق خودارادیت اس تجدیدِ عہد کے ساتھ منایا جارہاہے کہ بھارتی تسلط سے نجات کے لیے جدوجہدِ آزادی کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 5 جنوری 194کو ایک قرارداد منظور کی جس میں رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا تھا، لیکن بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سلامتی کونسل کی اس قرارداد پر عمل درآمد نہیں کیا۔ کشمیری عوام نے اس بھارتی جبر و تسلط کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور وہ 27 اکتوبر 1947 کو کشمیر پر غیرقانونی بھارتی فوجی قبضے سے آج تک آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس جدوجہد میں کشمیری عوام جانی و مالی قربانیوں کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی درجن بھر قراردادوں پر عمل درآمد کرنا تو کجا، اس نے 5 اگست 2019کو آئین کی دفعات 370، اور 35-A کو حذف کرکے مقبوضہ وادی پر مکمل طور پر قبضہ کرلیا ہے۔ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں بھارت پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے۔ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ نہتے اور مظلوم کشمیری عوام گزشتہ 76 سال سے اپنی آزادی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ابھی حال ہی میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں پاکستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے بھارت کا گھناؤنا کردار بے نقاب ہوا ہے۔

بھارت پر امریکہ، کینیڈا اور دوسرے مغربی ممالک میں بھی ٹارگٹ کلنگ مہم چلانے کا الزام ہے جس کے باعث بھارت بین الاقوامی سطح پر سخت تنقید کی زد میں ہے اور اس معاملے میں امریکہ اور کینیڈا کے ساتھ بھارت کے سفارتی تعلقات متعدد بار خراب ہوچکے ہیں۔ ان ممالک کی جانب سے بھارت پر مختلف پابندیاں بھی عائد ہوچکی ہیں۔ حقائق و شواہد کی روشنی میں بھارت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ کینیڈا اور امریکہ میں بھارتی خفیہ ایجنسی نے سکھ رہنماؤں کو قتل کیا۔ اس سلسلے میں نئی دہلی میں ‘‘را’’ کے افسر وکاش یادیو نے نیویارک میں سکھ علیحدگی پسند رہنما پر قاتلانہ حملے کی ہدایات جاری کیں اور اس قتل کے لیے اپنے ایجنٹ کو ایک مقامی قاتل کی خدمات حاصل کرنے کی ہدایت کی۔

کینیڈین حکام کی جانب سے بھی بھارتی سفارت کاروں اور ‘‘را’’ کی دہشت گردی کو بے نقاب کیا جا چکا ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ بھارت اس خطے میں اپنے توسیع پسندانہ ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو ہمہ وقت آمادہ و تیار رہتا ہے۔ اس کا یہ ایجنڈا ہندو انتہا پسندی کے فروغ پر مبنی ہے۔ پاکستان کی سلامتی کو کسی بھی طریقے سے نقصان پہنچانے کا بھارتی ایجنڈا تو قیامِ پاکستان کے وقت ہی طے پا گیا تھا جس پر عمل کرنے میں بھارت کی کسی بھی حکومت نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز
کی دہشت گردی کا سلسلہ گزشتہ 76 سال سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور اب تک لاکھوں کشمیری اس بھارتی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

بھارت کے ہندو انتہا پسندانہ کلچر میں بھارت کے اندر بھی غیرہندو اقلیتوں کی زندگیاں اجیرن ہوچکی ہیں، بالخصوص مسلمانوں کو تو عملاً دیوار کے ساتھ لگایا جا چکا ہے جن پر ہندو انتہا پسندوں کے حملے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ بھارت کا یہ جنونی، انتہا پسند اور علاقائی و عالمی امن کے لیے سنگین خطرے کی گھنٹی بجانے والا چہرہ اقوام عالم میں مکمل بے نقاب ہوچکا ہے اور پاکستان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی بھارتی توسیع پسندانہ، دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ دراز ہوتا نظر آرہا ہے۔ اسی بنیاد پر کچھ عرصہ قبل ایک امریکی جریدے نے اپنی رپورٹ میں بھارت کو عالمی نمبر ون دہشت گرد ریاست قرار دیا تھا جس میں پاکستان، ایران، افغانستان اور سری لنکا کے علاوہ متعدد مغربی ممالک میں بھی بھارتی دہشت گردی کی وارداتوں کے ثبوت پیش کیے گئے، مگر توسیع پسندانہ عزائم میں بھارت کی سرپرستی کرنے والے امریکہ نے امریکی جریدے کی اس رپورٹ پر بھی اپنی آنکھیں دانستہ بند کیے رکھیں۔ آج بھارت اپنے قطعی غیرمحفوظ ایٹمی ہتھیاروں کے باعث بھی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرات پیدا کرچکا ہے، جبکہ اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت بھارت کینیڈا اور امریکہ سمیت دوسرے مختلف ممالک میں بھی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کرکے علاقائی اور عالمی امن کی تباہی کا اہتمام کرتا نظر آرہا ہے۔ اگر اقوام عالم کی جانب سے بھارت کے جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند نہ باندھا گیا تو اس کے ہاتھوں دنیا کی تباہی دیوار پر لکھی نظر آرہی ہے۔

پوری عالمی برادری خاص طورپر وسائل سے مالامال مسلم دنیا کے رہنماؤں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اورمقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو ان کا پیدائشی حق خود ارادیت دلانے کیلئے ہر سطح پر ان کا بھرپور ساتھ دینا چاہئے۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

جماعت اسلامی ہند کا بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر اظہار تشویش

ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے نئی دلی میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں ماہانہ پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند نے بھارت بھر میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے نئی دلی میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں ماہانہ پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے تین حالیہ واقعات کا ذکر کیا، مہاراشٹر میں ایک خاتوں ڈاکٹر کی خودکشی جس نے ایک پولیس افسر پر زیادتی کا الزام لگایا تھا، دلی میں ایک ہسپتال کی ملازمہ جسے ایک جعلی فوجی افسر نے پھنسایا تھا اور ایک ایم بی بی ایس طالبہ جسے نشہ دیکر بلیک میل کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ تمام واقعات بھارتی معاشرے میں بڑے پیمانے پر اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ انہوں نے بہار اسمبلی انتخابات میں نفرت انگیز مہم، اشتعال انگیزی اور طاقت کے بیجا استعمال پر بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات کا موضوع ریاست کی ترقی، صحت، امن و قانون اور تعلیم ہونا چاہے، الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔

پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ووٹ دینا صرف ایک حق نہیں بلکہ ایک ذمہ داری بھی ہے، یہ جمہوریت کی مضبوطی اور منصفانہ معاشرے کے قیام کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کا انتخاب ان کی کارکردگی، دیانت داری اور عوام مسائل جیسے غربت، بے روزگاری، تعلیم، صحت اور انصاف کی بنیاد پر کریں نہ کہ جذباتی، تفرقہ انگیز یا فرقہ وارانہ اپیلوں کی بنیاد پر۔ نائب امیر جماعت اسلامی نے بھارتی الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ بنانے کیلئے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد کرائے۔ بہار میں اسمبلی انتخابات 6 اور 11نومبر کو ہو رہے ہیں۔

پریس کانفرنس سے ایسوسی ایشن آف پروٹیکشن آف سوال رائٹس (اے پی سی آر) کے سیکرٹری ندیم خان نے خطاب میں کہا کہ دلی مسلم کشن فسادات کے سلسلے میں عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر بے گناہ طلباء کو پانچ برس سے زائد عرصے سے قید کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دراصل عدالتی عمل کے ذریعے سزا دینے کے مترادف ہے۔ ندیم خان نے کہا کہ وٹس ایپ چیٹس، احتجاجی تقریروں اور اختلاف رائے کو دہشت گردی قرار دینا آئین کے بنیادی ڈھانچے کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے غلط استعمال سے ایک جمہوری احتجاج کو مجرمانہ فعل بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے کی آزادی جمہوریت کی روح ہے، اس کا گلا گھونٹنا ہمارے جمہوری ڈھانچے کیلئے تباہ کن ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کے جیلوں میں بند کشمیری قیدیوں کو واپس لایا جائے، محبوبہ مفتی
  • اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ
  • جماعت اسلامی ہند کا بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر اظہار تشویش
  • بی جے پی حکومت کشمیری صحافیوں کو خاموش کرانے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، حریت کانفرنس
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘ کبھی تھا نہ کبھی ہوگا‘ پاکستانی مندوب
  • مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ
  • مقبوضہ کشمیر، 05 اگست 2019ء سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تیزی آئی
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
  • حریت کانفرنس کی طرف سے دو کشمیری ملازمین کی جبری برطرفی کی شدید مذمت
  • یوسف تاریگامی کا بھارت میں آزادی صحافت کی سنگین صورتحال پر اظہار تشویش