کراچی:

کراچی بچاؤ تحریک اور گجر،اورنگی اور محمود نالہ متاثرین نے کہا ہے کہ حکومت متاثرین کے مسائل حل کرنے کے بجائے نئے کمیشن بنا کر معاملے کو پیچیدہ بنارہی ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ گجرنالہ کے متاثرین کی فہرست فوری جاری کی جائے اور مسنگ آئی ڈیز کا مسئلہ حل کیا جائے۔ 

کراچی بچاؤ تحریک اور نالہ متاثرین نے ایک ہنگامی میٹنگ کی جس میں متاثرین کےاحتجاج کے نتیجے میں حکومت سندھ کی جانب سے بغیراقساط کے تعمیراتی معاوضے کی تقسیم کے اعلان کا خیرمقدم کیا گیا، تاہم معاوضے کی تقسیم کے طریقہ کار پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

کراچی بچاؤتحریک کے کنوینر خرم علی نیئر نے کہا کہ حکومت نے اب تک کرائے کی مد جو چیک دیے ہیں ان کی فہرست نہ تو متاثرین کے وکیل فیصل صدیقی کو، نہ ہی کراچی بچاؤ تحریک کو فراہم کی گئی اور نہ ہی میڈیا میں شائع کی گئی۔

6932 کے علاوہ تقریباً 2000 متاثرین جن کے گھر مسمار کیے گئے وہ مسنگ آئی ڈیز کے باعث ابھی تک معاوضے سے محروم ہیں، کمشنر آفس نے جو مسنگ آئی ڈیز کی فہرستیں مسترد کی ہیں، وہ ڈی سی آفس اور لینڈ سرویئر سے تصدیق شدہ تھیں،  اگر یہ فہرستیں غلط تھیں تو کمشنر آفس، ڈی سی آفس اور لینڈ سرویئر کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟

انہوں نے کہا کہ عدالت نے ایڈیشنل کمشنر 2 زنیرہ جلیل کو مسنگ آئی ڈیز کے مسئلے کے حل کے لیے فوکل پرسن مقرر کیا تھا، لیکن چند ہی دنوں میں ان کا تبادلہ کردیا گیا اور تمام مسنگ آئی ڈیز کی درخواستیں مسترد کردی گئیں۔

حکومت متاثرین کے مسائل حل کرنے کے بجائے نئے کمیشن بنا کر معاملے کو پیچیدہ بنارہی ہے، پہلے کرائے کے چیک ایک ادارے نے دیے، پھر دوسرے نے اور اب تعمیراتی رقم کی تقسیم  کسی اور کے سپرد کردی گئی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومتی اہلکار ہزاروں متاثرہ خاندانوں کی زندگیوں کو مذاق بنارہے ہیں۔

متاثرین کو چیک کے حصول کے لیے رشوت دینے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے، جبکہ وہ حکومت جو عوام کے ٹیکس پر چلتی ہے انہی عوام کو ذلیل و خوار کررہی ہے۔ 

کنوینرکراچی بچاؤ تحریک اور متاثرین نے مطالبہ کیا کہ:

1۔  6932 متاثرین کی فہرست فوری طور پر فراہم کی جائے، تاکہ معاوضہ شفاف طریقے سے تقسیم ہو۔

2۔ تعمیراتی معاوضے کی تقسیم کا واضح شیڈول جاری کیا جائے، جس میں ہر نالے کے ہر علاقے کے متاثرین کو چیک ملنے کی تاریخ دی جائے۔

3۔ متاثرین سے غیرضروری دستاویزات طلب نہ کی جائیں، شناختی کارڈ یا پچھلے چیک کی کاپی پر رقم جاری کی جائے۔ 

4۔ تعمیراتی رقم کے چیکس کی تقسیم کا عمل منظم ہو اور ٹوکن سسٹم کے ذریعے کیا جائے تاکہ بدنظمی اور دھوکہ دہی سے بچاجاسکے۔

5۔ بزرگوں اور خواتین کیلیے علیحدہ کاؤنٹرز بنائے جائیں تاکہ انہیں مشکلات کا سامنا نہ ہو۔

6۔ متاثرین جو انتقال کرگئے یا بیرون ملک مقیم ہیں ان کے اہل خانہ کو پاور آف اٹارنی کے ذریعے رقم فراہم کی جائے۔

7۔ جس کو بھی معاوضہ دیا جائے اسے سرکاری رسید فراہم کی جائے اور تقسیم کے بعد متاثرین کی مکمل فہرست جاری کی جائے۔ 

8۔ ایفی ڈیوٹ کے ذریعے متاثرین سے غیرقانونی شرائط نہ لی جائیں جیسے کہ ’’ وہ آئندہ کسی معاوضے کا مطالبہ نہیں کریں گے‘‘۔ پلاٹ ابھی دیے ہی نہیں اگر وہ 2 سال بعد دیے گئے تو مہنگائی کے سبب یہ رقم ناکافی ہوگی۔

9۔ 6 ماہ کے اندر پلاٹوں کی الاٹمنٹ مکمل کی جائے بصورت دیگر متاثرین اضافی معاوضے کا مطالبہ کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔

10۔ مسنگ آئی ڈیز کے مسئلے کو فوری حل کیا جائے، ورنہ ان تمام افسران کو برخاست کیا جائے جنہوں نے متاثرین کی تصدیق شدہ درخواستوں کو خارج کیا ہے۔ 

11۔ تعمیراتی رقم کی ادائیگی کیلیے ان ہی طریقہ کار اور اداروں کو استعمال کیا جائے جن کو عدالت عظمیٰ کی ہدایات کے مطابق کرائے کے چیک کی تقسیم کے دوران بروئے کار لایا گیا تھا۔ 

اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو کراچی بچاؤ تحریک سخت احتجاج کرے گی اور عدالت میں حکومت اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی دائر کرے گی۔ جب تک ایک بھی متاثرہ فرد کو اس کا حق نہیں ملتا، ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مسنگ آئی ڈیز متاثرین کے متاثرین کی کی فہرست کیا جائے کی تقسیم تقسیم کے فراہم کی جاری کی کی جائے

پڑھیں:

عید الاضحیٰ پر تقسیم گوشت اور ہماری ذمے داریاں

ہر سال کی طرح اِمسال بھی عید الاضحیٰ پورے تزک و احتشام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ عیدالاضحٰی کی بنیاد ایثار ومحبت اور اطاعتِ الٰہی پر ہے۔

یہ دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللّہ سے لا زوال محبت و اطاعت کی یاد تازہ کرتا ہے کہ کیسے انہوں نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کے لیے اپنے نورِنظر، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان تک کی پروا نہیں کی اور کیسے ان کے پیارے بیٹے نے اللّہ کی اطاعت اور والد کی محبت میں قربان ہونا باعثِ فخر سمجھا۔ پھر اللّہ پاک نے بھی ان کے اِخلاص، نیک نیتی، تابع داری کے صلے میں یہ سنت قیامت تک کے لیے ہر صاحبِ استطاعت پر واجب کردی۔

 قربانی در اصل اس بات کا اعادہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے رب کی رضا کی خاطر ہر وقت جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، راہِ خدا وندی میں اپنی محبوب ترین شئے یا جان دینے سے جھجھکتا ہے، نہ ڈرتا ہے۔

قرآنِ پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللّہ تعالٰی کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اسے صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ (سورۃ الحج، آیت نمبر 37)

لیکن ہمارے ہاں اکثر لوگ عیدِقرباں پر پورے جوش و خروش سے سنتِ ابراہیمی پر عمل تو کرتے ہیں، مگر عیدالاضحٰی کا حقیقی مفہوم و مقصد نہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ عیدِقرباں کا مقصد صرف جانوروں کی قربانی کر کے گوشت جمع کرنا ہی ہے، جب کہ حقیقتاً اس تہوار کی اصل روح ’’تزکیہ نفس‘‘ ہے۔ نہ جانے کیوں ہم یہ فراموش کردیتے ہیں کہ دینِ اسلام میں ہر عمل کی بنیاد صرف اور صرف نیت پر ہے۔ جس طرح بنا نیت کے نماز قبول نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح نمودونمائش کی خاطر کی گئی قربانی بھی اللّہ کے یہاں مقبول نہیں کیوںکہ رب تعالیٰ کی نظر کسی کے ظاہر پر نہیں، باطن پر ہوتی ہے۔

وہ بندوں کی شکل و صورت، مال و دولت نہیں دیکھتا، ان کے دلوں میں چھپی اچھائی دیکھتا ہے۔ یعنی، اگر آپ لاکھوں روپے مالیت کے جانور قربان کرکے بھی غرباء، مساکین کو ان کا حصہ نہیں دیتے، تو یاد رکھیں اللہ کو ہماری عبادتوں کی ضرورت ہے، نہ قربانی کی۔

عیدِقرباں کو ’’نمکین عید‘‘ بھی کہا جاتا ہے کہ اس عید پر خوب دعوتیں ہوتی ہیں، طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیں اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں، لیکن ذرا سوچیں! کیا بڑی عید کا مطلب صرف ذبیحہ کرکے دعوتیں کرنا ہے؟ در حقیقت ہمارا یہ تہوار تو غریبوں، ناداروں کی خصوصی مدد کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر صرف اپنے ہم پلہ گھرانوں کی دعوتیں کرنا، ان سے میل جول بڑھانا اور غریب رشتے داروں کو نظرانداز کرنا تو ویسے بھی انتہائی غیراخلاقی حرکت اور اسلامی احکامات کے منافی عمل ہے۔

قربانی کرنے سے قبل قربانی کی اصل روح کو سمجھنا ہوگا کہ قربانی کی اصل روح کیا ہے؟

قربانی کا لفظ قربان سے نکلا ہے۔ عربی زبان میں قربانی اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اللّہ تعالٰی کا قرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا صدقہ و خیرات۔ لیکن عرف عام میں یہ لفظ جانور کے ذبیحہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ اگر عیدالاضحٰی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحٰی کا مفہوم باقی نہیں رہے گا۔

قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسان کی تاریخ۔ قربانی ان اسلامی شعائر میں سے ہے جن کی مشروعیت اس وقت سے ہے جب سے حضرت آدم علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے اور دنیا آباد ہوئی اور پھر امت محمدی ﷺ تک تقریباً ہر ملت کے ماننے والے اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔ ہر امت میں اللّہ کے نام پر قربانی کرنا مشروع رہا ہے، البتہ سابقہ امتوں اور امت محمدی ﷺ کے درمیان قربانی میں فرق یہ ہے کہ سابقہ امتوں کی قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمانی آگ اسے کھا جاتی تھی، قربانی کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں تھی، جب کہ امت محمدی ﷺ کو اللّہ تعالٰی کی طرف سے یہ خصوصی انعام حاصل ہے کہ ان کے لیے قربانی کا گوشت حلال کردیا اور اس کے کھانے کی اجازت دے دی گئی۔

 فلسفہ قربانی یہ ہے کہ بندہ اپنی ہر خواہش کو اپنے رب کے حکم اور مرضی و منشا پر قربان کر دے۔ ہر سال قربانی کے ذریعہ ہم گویا عہد کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی یادگار میں مضمر اس پیغام کو اپنی زندگیوں میں بسانے کی کوشش کریں گے جو خود کو سپرد کر دینے اور قربانی کو محض جانور ذبح کرنے تک محدود نہ رکھنے سے عبارت ہے۔

 عیدقرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لئے فقط جانوروں کی قربانی ضروری نہیں بلکہ ساتھ ساتھ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات، غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کی قربانی ضروری ہے۔

عیدِقرباں کے موقع پر سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے ہم اللّہ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں اور اپنے پڑوسی، رشتے دار اور دوست و احباب میں قربانی کا گوشت تقسیم کرتے ہیں۔ اگر اللّہ تعالٰی نے ہمیں قربانی کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطا کی ہے تو ہم نمود و نمائش سے اجتناب برتتے ہوئے عین اسلامی طریقہ پر گوشت کی تقسیم کی پوری کوشش کریں۔

اسلامی طریقے کے مطابق قربانی کا گوشت تین حصوں میں منقسم کرکے دو حصے صدقہ کرنا اور ایک حصہ ذاتی استعمال کے لیے بچانا مستحب اور افضل عمل ہے۔ ویسے فتاویٰ کی کتابوں میں درج ہے کہ اگر کوئی ایسا خاندان قربانی کر رہا ہے، جو مالی طور پر مستحکم نہیں یا غریب ہے تو وہ زیادہ گوشت رکھ سکتا ہے اور ضرورت کم ہو تو زیادہ صدقہ بھی کرسکتا ہے، ویسے ہونا تو یہی چاہیے کہ جتنا ہوسکے غرباء، مساکین کو گوشت دیا جائے، کیوں کہ امیر تو سارا سال ہی گوشت کھاتے ہیں، لیکن غریب اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔

 اگر آپ کے زیادہ گوشت دینے سے وہ بھی عید کے ایام اور اس کے بعد کچھ روز تک پیٹ بھر کر کھانا کھاسکیں گے، تو زیادہ اجر و ثواب اور اللّہ تعالٰی کی خوشنودی حاصل ہوگی۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے ایک بکری ذبح کرکے صدقہ کی، تو نبی ﷺ نے دریافت کیا، اس (بکری کے گوشت) سے کچھ بچا ہے؟ میں نے عرض کیا صرف ایک بازو بچا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا بازو کے سوا باقی سب بچ گیا ہے۔ یعنی نبی ﷺ نے اپنے اس فرمان سے کل امتِ مسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ جو تقسیم ہوگیا، اسے ضایع مت سمجھو کہ درحقیقت وہی تو کام آئے گا جو اللّہ کی راہ میں خرچ ہو، جو اس کی مخلوق کے کام آئے، وہی مال و دولت اخروی زندگی میں ہماری کام یابی کا ذریعہ بنتا ہے۔

علاوہ ازیں، گذشتہ چند سالوں سے قربانی کے جانوروں کی نمود نمایش کا رجحان بھی خوب بڑھ گیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ با قاعدہ شامیانے اور برقی قمقمے لگائے جاتے ہیں، جانوروں کو خوب سجایا جاتا ہے، ان کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیں اور پھر لوگوں کا ایک جمِ غفیر انہیں دیکھنے جاتا ہے۔ ان کے ساتھ تصاویر، سیلفیز لی جاتی ہیں۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ فلاں بیل اتنے لاکھ کا ہے، فلاں بکرا بادام کھاتا ہے، فلاں گائے اتنی مہنگی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس نمائش سے نہ صرف لوگوں میں حسد، جلن کی بیماری پروان چڑھتی ہے، بلکہ مالی طور پر کم زور لوگوں کی دل آزاری بھی ہوتی ہے، بالخصوص بچوں میں احساسِ کم تری پیدا ہوتا ہے۔ تمام احادیث کی کتب کا آغاز نبی ﷺ کی معروف ترین حدیث، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، سے ہوتا ہے۔ یعنی، جب تک آپ کی نیت صاف نہیں ہوگی اور دل اطاعتِ الٰہی کے جذبے سے سر شار نہیں ہوگا، تب تک کوئی عمل قبول ہو ہی نہیں سکتا تو جس عمل میں اِخلاص نہ ہو، وہ چاہے کوہِ طور کے برابر ہو، تب بھی اللّہ کے نزدیک ایک چیونٹی کی جسامت کے برابر بھی نہیں۔

صحت مند اور خوبصورت جانور اگر صرف اللہ کی بارگاہ میں قربانی کی قبولیت کے جذبے کے تحت خریدے جائیں تو اس میں قطعاً مضائقہ نہیں، اسی طرح قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ مستحق افراد تک پہنچانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

ہم میں بہت سے لوگ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو خالص گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جن کے پاس تیل مسالا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا ذائقہ نہیں لے سکتے۔ اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقہ جاریہ کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً انہیں دگنی خوشی ملے گی اور وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی مسرتوں کا لطف اٹھا پائیں گے۔

آج بہت سے لوگ گوشت ریفریجریٹر میں محفوظ کرکے کئی دنوں تک استعمال کرتے ہیں، جب کہ افضل عمل یہ ہے کہ قربانی کا گوشت قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والوں میں تقسیم کیا جائے۔ غریبوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ فریضہ قربانی ادا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس بہانے غریب بھی گوشت کھا سکیں۔ اس معاملے میں قرابت داروں کو بھی یاد رکھیں کہ اسلام میں صلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اللّہ پاک ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اس کا بہترین اجر نصیب فرمائے۔ (آمین یارب العالمین)

متعلقہ مضامین

  • مقبول ترین اسمارٹ فونز کی فہرست میں سام سنگ کی حکمرانی برقرار
  • پاکستان کے حلوہ پوری اورسری پائے دنیا کے 100 بہترین ناشتوں کی فہرست میں شامل
  • بلاول بھٹو: بھارت سے مسائل کا واحد حل مسئلہ کشمیر کا حل ہے
  • عید الاضحیٰ پر تقسیم گوشت اور ہماری ذمے داریاں
  • پی سی بی سینئر انٹر ڈسٹرکٹ کرکٹ ٹورنامنٹ کیلئےزونل ٹیموں کاانتخاب جاری
  • ملک بھر میں عیدالاضحیٰ کا دوسرا روز، گوشت کی تقسیم اور دعوتوں کا سلسلہ جاری
  • آلائشوں کیلئے 1 کروڑ 20 لاکھ شاپر تقسیم کیے ہیں: عظمیٰ بخاری
  • اسلام آباد میں عید الاضحیٰ کی نماز کے اوقات کا اعلان فول پروف سیکیورٹی انتظامات مکمل،فہرست دیکھئے
  • انجمن امامیہ گلگت نے نماز عید کے اجتماعات کا شیڈول جاری کر دیا
  • کراچی، عیدالاضحیٰ پر پیشہ ور قصاب ملنا محال، ہوشربا معاوضے سے شہری پریشان