غزہ جنگ بندی کے بعد اسرائیلی بم باری تھمنے سے جہاں فلسطینیوں کو سانس لینے کا موقع ملا ہے ، وہاں لازمی طور پر صہیونی حکومت بھی اپنی پالیسیوں کی تجدید اور اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ حماس نے طوفان الاقصیٰ کے نام سے جس آپریشن کاآغاز کیا تھا اس کی ایک بڑی وجہ قبلہ اول کی حفاظت کے ساتھ حرمین شریفین کو صہیونی پنجوں میں جکڑنے سے محفوظ رکھنا تھا۔ معاہدہ ابراہیمی کے تحت عرب ممالک اس سرعت سے اسرائیل کی طرف لپک رہے تھے کہ بعید نہیں تھا کہ سعودی عرب اسرائیلی وفد کو ارض مقدس کے دورے کی دعوت دے کر صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیتا۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے اثرات فلسطین کے حق میں کتنے ہی خوں ریز کیوں نہ ہو، لیکن اس کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ اس نے بلی کو تھیلے سے باہر آنے پر مجبور کردیا اور اسرائیل نے جھنجلا کر6جنوری کو گریٹر اسرائیل کا نقشہ جاری کردیا۔ سعودی عرب، فلسطین، متحدہ عرب امارات اور عرب لیگ نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے متنازع نقشہ جاری کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا،جس میں فلسطین، شام، لبنان، اور اردن کے کچھ حصوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ سعودی عرب نے اسے انتہا پسندانہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات اسرائیل کے قبضے کو مستحکم کرنے، ریاستوں کی خودمختاری پر کھلم کھلا حملے جاری رکھنے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔ فلسطین کے ساتھ اردن نے بھی متنازع نقشے کی مذمت کی ۔

اسرائیل کا دعویٰ کیا ہے؟
اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے شیئر کیے گئے نقشے کے ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ اسرائیل تقریباً 3000 سال پہلے قائم ہوا اور اس کے پہلے 3بادشاہوں میں شاہ شاؤول، شاہ داؤد اور شاہ سلیمان شامل تھے جنہوں نے مجموعی طور پر 120 سال تک حکمرانی کی۔ ان کے دور میں یہودی ثقافت، مذہب اور معیشت میں ترقی ہوئی۔اس پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ931 قبل مسیح میں شاہ سلیمان کی وفات کے بعد داخلی تنازعات اور بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے مملکت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ شمال میں مملکت اسرائیل اور جنوب میں مملکت یہودہ۔ شمالی مملکت اسرائیل 209 سال بعد آشوریوں کے ہاتھوں (722 قبل مسیح) اور جنوبی مملکت یہودہ 345 سال بعد بابل کے بادشاہ نبوکدنضر کے ہاتھوں (568 قبل مسیح) ختم ہو گئی۔یہ تقسیم صدیوں تک سیاسی تنازعات کا باعث بنی لیکن جلاوطنی کے دوران یہودی قوم اپنی ریاست کی بحالی کی خواہاں رہی جس کا قیام 1948 ء میں ریاست اسرائیل کے طور پر ہوا جو آج مشرق وسطیٰ کی واحد جمہوری ریاست ہے۔

گریٹر اسرائیل یا دی پرومسڈ لینڈ (ارضِ موعود)
دی پرومسڈ لینڈ بائبل کی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے وہ سرزمین جو خدا نے اسرائیل کے عوام کو دی تھی۔ اس کا ذکر خاص طور پر بائبل کے نسخوں میں ملتا ہے اور یہ تصور اسرائیل کے مذہبی عقیدے کا حصہ ہے۔ گریٹر اسرائیل کا تصور بائبل کے اس وعدے کی بنیاد پر تشکیل پایا ،جس کا مقصد ایک ایسی ریاست جا قیام ہے جو موجودہ اسرائیل کی سرحدوں سے کہیں زیادہ وسیع ہو۔ اس میں اسرائیل کے مقبوضہ فلسطینی علاقے، اردن، لبنان، شام، اور عراق کے کچھ حصے شامل ہیں،جن کی حدود دریائے نیل (مصر) سے نہر فرات (ترکیہ) تک پھیلتی ہیں۔اسرائیل میں بہت سے یہودی اس خطے کو ’ایرٹز اسرائیل‘ یا ’لینڈ آف اسرائیل‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گریٹر اسرائیل کا تصور محض ایک شدت پسند یاانتہاپسندتصور ہے جو اسرائیل کے مذہبی رہنماؤں اور انتہاپسندوں کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے جاری کیا گیا ہے۔ دوسری جانب کچھ لوگ اس تصور کو ایک ٹھوس سیاسی منصوبہ سمجھتے ہیں، جس کے ذریعے اسرائیل عالمی سطح پر اپنے جغرافیائی اثر و رسوخ کو بڑھانا چاہتا ہے۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت انتہاپسند مذہبی سیاست دانوں پر مشتمل ہے ،جو پوری شدت سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ گریٹر اسرائیل کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔ ان کے خیال میں یہ نہ صرف فلسطین کے لیے ایک ممکنہ حل ہو گا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی فوجی اور اقتصادی حیثیت کو بھی مستحکم کرے گا۔

اخبار ٹائمز آف اسرائیل میں ’زایونزم 2.

0: تھیمز اینڈ پروپوزلز آف ریشیپنگ ورلڈ سیویلائزیشن‘ کے مصنف ایڈرئن اسٹائن لکھتے ہیں کہ گریٹر اسرائیل کا مطلب مختلف گروہوں کے لیے مختلف ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ اسرائیل میں اور ملک سے باہر رہنے والے یہودیوں کے لیے گریٹر اسرائیل کی اصطلاح کا مطلب مغربی کنارے (دریائے اردن) تک اسرائیل کی خودمختاری قائم کرنا ہے۔ اس میں بائبل میں درج یہودیہ، سامرہ اور ممکنہ طور پر وہ علاقے شامل ہیں جن پر 1948 ء کی جنگ کے بعد قبضہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس میں سینائی، شمالی اسرائیل اور جولان کی پہاڑیاں شامل ہیں۔اس حوالے سے مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والی اور واشنگٹن میں مقیم پالیسی تجزیہ کار تقی نصیرات کہتی ہیں کہ گریٹر اسرائیل کا تصور اسرائیلی معاشرے میں رچا بسا ہے اور حکومت سے لے کر فوج تک اسرائیلی معاشرے کے بہت سے عناصر اس کے علم بردار ہیں۔ اسرائیل بائبل میں درج حوالوں اور تاریخ اعتبار سے ان زمینوں کا حق دار ہے جو نہ صرف دریا سے سمندر تک، بلکہ دریا سے دریا تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یعنی دریائے فرات سے دریائے نیل تک اور ان کے درمیان تمام علاقے۔ اگرچہ گریٹر اسرائیل کے تصور کے پیچھے اصل خیال یہی ہو سکتا ہے لیکن آج کے اسرائیل میں ایک زیادہ حقیقت پسندانہ سوچ یہ ہے کہ اس میں اسرائیل کی سرحدوں سے باہر کے وہ علاقے بھی شامل ہیں جن پر اس نے طویل عرصے سے قبضہ کر رکھا ہے یعنی مغربی کنارے کے علاقے، غزہ اور جولان کی پہاڑیاں۔

اس تناظر میں اسرائیلی مصنف ایوی کے انٹرویو کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے،جو گزشتہ برس بہت زیادہ وائرل ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ایک دن آئے گا جب ہماری سرحدیں لبنان سے لے کر سعودی عرب کے عظیم صحراؤں سے ہوتی ہوئی بحیرہ روم سے لے کر نہرِ فرات تک پھیلی ہوں گی۔فرات کے دوسری جانب کرد ہیں جو ہمارے دوست ہیں۔ ہمارے پیچھے بحیرہ روم ہے ، لبنان کو اسرائیل کے تحفظ کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم مکہ اور مدینہ اور طورِ سینا پر بھی قبضہ کریں گے اور ان جگہوں کو پاک کریں گے۔‘‘

گریٹر اسرائیل پر امریکا اور یورپ کا ردعمل
اگر اسرائیل نے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا، تو عرب ممالک کی طرح یورپ کا ممکنہ ردعمل بھی سخت ہوگا۔ فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کو بھی مظالم اور انتہاپسندی کا نشانہ بنائے جانے کے باعث یورپی ممالک اسرائیل کی موجودہ پالیسیوں پر تنقید کر چکے ہیں۔ گریٹر اسرائیل کے تصور کو عملی شکل دینے کے نتیجے میں عالمی سطح پر اسرائیل کی تنہائی بڑھ سکتی ہے۔دوسری جانب اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی امریکا اسرائیل کے اقدامات کو اپنی سلامتی کے مفادات کے مطابق دیکھتا ہے۔ صدر جوبائیڈن کے دور میں عالمی میڈیا پر فریقین میں اختلافات کی کچھ نہ کچھ خبریں چلتی رہتی تھیں، تاہم صدر ٹرمپ تو پہلے ہی صہیونیت نواز بالفاظ دیگر گریٹر اسرائیل کے علم بردار ہے ہیں۔ 2017 میں ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیاتھا، جس سے یہ تاثر بڑھا کہ اسرائیل اپنے قدیم اورمقدس علاقے کو اپنی مکمل سرزمین کے طور پر ماننے کے لیے تیار ہے۔ اس دوران سب سے زیادہ مغربی کنارے میں نئی یہودی آبادکاریوں کی اجازت دی گئی تھی،جسے عالمی سطح پر گریٹر اسرائیل کے نظریے کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے پیش رفت قرار دیا جاتا رہا تھا۔ صدر ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل اسرائیل کا ببانگ دہل گریٹر اسرائیل کے نقشے کو پیش کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ دونوں عالمی طاقتیں اب معاہدہ ابراہیمی اور مذاکرات سے آگے بڑھ کر طاقت کے زور پر دی پرومسڈ لینڈ یا گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل کی کوشش کریں گی۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: میں اسرائیل اسرائیل میں اسرائیل کی اسرائیل کے شامل ہیں کیا گیا کے ساتھ ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

  راولپنڈی میں  بڑی تباہی کا منصوبہ ناکام ، خطرناک دہشت گرد گرفتار

ویب ڈیسک:  راولپنڈی میں  بڑی تباہی کا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا۔ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) اور حساس ادارے نے کامیاب خفیہ کارروائی کے دوران فتنہ الخوارج سے تعلق رکھنے والا انتہائی خطرناک دہشت گرد گرفتار کر لیا۔ دہشت گرد کے قبضے سے بارودی مواد، ہینڈ گرنیڈ اور ڈیٹونیٹر برآمد کر لیے گئے۔

 ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق گرفتار دہشت گرد حساس مقامات کی ریکی مکمل کر چکا تھا اور کسی بڑے حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا،بتایا گیا ہے کہ ملزم متعدد بار افغانستان جا کر دہشتگردی کی تربیت حاصل کر چکا ہے اور فتنہ الخوارج کے ایک اہم کمانڈر کے ساتھ رابطے میں تھا۔

 دریائے چناب میں پانی کی سطح بلند, الرٹ جاری 

 دہشت گرد کو راولپنڈی کے ایک علاقے سے گرفتار کیا گیا جہاں وہ کارروائی کے لیے تیاری میں مصروف تھا۔ ترجمان کے مطابق دہشت گرد نے چند روز قبل حساس مقامات کی ویڈیو سوشل میڈیا پہ وائرل کی تھی۔

 گرفتاری کے بعد فوری طور پر سی ٹی ڈی نے مقدمہ درج کر کے مزید تفتیش شروع کر دی ہے، جبکہ سیکیورٹی ادارے اس کے نیٹ ورک اور سہولت کاروں کے بارے میں بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بی جے پی نے پورے ملک میں الیکشن چوری کا منصوبہ بنا لیا ہے، کانگریس
  • سندھ میں 21 لاکھ گھر بنانے کا منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہے: شرجیل میمن
  • کیا پاکستان کے یہ اسٹریٹیجک منصوبے مکمل ہو سکیں گے؟
  • ٹرمپ غزہ میں مظالم کی پشت پناہی کر رہا ہے جبکہ حکمرانوں نوبل انعام کیلئے نامزد کردیا ہے، حافظ نعیم
  •   خواب ہے سائلین اعتماد کے ساتھ حصول انصاف کے لیےعدالت آئیں : چیف جسٹس
  • غزہ کو بھوکا مارنے کا منصوبہ، مجرم کون ہے؟
  •   راولپنڈی میں  بڑی تباہی کا منصوبہ ناکام ، خطرناک دہشت گرد گرفتار
  • بی ایم ڈبلیوگاڑیوں کے خریداروں کے لیے خوشخبری! قیمتوں میں لاکھوں کی کمی
  • ملکی مسائل کے حل کیلئے گریٹر ڈائیلاگ وقت کی ضرورت ہے، حافظ نعیم
  • گریٹر ڈائیلاگ ضرورت، جب بھی آئین سے تجاوز ہوا مسائل بڑھے: حافظ نعیم