چیمپیئنز ٹرافی اسکواڈ میں شامل آسٹریلوی کھلاڑی کا فوری ریٹائرمنٹ کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
کراچی:
آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 کے اسکواڈ میں شامل آسٹریلیا کے بیٹںگ آل راؤنڈر مارکس اسٹونس نے فوری طور پر ون ڈے فارمیٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرکے سب کو حیران کر دیا۔
پاکستان میں 19 فروری سے شروع ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی کے لیے مارکس اسٹونس کو آسٹریلیا کے 15 رکنی اسکواڈ میں شامل کیا گیا تھا تاہم انکی فوری طور پر ریٹائرمنٹ کے بعد آسٹریلوی آل راؤنڈر ایونٹ سے باہر ہوگئے ہیں۔
آسٹریلیا کو اب چیمپیئنز ٹرافی 2025 کے اسکواڈ میں ان کا متبادل تلاش کرنا ہوگا۔
ون ڈے سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے مارکس اسٹونس کا کہنا تھا کہ ’’میرے لیے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا تاہم یہی صحیح وقت ہے کہ ون ڈے فارمیٹ کو خیرباد کہہ دوں۔‘‘
مزید پڑھیں؛ کمنز کی انجری! آسٹریلیا نے نئے کپتان کی تلاش شروع کردی
انہوں نے مزید کہا کہ میرے لیے آسٹریلیا کے لیے ون ڈے کرکٹ کھیلنا ایک ناقابل یقین سفر رہا اور میں ٹیم کے ساتھ ہر لمحے کا شکر گزار ہوں۔ اپنے ملک کی نمائندگی کرنا میرے لیے اعزاز تھا جس کی میں ہمیشہ قدر کروں گا۔
مارکس اسٹونس نے یہ بھی کہا کہ ’’پاکستان میں چیمپیئنز ٹرافی کے سلسلے میں جانے والے اپنے ہم وطن کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔‘‘
واضح رہے کہ ون ڈے کرکٹ کو خیرباد کہنے والے آسٹریلیا کے 35 سالہ آل راؤنڈر ٹی20 فارمیٹ میں ملک کی نمائندگی کرتے رہیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیمپیئنز ٹرافی مارکس اسٹونس ریٹائرمنٹ کا اسکواڈ میں سٹریلیا کے ا سٹریلیا
پڑھیں:
چند دنوں میں 29 فلسطینی بچے اور بزرگ بھوک سے زندگی کی بازی ہار گئے، رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مقبوضہ بیت المقدس: غزہ کی پٹی ایک بار پھر انسانی بحران کی بدترین صورت اختیار کر چکی ہے جہاں خوراک کی شدید کمی کے باعث درجنوں معصوم بچے اور بزرگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غذائی قلت کی صورت حال پچھلے چند ہفتوں کے دوران نہ صرف سنگین ہو چکی ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے فلسطینی عوام خاص طور پر بچے اور ضعیف افراد براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
خبر رساں اداروں کے مطابق عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ مہینے میں صرف چند دنوں کے اندر اندر 29 فلسطینی شہری، جن میں اکثریت بچوں اور ضعیف افراد کی تھی، بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
یہ المناک اعداد و شمار ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب اسرائیل کی جانب سے امدادی سامان کی رسائی پر شدید اور سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان پابندیوں کے باعث نہ صرف خوراک، بلکہ طبی سہولیات کی فراہمی بھی متاثر ہے اور کئی اہم مراکز جن میں شدید متاثرہ بچوں کا علاج کیا جاتا تھا، اب بند ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ اور عالمی امدادی اداروں کی جانب سے جاری کردہ ’’نیوٹریشن کلسٹر‘‘رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 5سال سے کم عمر کے بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ مئی کے وسط میں کیے گئے ایک تازہ سروے کے مطابق غزہ میں 5.8 فیصد بچے ایسی حالت میں پائے گئے جو نہ صرف ان کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے بلکہ فوری طبی مداخلت نہ ہو تو موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ یہ شرح فروری میں محض 2 فیصد کے لگ بھگ تھی، جب عارضی جنگ بندی کے دوران امداد کی فراہمی ممکن ہو سکی تھی۔
اس انسانی بحران کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ امدادی مراکز جو متاثرین کے لیے واحد امید بن چکے تھے، اب نشانہ بننے لگے ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکی تعاون سے بنائے گئے امدادی مقامات کے قریب فائرنگ کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں امداد کے منتظر شہری شہید ہوئے۔ ان واقعات پر دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے اور اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاتا ہے کہ حماس امدادی سامان کو اپنی ضروریات کے لیے ضبط کرتی ہے، تاہم حماس ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ زمینی حقائق اس دعوے کے برخلاف ایک اور ہی تصویر دکھا رہے ہیں، جہاں بھوک سے بلکتے بچوں کی آہیں، کمزور اور مایوس والدین کی نظریں اور بند اسپتالوں کے دروازے اس بات کے گواہ ہیں کہ امداد کی رسائی کو محدود کرنے کا خمیازہ براہ راست عام فلسطینی عوام بھگت رہے ہیں۔
شمالی غزہ اور جنوبی رفح جیسے علاقے اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہیں، جہاں وہ مراکز بند ہو چکے ہیں جو بچوں کی غذائی کمی اور دیگر طبی پیچیدگیوں کا علاج کرتے تھے۔ ان علاقوں میں شدید قلت کے شکار بچوں کو اب فوری طبی امداد کی سہولت میسر نہیں، جس سے اموات کی شرح مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ یہ رپورٹ عالمی برادری کے لیے ایک الارم ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر امدادی راستوں کو فوری طور پر کھولا جائے اور خوراک و دوا کی ترسیل کو کسی سیاسی یا عسکری حکمت عملی سے مشروط نہ کیا جائے۔ بچوں کی زندگیاں کسی بھی تنازع سے بالاتر ہیں، اور اگر دنیا نے فوری اقدام نہ کیا تو صورتحال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔