اس بات پر حیرانی ہے کہ پی ٹی آئی فارم45 کے مئوقف سے دستبردار ہوگئی
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
لاہور ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔ 06 فروری 2025ء ) امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ آٹھ فروری ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن، یوم سیاہ کے طور منائیں گے، ملک گیر احتجاج ہوگا، کراچی میں الیکشن کمیشن کے سامنے بڑا مظاہرہ کریں گے، آٹھ فروری کے بعد آئی پی پیز مافیا کو لگام دینے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے بڑا احتجاج ہوگا۔
وزیراعظم نجانے مہنگائی میں کمی کے دعوے کس کو بے وقوف بنانے کے لیے کر رہے ہیں۔ پنجاب میں کسان کارڈ دراصل قرضہ کارڈ ہے۔ وزیراعظم، ان کے بھائی، بھتیجی، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی فارم سنتالیس کی پیداوار ہیں، دھاندلی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بن جائے تو 80 فیصد پارلیمنٹ فارغ ہوجائے گی، حیرانی ہے پی ٹی آئی فارم پنتالیس کے موقف سے دستبردار ہوگئی، ری الیکشن کا مطالبہ حکومت کو تسلیم کرنے اور دھاندلی کو تقویت دینے کے مترادف ہے، اسٹیبلشمنٹ نااہل لوگوں کو قوم پر مسلط کرنے کے رویہ پر نظرثانی کرے، ادارے آئین کے مطابق کام کریں، جماعت اسلامی پارٹی پالیٹیکس سے بالاتر کر عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کی بات کرتی ہے، حق کی آواز بلند کرتے رہیں گے، اصول اصول ہے، جو کامیاب ہوا اسے حکومت دی جائے۔(جاری ہے)
امریکہ غزہ میں تباہی کا جنگی تاوان دے، پاکستان کشمیریوں اور فلسطینیوں کاکیس پوری دنیا میں لڑے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منصورہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیکرٹری جنرل امیر العظیم، نائب امیر ڈاکٹر اسامہ رضی، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف اور امیر لاہور ضیاالدین انصاری ایڈووکیٹ بھی اس موقع پر موجود تھے۔امیرجماعت نے کہا کہ کل ملک بھر میں یوم یکجہتی کشمیر بھرپور جوش و خروش سے منایا گیا، جماعت اسلامی نے لاہور سمیت ملک بھر میں ریلیاں اور مارچز منعقد کیے۔ عوام نئے عزم سے متحد ہوکر کشمیریوں کے لیے آواز بلند کرے، حکومت کے پاس بہترین موقع ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی اور سفاکیت کو پوری دنیا میں ایکسپوز کرے، حکمران کشمیر پر سودے بازی سے متعلق رپوٹس پر وضاحت جاری کریں۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کا غزہ خالی کرانے کا بیان احمقانہ ہے جسے پوری دنیا نے مسترد کردیا، ٹرمپ کے اقتدار میں آکر امن قائم کرنے کی خوش فہمی یا غلط فہمی میں مبتلا لوگوں کو حقیقت کا علم ہوچکا ہے،جماعت اسلامی پہلے ہی کہہ رہی تھی کہ امریکی صدارتی الیکشن میں اسرائیل کے زیادہ حمایتی ہونے کا مقابلہ چل رہا ہے، امریکہ امن کا خواہاں ہے تو صہیونیوں کو نیویارک میں بسا لے، عالمی برادری غزہ کی تعمیر نو میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ملک میں جتنی افراتفری ہے اس کی بنیادی وجہ عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا جانا ہے۔ جماعت اسلامی الیکشن دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا ازسر نو مطالبہ کرتی ہے۔ صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسانوں کو گنے کا مناسب ریٹ نہیں مل رہا، حکومت کسانوں کو فصل اور عوام کو آٹے کی خریداری پر سبسڈی دے، یہ فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ ہے، حکومت کو مافیاز کو لگام دینا پڑے گی، عوام کو سبسڈی دینے کی بجائے تمام ارکین پارلیمنٹ نے مل کر اپنے آپ کو سبسڈی دے دی اور تنخواہوں میں تین سو فیصد تک اضافہ کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی عوام کا مقدمہ بھرپور طریقے سے لڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کو چاہیے پی ٹی آئی کو جلسہ کی اجازت دے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی آزادی کے لیے مزاحمت نہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بلکہ اس کی حمایت بھی قانون کے عین مطابق ہے، پاکستان اس مسئلہ کا فریق ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے لیے
پڑھیں:
فضل الرحمن حافظ نعیم ملاقات : جماعت اسلامی ، جے یوآئی کا غزہ کیلئے اتحاد ، اپریل کو پاکستان پر جلسہ
لاہور (خصوصی نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن سے منصورہ لاہور میں ملاقات کی۔ دونوں جماعتوں کے درمیان گرینڈ الائنس پر اتفاق نہیں ہو سکا تاہم اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ ہر جماعت اپنی سیاسی جدوجہد اپنے پلیٹ فارم سے جاری رکھے گی، البتہ قومی اور عوامی مسائل پر مشترکہ مؤقف اپنانے کی گنجائش موجود رہے گی۔ ملاقات میں لیاقت بلوچ، ڈاکٹر فرید پراچہ، امیر العظیم اور جاوید احمد قصوری شریک تھے جبکہ مولانا راشد محمود سومرو، اسلم غوری، مولانا امجد خان اور دیگر رہنما شامل تھے۔ ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمن اور حافظ نعیم الرحمن نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس میں ملکی سیاسی صورتحال، فلسطین کے مسئلے، آئینی امور اور اپوزیشن سیاست پر تفصیل سے اظہار خیال کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ان کا منصورہ آنے کا مقصد جماعت اسلامی کے ساتھ روابط کی تجدید اور حالیہ دنوں میں انتقال کر جانے والے پروفیسر خورشید احمد کے لیے تعزیت بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کی صورتحال امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے، اور 27 اپریل کو مینار پاکستان پر بڑا جلسہ‘ غزہ کانفرنس اور مظاہرہ کیا جائے گا جس میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں اور عوام کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مذہبی جماعتوں کے اشتراک سے غزہ کیلئے "مجلس اتحاد امت" کے نام سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیدیا ہے تاکہ فلسطین اور دیگر اہم مسائل پر ایک واضح مؤقف سامنے لایا جا سکے۔ مولانا فضل الرحمن نے او آئی سی کی فلسطین پر قرارداد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ امت مسلمہ کو ایک مؤثر اور دوٹوک موقف اختیار کرنا ہوگا۔ جہاد ایک مقدس فریضہ ہے، لیکن وہ نماز کی طرح مقررہ وقت کی عبادت نہیں بلکہ تدبیر اور حالات کے تابع ہوتا ہے۔ جو بھی فلسطینیوں کی مدد کے کسی بھی درجے میں شریک ہے، وہ دراصل جہاد ہی کا حصہ ہے۔ انہوں نے ایسے عناصر پر شدید تنقید کی جو جہاد کے تصور کا مذاق اڑاتے ہیں۔صوبائی خودمختاری کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہر صوبے کے وسائل پر پہلا حق اسی صوبے کے عوام کا ہے۔ انہوں نے کالا باغ ڈیم جیسے منصوبوں کو وفاقی سطح پر بداعتمادی اور مشاورت کے فقدان کی مثال قرار دیا، اور کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل سمیت کئی اہم معاملات پر تمام اکائیوں کو ساتھ بٹھانے کی ضرورت تھی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں اپوزیشن جماعتیں حکومت کی اتحادی نہیں ہوتیں، بلکہ اپنے نظریات کے ساتھ جدوجہد کرتی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ساتھ ماضی میں سخت سیاسی اختلافات رہے ہیں لیکن جے یو آئی نے کبھی گالی گلوچ کی سیاست نہیں کی، اور اب بھی کوشش ہے کہ بات چیت کے لیے کوئی دروازہ بند نہ ہو۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا دونوں جماعتوں کے درمیان اصولی اتفاق ہوا ہے کہ سیاسی جدوجہد اپنے اپنے دائرہ کار میں جاری رہے گی۔ حافظ نعیم الرحمن نے 26ویں آئینی ترمیم کو غیر ضروری قرار دیا اور کہا کہ اس معاملے پر جماعت اسلامی اور جے یو آئی کی الگ الگ پالیسی تھی، تاہم مشاورت کے دروازے کھلے رکھنے چاہیئں۔ فارم 45 کی بنیاد پر فیصلے کئے جائیں‘ دھاندلی نہیں دھاندلا ہوا تھا۔ پی ٹی آئی سے کچھ برس سے بہت اختلافات رہے۔ علاوہ ازیں دونوں جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عوامی مسائل، امت مسلمہ کے مفادات اور آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے رابطے اور اشتراک کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا، جبکہ سیاسی جدوجہد اپنی اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے کی جائے گی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کافی عرصہ سے ارادہ تھا کہ جب لاہور آؤں تو منصورہ بھی آؤں تاکہ باہمی رابطے بحال ہوں، آج کی ملاقات میں پروفیسر خورشید کی وفات پر اظہار تعزیت کیا ہے، 27 اپریل کو مینار پاکستان میں غزہ کے حوالے سے کانفرنس اور مظاہرہ ہوگا، اس میں ہم سب شریک ہوں، ملک بھر میں بیداری کی مہم چلائیں گے۔ دنیا میں ہر قسم کے لوگ ہیں جو لوگ اسرائیل گئے وہ پاکستان یا مسلمانوں کے نمائندے نہیں تھے، امت کو مسلم حکمرانوں کے رویوں سے تشویش ہے۔ جن علماء کرام نے فلسطین کے حوالے سے جہاد فرض ہونے کا اعلان کیا ان کے اعلان کا مذاق اڑایا گیا، ان ہی علماء کرام نے ملک کے اندر مسلح جدوجہد کو حرام قرار دیا اس پر کیوں عمل نہیں کیا جاتا؟۔ جے یو آئی صوبائی خود مختاری کی حامی ہے، نہروں کے حوالے سے سندھ کے مطالبے کا احترام کرتے ہیں، نہروں کا معاملہ وفاق میں بیٹھ کر باہمی مشاورت سے طے ہونا چاہیے، نئی نہروں کا فیصلہ تمام صوبوں سے اتفاق رائے سے ہونا چاہئے۔ ہماری کوشش ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات کو واپس اس سطح پر لے آئیں جہاں مشترکہ امور پر بات چیت ہوسکے، ہمارا اختلاف پیپلز پارٹی، ن لیگ، جماعت اسلامی سے بھی ہے لیکن لڑائی نہیں ہے۔ حکمران غزہ کیلئے اپنا فرض کیوں ادا نہیں کرتے۔ جے یو آئی نے مائنز اینڈ منرلز بل مسترد کر دیا۔ نئے الیکشن کی نہیں بلکہ گزشتہ انتخابات کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات میں دونوں اطراف کی قیادت میں اتفاق پایا گیا کہ ملک میں آئین کی بالادستی کے قیام کی ضرورت ہے، تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں کام کریں۔ اسی طرح مہنگائی اور معیشت کی خراب صورت حال پر ان کے اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے دعووں کے باوجود عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، جماعت اسلامی عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔ موجودہ حالات میں انسانیت اور امت کا سب سے بڑا مسئلہ غزہ کی صورت حال ہے، جماعت اسلامی کی فلسطین پر عوامی بیداری مہم جاری رہے گی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ غزہ کے مسئلہ پر پوری امت میں اضطراب ہے اور اس حوالے سے او آئی سی کو واضح اور جاندار موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ جے یو آئی نے غزہ پر مشترکہ جدوجہد کے لیے ’’مجلس اتحاد امت‘‘ پلیٹ فارم تشکیل دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی وسائل پر سب سے پہلا حق صوبہ کے عوام کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم پر مختلف جماعتوں کا مختلف موقف ہو سکتا ہے، جسے بڑے اختلاف سے تعبیر نہ کیا جائے۔