انتخابی دھاندلی کیخلاف خیبرپختونخوا حکومت کا کمیشن کن اصولوں پر تحقیقات کرے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے دوران ہونے والی دھاندلی سے متعلق تحقیقات کے لیے خیبرپختونخوا نے کمیشن کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔
کمیشن اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا نگراں حکومت اور اس کے عہدیداروں نے 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد اور اس دورانموجودہ حکومت کو اقتدار کی منتقلی تک قانونی طور پر کام کیا یا نہیں۔
صوبائی حکومت نے کمیشن کے کام کے دائرہ کار سے متعلق ٹی آر اوز طے کر لیے ہیں، جس کے مطابق:
دفعہ 144 کے احکامات کی جانچکمیشن خیبر پختونخوا میں نگران حکومت کی طرف سے سی آر پی سی کے سیکشن 144 کے تحت جاری کردہ تمام نوٹیفیکیشنز اور احکامات کا تجزیہ کرے گا۔
کمیشن اس بات کا بھی تعین کرے گا کہ آیا دفعہ 144 کا نفاذ اجتماع اور اظہار رائے کی آزادی سے متعلق آئینی تحفظات کے مطابق تھا۔
ایم پی او کے سیکشن 3 کی تحقیقاتکمیشن ایم پی او کے سیکشن 3 کے تحت نظر بندی کے احکامات کے اجرا کی تحقیقات کرے گا تاکہ ان کی قانونی بنیاد کا جائزہ لیا جا سکے اور یہ طے کیا جا سکے کہ آیا ان کا اطلاق آئین اور سی آر پی سی کے تحت قانونی کارروائی کے حقوق کی خلاف ورزی میں کیا گیا تھا۔
کمیشن اس بات کا جائزہ لے گا کہ آیا ایم پی او کے تحت حفاظتی اقدامات بشمول نقل و حرکت یا تقریر پر پابندیاں، سیاسی مخالفین کے خلاف منتخب طور پر نافذ کی گئی تھیں اور انہیں سیاسی شکار کے ذریعہ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔
کمیشن اس بات کا بھی جائزہ لے گا کہ آیا MPO کے تحت طریقہ کار کے تحفظات کی پیروی کی گئی تھی اور کیا حراست میں لیے گئے افراد کو قانون کے مطابق اپنی حراست کو چیلنج کرنے کا مناسب موقع دیا گیا تھا۔
گرفتاری اور دوبارہ گرفتاری کا طریقہ کارکمیشن قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے سیاسی کارکنوں، کارکنوں، یا امیدواروں کی دوبارہ گرفتاری اور دوبارہ گرفتاری کے طریقوں کی تحقیقات کرے گا۔
مبینہ طور پر وسیع پیمانے پر جعلسازی کی انکوائریکمیشن سرکاری اہلکاروں کی طرف سے انتخابی ریکارڈ سمیت سرکاری دستاویزات کی جعلسازی کے الزامات کی جانچ کرے گا اور جہاں ضروری ہو وہاں تادیبی یا مجرمانہ کارروائی کی سفارش کرے گا۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے طرز عمل کی انکوائریکمیشن قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً خیبرپختونخوا پولیس کے طرزعمل کی انکوائری کرے گا۔ اس بات کی چھان بین کی جائے گی کہ آیا ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں تعینات پولیس افسران نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کی۔
نگراں حکومت کی غیر جانبداری کا اندازہکمیشن اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا نگران حکومت کے ارکان نے غیر جانبداری کو برقرار رکھا یا ان میں سے ایک قابل ذکر تعداد سیاسی وابستگی رکھتی تھی جس کی وجہ سے انہیں عہدہ رکھنے سے نااہل قرار دینا چاہیے تھا۔
لیول پلیئنگ فیلڈ کی فراہمی کے حوالے سے تشخیصیہ معلوم کرنے کے لیے کہ آیا نگران حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کو برابری کا میدان فراہم کیا، یا آیا کسی ایک یا زیادہ سیاسی جماعتوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔
ازالہ اور مستقبل کے تحفظات کے لیے اقداماتکمیشن مستقبل میں انتخابی مجرمانہ بدانتظامی کو روکنے کے لیے انتظامی، قانونی اور پالیسی اقدامات تجویز کرے گا۔ یہ حفاظتی حراستی قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے قانونی ترامیم کی بھی سفارش کرے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مستقبل میں MPO کے احکامات کا اطلاق آئینی اور انسانی حقوق کے تحفظات پر سختی سے عمل کرے۔
ذیلی اور اتفاقی معاملات؎کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اپنے مینڈیٹ سے متعلق کسی بھی ذیلی یا واقعاتی معاملے یا انصاف کے مفاد میں تحقیقات کے لیے ضروری سمجھے جانے والے کسی معاملے کی انکوائری کرے۔
خیبرپختونخوا حکومت کے مطابق کمیشن کو تشکیل دے کر حکومت شفافیت کو برقرار رکھنے، عوامی اعتماد کو بحال کرنے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ عام انتخابات 2024 کے دوران کسی بھی مجرمانہ بدانتظامی کی مکمل چھان بین کی جائے اور قانون اور آئین کے مطابق اس کا ازالہ کیا جائے۔
اتھارٹی اور رپورٹنگکمیشن نوٹیفکیشن کے فوراً بعد انکوائری شروع کرے گا اور 60 دنوں کے اندر اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کرے گا جس میں ہر ٹرم آف ریفرنس کے نتائج کی تفصیل دی جائے گی اور مناسب قانونی یا انتظامی اقدامات کی سفارش کی جائے گی۔ اگر مزید وقت درکار ہو تو حکومت درخواست پر توسیع دے سکتی ہے۔
صوبہ خیبرپختونخوا کے تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز کمیشن کے کاموں کی انجام دہی میں مدد کرنے کے پابند ہوں گے اور کمیشن کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی قانونی ہدایات کی تعمیل کریں گے۔
خیبرپختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل بھی کمیشن کی مدد کریں گے اور انکوائری کے لیے درکار تمام دستاویزات، رپورٹس اور مواد فراہم کریں گے۔
حکومت کمیشن کے ارکان کو فول پروف سیکیورٹی کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کمیشن اس بات کا کی انکوائری گا کہ آیا کے مطابق کمیشن کے کے لیے کرے گا اور اس کے تحت
پڑھیں:
خیبرپختونخوا میں امن و امان کے مسئلے پر منعقدہ اے پی سی میں طے پانے والے 10 نکات کیا ہیں؟
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے موجودہ سیکیورٹی صورتحال اور قبائلی اضلاع میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کا انعقاد کیا گیا جس میں شریک جماعتوں نے ایک 10 نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔
کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے نمائندوں نے شرکت کی، تاہم صوبائی اسمبلی میں موجود اپوزیشن کی بڑی جماعتیں جیسے عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف) اور مسلم لیگ (ن) شریک نہیں ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیے: اپوزیشن جماعتوں کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی کا بائیکاٹ، علی امین گنڈاپور کا ردعمل
اعلامیے میں کہا گیا کہ خیبر پختونخوا کے کسی بھی حصے میں مزید ملٹری آپریشنز ناقابل قبول ہیں۔ ماضی میں درجنوں آپریشن کیے گئے لیکن ان سے کوئی دیرپا یا مثبت نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ کانفرنس میں ڈرون حملوں پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ حملے عام شہریوں کی جانیں لے رہے ہیں، جنہیں کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
کانفرنس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ریاست کو گڈ اور بیڈ طالبان کی تمیز ختم کرنی چاہیے اور تمام عسکریت پسند عناصر کے خلاف بلا تفریق اور مؤثر کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ امن قائم کرنے کے لیے ہر قبائلی ضلع میں مقامی قبائل سے تعلق رکھنے والے 3، 3 سو افراد کو پولیس فورس میں بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاکہ مقامی سطح پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مضبوط ہوں۔
خیبر پختنوخوا حکومت کی آل پارٹیز کانفرنس ، کانفرنس میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن ،عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) سمیت کئی جماعتوں نے شرکت نہیں کی ، مزید بتارہے ہیں لحاظ علی اپنی اس رپورٹ میں pic.twitter.com/o7d90xjWez
— WE News (@WENewsPk) July 24, 2025
اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت سرحد پار سے دراندازی روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے جبکہ صوبائی حکومت اپنی حدود میں امن و امان بہتر بنانے کی کوشش کرے گی۔ قبائلی اضلاع کے انضمام کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے انہیں پورا نہ کرنا مقامی عوام کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے، لہٰذا ان وعدوں کو فوری طور پر پورا کیا جائے۔
مزید برآں، کانفرنس نے وفاق کی جانب سے قبائلی اضلاع میں ٹیکسز کے نفاذ کو ظالمانہ اقدام قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ وفاقی فورسز کو خیبر پختونخوا کے بندوبستی اضلاع میں آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور آئندہ اگر افغانستان کے ساتھ مذاکرات ہوں تو ان میں خیبر پختونخوا حکومت کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان نیشنل پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس، کیا اہم فیصلے کیے گئے؟
کانفرنس کے شرکا نے بارڈر پر تجارت کو فعال بنانے اور مقامی معیشت کو سہارا دینے کے لیے وفاق سے مطالبہ کیا کہ وہ سرحدی تجارت میں آسانیاں پیدا کرے تاکہ خطے کے عوام کو معاشی ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
تحریک انصاف کے کئی اراکینِ اسمبلی نے کانفرنس کے موقع پر اس نمائندے کو بتایا کہ امن و امان کی بحالی کے لیے پولیس فورس کو جدید خطوط پر استوار کرنا ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چھ سال کے دوران کسی بھی قبائلی ضلع میں نیا پولیس اسٹیشن قائم نہیں کیا گیا اور موجودہ فورس کو بھی جدید اسلحہ و آلات کی شدید کمی کا سامنا ہے، جو امن کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آل پارٹیز کانفرنس امن و امان بدامنی پشاور خیبرپختونخوا سیکیورٹی کل جماعتی اجلاس