2016 کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام، اوباما کی گرفتاری کی مصنوعی ویڈیو جاری
اشاعت کی تاریخ: 24th, July 2025 GMT
گیبرڈ نے خفیہ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اوباما دور کے اعلیٰ حکام نے دانستہ طور پر ٹرمپ کی جیت کو روسی مداخلت سے جوڑنے کے لیے جعلی انٹیلی جنس رپورٹس تیار کیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر اپنے پیش رو باراک اوباما کو نشانے پر لے لیا ہے۔ چند روز قبل اپنی انتظامیہ کی جانب سے اوباما پر 2016 کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگانے کے بعد، ٹرمپ نے اب ایک مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ ویڈیو شیئر کی ہے جس میں ایف بی آئی اہلکاروں کو اوباما کو وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں گرفتار کرتے دکھایا گیا ہے۔ یہ ویڈیو ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر جاری کی، جو فوری طور پر وائرل ہوگئی اور شدید تنقید کا نشانہ بنی۔ ناقدین نے اسے اشتعال انگیز قرار دیا، جب کہ بعض مبصرین نے اسے جیفری ایپسٹین کیس سے توجہ ہٹانے کی ایک چال قرار دیا۔
ویڈیو کے کیپشن میں لکھا تھا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔ ویڈیو کا آغاز اوباما کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ کوئی بھی، خاص طور پر صدر، قانون سے بالاتر نہیں۔ اس کے بعد مختلف ڈیموکریٹ رہنماؤں، جن میں موجودہ صدر جو بائیڈن بھی شامل ہیں، کی کلپس دکھائی جاتی ہیں جو یہی بات دہرا رہے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد مشہور زمانہ پیپے دی فراگ میم کا ایک مسخرہ ورژن دکھایا جاتا ہے، جو بظاہر ڈیموکریٹس کے بیانیے کا مذاق اڑانے کی کوشش لگتا ہے۔ ویڈیو کے اگلے حصے میں ایف بی آئی ایجنٹس کو اوباما کو ہتھکڑیاں لگا کر اوول آفس سے گرفتار کرتے دکھایا گیا ہے، جب کہ ٹرمپ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کچھ لمحوں بعد اوباما کو جیل کے نارنجی لباس میں سلاخوں کے پیچھے دکھایا جاتا ہے۔
یہ ویڈیو ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹرمپ کی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس (DNI)، ٹلسی گیبرڈ، نے باراک اوباما پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے 2016 کے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ گیبرڈ نے خفیہ دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اوباما دور کے اعلیٰ حکام نے دانستہ طور پر ٹرمپ کی جیت کو روسی مداخلت سے جوڑنے کے لیے جعلی انٹیلی جنس رپورٹس تیار کیں۔ انہوں نے اوباما سمیت اعلیٰ سکیورٹی حکام کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، جس کی تائید خود ٹرمپ نے بھی کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں سال جنوری میں سابق صدر جمی کارٹر کی آخری رسومات کے موقع پر ٹرمپ اور اوباما کو ایک خوشگوار ماحول میں گفتگو کرتے دیکھا گیا تھا۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
معاہدہ ہوگیا، امریکا اور چین کے درمیان ایک سال سے جاری ٹک ٹاک کی لڑائی ختم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا اور چین کے درمیان ٹک ٹاک پر جاری ایک سال سے زائد پرانا تنازع بالآخر ختم ہوگیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو اعلان کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت ٹک ٹاک امریکا میں کام جاری رکھے گا۔ اس معاہدے کے مطابق ایپ کے امریکی اثاثے چینی کمپنی بائٹ ڈانس سے لے کر امریکی مالکان کو منتقل کیے جائیں گے، جس سے یہ طویل تنازع ختم ہونے کی امید ہے۔
یہ پیش رفت نہ صرف ٹک ٹاک کے 170 ملین امریکی صارفین کے لیے اہم ہے بلکہ امریکا اور چین، دنیا کی دو بڑی معیشتوں، کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی کو کم کرنے کی بھی ایک بڑی کوشش ہے۔
ٹرمپ نے کہا، “ہمارے پاس ٹک ٹاک پر ایک معاہدہ ہے، بڑی کمپنیاں اسے خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔” تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ انہوں نے اس معاہدے کو دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند قرار دیا اور کہا کہ اس سے اربوں ڈالر محفوظ رہیں گے۔ ٹرمپ نے مزید کہا، “بچے اسے بہت چاہتے ہیں۔ والدین مجھے فون کرکے کہتے ہیں کہ وہ اسے اپنے بچوں کے لیے چاہتے ہیں، اپنے لیے نہیں۔”
تاہم اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ریپبلکن اکثریتی کانگریس کی منظوری ضروری ہو سکتی ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جس نے 2024 میں بائیڈن دورِ حکومت میں ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت ٹک ٹاک کے امریکی اثاثے بیچنے کا تقاضا کیا گیا تھا۔ اس قانون کی بنیاد یہ خدشہ تھا کہ امریکی صارفین کا ڈیٹا چینی حکومت کے ہاتھ لگ سکتا ہے اور اسے جاسوسی یا اثرورسوخ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد میں ہچکچاہٹ دکھائی اور تین بار ڈیڈ لائن میں توسیع کی تاکہ صارفین اور سیاسی روابط ناراض نہ ہوں۔ ٹرمپ نے یہ کریڈٹ بھی لیا کہ ٹک ٹاک نے گزشتہ سال ان کی انتخابی کامیابی میں مدد دی۔ ان کے ذاتی اکاؤنٹ پر 15 ملین فالوورز ہیں جبکہ وائٹ ہاؤس نے بھی حال ہی میں اپنا سرکاری ٹک ٹاک اکاؤنٹ لانچ کیا ہے۔