بھارت سمیت ہمسایہ ممالک سے موسمیاتی مذاکرات کا آغاز کیا جا رہا ہے، مریم اورنگزیب
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
لاہور(نیوز ڈیسک)سینئر وزیر پنجاب مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ بھارت سمیت ہمسایہ ممالک سے موسمیاتی مذاکرات کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
پنجاب کی سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے “برید پاکستان انٹرنیشنل کانفرنس” سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں حکومت پنجاب نے انسداد اسموگ کے لیے 10 ارب روپے اور کلائیمٹ ریزیلینس کے لیے 100 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ بھارت سمیت ہمسایہ ممالک کے ساتھ موسمیاتی مذاکرات کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت جدید اے کیو آئی مانیٹرز کی تنصیب، بایوگیس پلانٹس اور بایوریفائنری کے قیام، زرعی سیکٹر میں ای میکانائزیشن، اور گرین ٹرانسپورٹیشن جیسے اقدامات شامل ہیں۔
مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ فضائی آلودگی کی نگرانی کے لیے پنجاب بھر میں 100 جدید اے کیو آئی مانیٹرز نصب کیے جا رہے ہیں جو سیٹلائٹ سے منسلک ہو کر تازہ ترین فضائی معیار کا ڈیٹا فراہم کریں گے۔ زراعت میں جدیدیت کو فروغ دیتے ہوئے کسانوں کو فصلوں کی باقیات جلانے سے روکنے کے لیے 60 فیصد سبسڈی پر سپرسیڈرز فراہم کیے گئے ہیں۔ انڈسٹریل اخراج کی نگرانی کے لیے پہلی بار ڈیٹا بیسڈ میپنگ کی گئی ہے اور 50 سے زائد صنعتی یونٹس کو ایمیشن کنٹرول سسٹم کی تنصیب کے لیے مالی معاونت فراہم کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لاہور میں 27 الیکٹرک بسیں آپریشنل ہو چکی ہیں جبکہ دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کی ریٹروفٹنگ پر کام جاری ہے۔ پلاسٹک آلودگی کے خاتمے کے لیے 75 مائیکرون سے کم حجم کے پلاسٹک بیگز کی فروخت اور استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے اورحکومت پنجاب نے اس حوالے سے قانون سازی بھی کی ہے۔ ماحولیاتی بہتری کے لیے عوامی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے پنجاب گرین ایپ اور ہیلپ لائن متعارف کروائی گئی ہیں۔
سینئر صوبائی وزیر نے کہا کہ حکومت بھارت سے آنے والی اسموگ زدہ ہواؤں کے تدارک کے لیے ٹرانس باؤنڈری ڈائیلاگ کا آغازکررہی ہے تاکہ خطے میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے مشترکہ کوششیں کی جا سکیں۔ا سموگ اور فضائی آلودگی خطے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اوراس کے حل کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک ہونا ضروری ہے۔ حکومت پنجاب انفراسٹرکچر بیسڈ ماحولیاتی بہتری کے منصوبے شروع کر چکی ہے اور دیگر صوبوں کے ساتھ بھی مشاورت جاری ہے۔ تمام اقدامات کا مقصد نہ صرف ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنا ہے بلکہ ایک سرسبز اور محفوظ پنجاب کا قیام بھی یقینی بنانا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مریم اورنگزیب کہا کہ کے لیے ہے اور
پڑھیں:
غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-2
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے وہ حقیقت بے نقاب کر دی ہے جو دنیا کی طاقتور حکومتیں برسوں سے چھپاتی آرہی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والی نسل کشی صرف اسرائیل کی کارروائی نہیں تھی بلکہ تریسٹھ ممالک اس جرم میں شریک یا معاون رہے۔ ان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی جیسے وہ ممالک شامل ہیں جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ رپورٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جو وحشیانہ کارروائیاں کیں، وہ کسی ایک ملک کی طاقت سے ممکن نہ تھیں بلکہ ایک عالمی شراکت ِ جرم کے نظام کے تحت انجام پائیں۔ یہ رپورٹ مغرب اور بے ضمیر حکمرانوں کا اصل چہرہ عیاں کرتی ہے۔ دو برسوں میں غزہ کی زمین خون میں نہا گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں بچے اور عورتیں شہید ہوئیں اور پورا خطہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، مگر عالمی ضمیر خاموش رہا۔ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے وعدے سب اس وقت بے معنی ہو گئے۔ فرانسسکا البانیز کی رپورٹ نے بتا دیا کہ عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے ظلم کو روکنے کے بجائے اسے معمول کا حصہ بنا دیا۔ امریکا نے نہ صرف اسرائیل کو مسلسل عسکری امداد فراہم کی بلکہ سلامتی کونسل میں اس کے خلاف آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے اسے مکمل تحفظ دیا۔ برطانیہ نے اپنے اڈے اسرائیلی جنگی مشین کے لیے استعمال ہونے دیے، جرمنی اور اٹلی نے اسلحے کی سپلائی جاری رکھی، اور یورپی ممالک نے اسرائیلی تجارت میں اضافہ کر کے اس کے معیشتی ڈھانچے کو مزید مضبوط کیا۔ حیرت انگیز طور پر انہی ممالک نے غزہ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بند کر دی، یوں انہوں نے مظلوموں سے امداد چھین کر ظالم کو سہارا دیا۔ یہ رویہ صرف دوغلا پن نہیں بلکہ کھلی شراکت ِ جرم ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل نے انسانی امداد کو جنگی ہتھیار بنا دیا۔ محاصرہ، قحط، دوا اور خوراک کی بندش کے ذریعے فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی گئی، اور دنیا کے بڑے ممالک اس جرم پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ فضائی امداد کی نام نہاد کوششوں نے اصل مسئلے کو چھپانے کا کام کیا، یہ دراصل اسرائیلی ناکہ بندی کو جواز فراہم کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، مگر ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکیں۔ صرف چند ممالک نے جنوبی افریقا کے کیس میں شامل ہو کر عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کی حمایت کی، جب کہ بیش تر مسلم ممالک بیانات اور قراردادوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ کمزوری بھی فلسطینیوں کو انصاف کی فراہمی میں روکاٹ رہی اور اس طرح وہ حکمران بھی شریک جرم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے عالمی دوہرے معیار کو برہنہ کر دیا ہے۔ روس یا کسی اور ملک کے خلاف پابندیاں لگانے والی مغربی دنیا اسرائیل کے معاملے میں خاموش ہے۔ یہ خاموشی دراصل ظلم کی حمایت ہے۔ جب انسانی حقوق کی دہائی دینے والے ملک خود ظالم کے معاون بن جائیں، تو یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے نظام پر سوال اُٹھاتا ہے بلکہ پوری تہذیب کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ رپورٹ نے واضح سفارش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات فوری طور پر معطل کیے جائیں، غزہ کا محاصرہ ختم کر کے انسانی امداد کے راستے کھولے جائیں، اور اسرائیل کی رکنیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت معطل کی جائے۔ عالمی عدالتوں کو فعال بنا کر ان ممالک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے نسل کشی میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا۔ غزہ میں اب تک اڑسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہر روز نئے ملبے کے نیچے سے انسانی لاشیں برآمد ہوتی ہیں، مگر عالمی طاقتیں اب بھی امن کی بات صرف بیانات میں کرتی ہیں۔ درحقیقت یہ امن نہیں بلکہ ظلم کے تسلسل کو وقت دینا ہے۔ فلسطینیوں کی قربانی انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ جل رہا تھا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دبے تھے، جب بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنایا گیا تھا، تب تم کہاں تھے؟