لڑکیوں کے ختنوں کی ظالمانہ رسم کے خلاف مہم تیز کرنے پر زور
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ لڑکیوں کے جنسی اعضا کی بریدگی (ایف جی ایم) کو روکنے کے لیے بروقت ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو 2030 تک مزید 2 کروڑ 70 لاکھ بچیاں اور نوعمر خواتین اس تکلیف دہ اور مکروہ رسم کا نشانہ بن سکتی ہیں۔
‘ایف جی ایم’ کے خلاف عالمی دن پر ادارے کا کہنا ہے کہ بہت سے مثبت اقدامات کے باوجود صرف 31 ممالک ایسے ہیں جو آئندہ پانچ برس میں اس مسئلے پر قابو پانے سے متعلق پائیدار ترقی کے اہداف کی جانب درست سمت میں گامزن ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں 90فیصد سے زائد خواتین وراثتی حصے سے محروم
اس دن پر اپنے پیغام میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ دنیا میں 230 ملین سے زیادہ لڑکیاں اور خواتین ‘ایف جی ایم’ کی متاثرہ ہیں جو صنفی عدم مساوات کی انتہائی وحشیانہ شکل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘ایف جی ایم’ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرنے کے لیے سبھی کو متحد ہو کر کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ ہر جگہ تمام خواتین اور لڑکیوں کے لیے روشن تر، صحت مند اور مزید منصفانہ مستقبل یقینی بنایا جا سکے۔ ایسا کرنا بہت ضروری اور ممکن ہے۔
‘ایف جی ایم’ کیا ہے؟یہ بھی پڑھیں: کیا فاسٹ فوڈ کا استعمال خواتین میں بانجھ پن پیدا کر سکتا ہے؟
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، ‘ایف جی ایم’ خواتین کے جنسی اعضا (اندام نہانی) کے بیرونی حصے کو جزوی یا مکمل طور پر ختم کرنے یا غیرطبی وجوہات کی بنا پر ان کے جنسی اعضا کو زخمی کرنے یا نقصان پہنچانے کا نام ہے۔
ڈبلیو ایچ او، جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) اور عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسف) توثیق کر چکے ہیں کہ ‘ایف جی ایم’ کا کوئی طبی فائدہ نہیں ہوتا اور اس سے شدید انفیکشن، زچگی کی پیچیدگیاں، جسمانی تکلیف اور نفسیاتی صدمے جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔
پیشرفت اور مسائل2008سے یو این ایف پی اے اور یونیسف نے ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے ‘ایف جی ایم’ کے خلاف اپنے مشترکہ پروگرام کے تحت تقریباً 70 لاکھ لڑکیوں اور خواتین کو اس عمل سے تحفظ دینے اور اس کی روک تھام کے لیے خدمات مہیا کی ہیں۔
اس اقدام کے تحت نچلی سطح پر 12 ہزار تنظیموں کو متحرک کیا گیا اور مقامی سطح پر ایک لاکھ 123 ہزار طبی کارکنوں کو تربیت دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں، اس پروگرام کی بدولت 48 ملین لوگوں نے ‘ایف جی ایم’ کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
تاہم،، افریقی ملک گیمبیا میں ‘ایف جی ایم’ پر پابندی کو ختم کرنے کی کوششوں سے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے سالہا سال سے کی جانے والی کوششوں کو نقصان کا خدشہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان نے لڑکیوں سے تعلیم کا حق چھین رکھا ہے وہ خواتین کو انسان نہیں سمجھتے، ملالہ یوسفزئی
’رفتار بڑھائیں‘سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ ایسے نقصان دہ رویوں، اعتقادات اور صنفی حوالے سے دقیانوسی تصورات کو ختم کرنےکے لیے عالمگیر تحریکوں کو مضبوط کرنا ہو گا۔
گزشتہ سال ستمبر میں منظور کیا جانے والا ‘مستقبل کا معاہدہ’ اس کوشش کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے صنفی امتیاز اور نقصان دہ سماجی رسومات پر قابو پانے اور اپنے قوانین اور پالیسیوں کو دنیا بھر میں ‘ایف جی ایم’ کے خاتمے کی کوششوں سے ہم آہنگ کرنے کا عزم کیا ہے۔
‘رفتار بڑھائیں’ امسال اس دن کا خاص موضوع اور ‘ایف جی ایم’ کا خاتمہ کرنے اور اسے دوام دینے والی نقصان دہ صنفی و سماجی رسومات کو مٹانے کی پکار ہے۔
بے عملی کی قیمتڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ ‘ایف جی ایم’ کا خاتمہ کرنے میں ناکامی کے سنگین سماجی، معاشی اور طبی نتائج ہو سکتے ہیں کیونکہ خواتین کے جنسی اعضا کی بریدگی سے پیدا ہونے والی طبی پیچیدیگوں کے علاج پر سالانہ 1.
‘ایف جی ایم’ کی متاثرین کو زندگی بھر ذہنی و جذباتی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے باعث ان کی تعلیم، روزگار اور مجموعی بہبود بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
دنیا بھر سے اس رسم کا خاتمہ کرنے کے ہدف تک پہنچنے کے لیے پانچ سال سے بھی کم وقت باقی ہے اور ایسے میں اقوام متحدہ مضبوط اتحادوں، بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور ‘ایف جی ایم’ کے خلاف آگاہی بیدار کرنے کے لیے پائیدار اقدامات پر زور دے رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اقوام متحدہ ایف جی ایم بریدگی ختنے خواتین رسمذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ ایف جی ایم بریدگی خواتین ڈبلیو ایچ او کے جنسی اعضا اقوام متحدہ خاتمہ کرنے ایف جی ایم کرنے کے کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی اجلاس کا ہر لمحہ قیمتی، اینالینا بیئربوک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر اینالینا بیئربوک نے کہا ہے کہ وہ اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے میں تاریخ کے اس لمحے کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور ادارے کے چارٹر اور اس کے اصولوں سے اپنی وابستگی کا اعادہ کرنے کے لیے ہر موقع سے کام لیں گی۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ سوموار سے شروع ہونے والے اعلیٰ سطحی ہفتے کے اجلاس اہم موضوعات پر گفت و شنید اور فیصلوں کے کئی اہم مواقع فراہم کریں گے جن میں ادارے کے قیام کی 80ویں سالگرہ کے حوالے سے منعقدہ اعلیٰ سطحی نشست، فلسطین کے مسئلے کے پرامن اور دو ریاستی حل کے نفاذ کے حوالے سے اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس، چوتھی عالمی کانفرنس برائے خواتین کی 30ویں سالگرہ پر ہونے والا اعلیٰ سطحی اجلاس بہت سی دیگر ملاقاتیں شامل ہیں۔
(جاری ہے)
اتحاد میں بہتریانہوں نے جنرل اسمبلی کی اپنی صدارت کے بنیادی موضوع 'اتحاد میں بہتری' کی جانب اشارہ کرتے ہوئے زور دیا کہ یہ تصور اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ کوئی بھی ملک، چاہے وہ کتنا ہی بڑا، طاقتور یا دولت مند کیوں نہ ہو ان بے شمار مسائل کا تنہا مقابلہ نہیں کر سکتا جن کا دنیا کو سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کے قیام کو 80 سال مکمل ہو رہے ہیں اور اس موقع پر ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے دور حاضر اور مستقبل کے مسائل سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے لیے غوروفکر کرنا ہو گا۔
اقوام متحدہ کو آئندہ 80 برس تک مضبوط رکھنا دنیا بھر کی ذمہ داری ہے۔امید سے حقیقت تکاینالینا بیئربوک نے ایسے اقدامات کا تذکرہ بھی کیا جو اس اجلاس کے دوران توجہ کا مرکز ہوں گے۔ ان میں اقوام متحدہ کو زیادہ موثر اور اپنے وعدے پورے کرنے کے قابل بنانے کے لیے شروع کیا جانے والا 'یو این 80' اقدام بھی شامل ہے۔
اجلاس میں آئندہ سیکرٹری جنرل کے انتخاب کے عمل کی رہنمائی بھی توجہ کا مرکز ہو گی۔
اس کے علاوہ مستقبل کے چارٹر پر کام کو آگے بڑھانا اور پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کوششوں کو تیز کرنا بھی اس اجلاس کی ترجیحات میں شامل ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ دنیا ایک دوراہے پر کھڑی ہے لیکن یہی وہ وقت ہے جب مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اب وعدوں کو عملی اقدامات، عزم کو ترقی اور امید کو حقیقت میں بدلنے کا ارادہ اور جذبہ پیدا کرنا ہو گا۔