چک فرائیلیخ لکھتا ہے کہ فلسطینیوں اور عالمی برادری کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ فلسطینیوں کو مکمل آزادی نہیں ملے گی، کم از کم کئی دہائیوں تک۔ حقیقت پسندانہ حل یہ ہے کہ وہ ایک محدود خود مختاری پر اکتفا کریں۔ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے کی انہیں قیمت چکانی ہوگی۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی اخبار ہآرتس میں صہیونی مصنف چک فرائیلیخ نے مضمون لکھا ہے، جو صہیونی پروپیگنڈے کا ایک اور نمونہ ہے۔ اس تحریر میں بھی حقیقت کو مسخ کرنے اور فلسطینی مزاحمت کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مضمون میں مزاحمت کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ کسی ممکنہ امن معاہدے کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر پیش کیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت خود فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہی ہے۔ یہ وہی حکومت ہے جو یہودی آبادکاری کو ایک نظریے کے طور پر فروغ دے رہی ہے تاکہ مغربی کنارے پر مکمل قبضہ کر سکے، جس نے غزہ کو ایک کھلی جیل میں بدل دیا ہے، وہاں کے باسیوں پر وحشیانہ بمباری کی، انہیں قتل کیا اور اب دوبارہ غزہ پر قبضہ کرنے اور وہاں کے عوام کو بے دخل کرنے کی سازش کر رہی ہے۔   یہ وہی صیہونی سوچ ہے جو اس قابض اور غاصب رجیم کی ہے۔ فلسطین پر قبضے کے باوجود اندر سے شکست خوردہ، کمزور اور خوفزدہ ہے۔ لیکن یہ صیہونی مصنف اعتراف کرتا ہے کہ فلسطین کے معاملے میں دو ریاستی حل ایک سفارتی جھوٹ بن چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ دو ریاستی حل، وقت کے ساتھ، ایک متفقہ بین الاقوامی جھوٹ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ، ہمیشہ سے اسے اسرائیل کی حمایت کے لیے ایک پردے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت کی آبادکاری کی پالیسی کے ہوتے ہوئے یہ حل کبھی ممکن نہیں ہو سکتا، لیکن پھر بھی وہ اس کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر مغربی رہنما خود بھی اس پر یقین نہیں رکھتے، مگر اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں تاکہ اسرائیل کو مکمل سفارتی حمایت فراہم کی جا سکے، عرب ممالک نے بھی اسی جھوٹے نعرے کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا، چاہے فلسطینی مسئلہ حل ہو یا نہیں۔   یہ وہی جھوٹ ہے جو آج بھی کچھ عرب حکمران فلسطینیوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں، حالانکہ وہ خود جانتے ہیں کہ یہ "حل" حقیقت میں فلسطینیوں کے حقوق سے دستبرداری کے مترادف ہے۔ مصنف مزید لکھتا ہے کہ یہ حل تو جنگ سے پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔ اسرائیل کی آبادکاری کی پالیسی نے جان بوجھ کر ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ اب دو ریاستوں کا قیام تقریباً ناممکن ہو چکا ہے، ان پالیسیوں نے فلسطینیوں کے اندر یہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ اسرائیل کبھی بھی امن کے لیے سنجیدہ نہیں تھا۔ یہ ایک کھلا اعتراف ہے کہ اسرائیل نے کبھی بھی فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے کا ارادہ نہیں رکھا بلکہ وہ صرف وقت گزارنے کے لیے امن مذاکرات" کی بات کرتا رہا۔   واضح رہے کہ مزاحمت اور مقاومت کے محور سے تعلق رکھنے والے ممالک، تحریکوں اور قیادت کا شروع دن سے یہ موقف ہے کہ فلسطین کا واحد حل مزاحمت ہے۔ وہ مزاحمت جو قابض فوج کو شکست دے، فلسطینی عوام کو تحفظ فراہم کرے، اور ان کے مذہبی، تاریخی اور سیاسی حقوق کا دفاع کرے۔ مصنف کے الفاظ میں ایک اور دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ وہ بالواسطہ اعتراف کر رہا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، اور اسی لیے وہ اب عرب ممالک، عالمی طاقتوں اور فلسطینی اتھارٹی سے مدد مانگ رہی ہے تاکہ وہاں دوبارہ کنٹرول قائم کیا جا سکے۔   دوسری جانب صہیونی مصنف فلسطینیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ انہیں مکمل آزادی کا خواب ترک کر دینا چاہیے، اور وہ لکھتا ہے کہ فلسطینیوں اور عالمی برادری کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ فلسطینیوں کو مکمل آزادی نہیں ملے گی، کم از کم کئی دہائیوں تک۔ حقیقت پسندانہ حل یہ ہے کہ وہ ایک محدود خود مختاری پر اکتفا کریں۔ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے کی انہیں قیمت چکانی ہوگی۔ یہی وہ سوچ ہے جو اسرائیلی استعمار کی بنیاد ہے کہ فلسطینیوں کو محدود حقوق دو، انہیں محکوم بنا کر رکھو، اور انہیں یہ باور کراؤ کہ وہ کبھی بھی مکمل آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔   دوسری جانب فلسطینیوں کا عزم زندہ ہے، 7 اکتوبر کے بعد دنیا نے دیکھ لیا کہ فلسطینی عوام نے اپنی آزادی کی جنگ خود لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب کوئی سفارتی چال، کوئی جھوٹا امن منصوبہ اور کوئی دھوکہ دہی پر مبنی دو ریاستی حل ان کے راستے میں نہیں آ سکتا۔ اب صرف فلسطینی مزاحمت فیصلہ کرے گی کہ فلسطین کا مستقبل کیا ہوگا، اور وہ مستقبل مکمل آزادی اور مکمل خودمختاری کا ہے۔ انشا اللہ

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو دو ریاستی حل اسرائیل کے کہ فلسطینی کہ فلسطین یہ ہے کہ کرنے کی کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو مٹانے کے لیے نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے آزاد کمیشن آف انکوائری (COI) نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینی عوام کی مقصد کے تحت نسل کشی کر رہا ہے، اور اس جرم کی ذمہ داری اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو، صدر آئزک ہرزوگ اور سابق وزیر دفاع یواف گیلنٹ سمیت اعلیٰ قیادت پر عائد ہوتی ہے۔

کمیشن کی سربراہ اور سابق اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نوی پیلئی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ غزہ میں نسل کشی ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس کی ذمہ داری ریاستِ اسرائیل پر عائد ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: شاہ چارلس کے سابق مشیر نے برطانیہ کو فلسطینیوں کی نسل کشی میں شریک قرار دیدیا

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک قریباً 65 ہزار فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ اکثریت کو ایک سے زیادہ بار نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے غزہ سٹی میں قحط کو سرکاری طور پر تسلیم کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اکتوبر 2023 سے اسرائیلی حکام اور افواج نے 1948 کے کنونشن برائے انسداد نسل کشی میں بیان کردہ 5 میں سے 4 اقدامات پر عمل کیا ہے، جن میں شامل ہیں:

* گروہ کے افراد کو قتل کرنا،
* ان کو جسمانی یا ذہنی طور پر سنگین نقصان پہنچانا،
* ایسے حالات پیدا کرنا جو ان کی جسمانی تباہی کا باعث بنیں،
* اور ایسی تدابیر نافذ کرنا جو گروہ میں پیدائش کو روک سکیں۔

مزید پڑھیں: فلسطینیوں کی نسل کشی میں کونسی کمپنیاں ملوث ہیں؟ اقوام متحدہ نے فہرست جاری کردی

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اسرائیلی قیادت کے بیانات اور فوجی کارروائیاں واضح طور پر نسل کشی کی نیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ پیلئی نے کہا کہ یہ مظالم اسرائیلی حکام کی اعلیٰ ترین سطح پر ذمہ دار قرار پاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کمیشن بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے پراسیکیوٹر کے ساتھ تعاون کر رہا ہے اور ہزاروں شواہد ان کے ساتھ شیئر کیے جا چکے ہیں۔

پیلئی نے خبردار کیا کہ بین الاقوامی برادری اسرائیل کی نسل کشی مہم پر خاموش نہیں رہ سکتی، خاموشی اور عدم کارروائی اس جرم میں شراکت داری کے مترادف ہوگی۔

مزید پڑھیں: غزہ میں نسل کشی پر خاموش رہنے والا شریکِ جرم ہے، ترک صدر رجب طیب ایردوان

خیال رہے کہ گزشتہ سال جنوری میں عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) نے اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ غزہ میں نسل کشی کے اقدامات کو روکے۔ بعد ازاں عالمی فوجداری عدالت نے نیتن یاہو اور یواف گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل اقوام متحدہ غزہ فلسطینی عوام نسل کشی

متعلقہ مضامین

  • یو اے ای کا اسرائیل سے سفارتی تعلقات میں کمی کا عندیہ
  • غزہ کے مغربی کنارے کو ضم کرنے پر یو اے ای اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی سطح کم کر سکتا ہے .رپورٹ
  • حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب‌ الله لبنان
  • فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی
  • نیو یارک ڈیکلریشن: اسرائیل کی سفارتی تنہائی؟؟
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی کا مرتکب، تحقیقاتی کمیشن
  • عالمی سطح پر اسرائیل کو ذلت اور شرمندگی کا سامنا
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو مٹانے کے لیے نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ
  • اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی حل کی قرارداد
  • فلسطینیوں کی نسل کشی میں کردار ادا کرنیوالی بین الاقوامی کمپنیاں (2)