دو ریاستی حل بین الاقوامی دھوکا اور سفارتی جھوٹ ہے، صیہونی تجزیہ کار
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
چک فرائیلیخ لکھتا ہے کہ فلسطینیوں اور عالمی برادری کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ فلسطینیوں کو مکمل آزادی نہیں ملے گی، کم از کم کئی دہائیوں تک۔ حقیقت پسندانہ حل یہ ہے کہ وہ ایک محدود خود مختاری پر اکتفا کریں۔ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے کی انہیں قیمت چکانی ہوگی۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی اخبار ہآرتس میں صہیونی مصنف چک فرائیلیخ نے مضمون لکھا ہے، جو صہیونی پروپیگنڈے کا ایک اور نمونہ ہے۔ اس تحریر میں بھی حقیقت کو مسخ کرنے اور فلسطینی مزاحمت کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مضمون میں مزاحمت کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ کسی ممکنہ امن معاہدے کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر پیش کیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت خود فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہی ہے۔ یہ وہی حکومت ہے جو یہودی آبادکاری کو ایک نظریے کے طور پر فروغ دے رہی ہے تاکہ مغربی کنارے پر مکمل قبضہ کر سکے، جس نے غزہ کو ایک کھلی جیل میں بدل دیا ہے، وہاں کے باسیوں پر وحشیانہ بمباری کی، انہیں قتل کیا اور اب دوبارہ غزہ پر قبضہ کرنے اور وہاں کے عوام کو بے دخل کرنے کی سازش کر رہی ہے۔ یہ وہی صیہونی سوچ ہے جو اس قابض اور غاصب رجیم کی ہے۔ فلسطین پر قبضے کے باوجود اندر سے شکست خوردہ، کمزور اور خوفزدہ ہے۔ لیکن یہ صیہونی مصنف اعتراف کرتا ہے کہ فلسطین کے معاملے میں دو ریاستی حل ایک سفارتی جھوٹ بن چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ دو ریاستی حل، وقت کے ساتھ، ایک متفقہ بین الاقوامی جھوٹ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ، ہمیشہ سے اسے اسرائیل کی حمایت کے لیے ایک پردے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت کی آبادکاری کی پالیسی کے ہوتے ہوئے یہ حل کبھی ممکن نہیں ہو سکتا، لیکن پھر بھی وہ اس کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر مغربی رہنما خود بھی اس پر یقین نہیں رکھتے، مگر اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں تاکہ اسرائیل کو مکمل سفارتی حمایت فراہم کی جا سکے، عرب ممالک نے بھی اسی جھوٹے نعرے کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا، چاہے فلسطینی مسئلہ حل ہو یا نہیں۔ یہ وہی جھوٹ ہے جو آج بھی کچھ عرب حکمران فلسطینیوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں، حالانکہ وہ خود جانتے ہیں کہ یہ "حل" حقیقت میں فلسطینیوں کے حقوق سے دستبرداری کے مترادف ہے۔ مصنف مزید لکھتا ہے کہ یہ حل تو جنگ سے پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔ اسرائیل کی آبادکاری کی پالیسی نے جان بوجھ کر ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ اب دو ریاستوں کا قیام تقریباً ناممکن ہو چکا ہے، ان پالیسیوں نے فلسطینیوں کے اندر یہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ اسرائیل کبھی بھی امن کے لیے سنجیدہ نہیں تھا۔ یہ ایک کھلا اعتراف ہے کہ اسرائیل نے کبھی بھی فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے کا ارادہ نہیں رکھا بلکہ وہ صرف وقت گزارنے کے لیے امن مذاکرات" کی بات کرتا رہا۔ واضح رہے کہ مزاحمت اور مقاومت کے محور سے تعلق رکھنے والے ممالک، تحریکوں اور قیادت کا شروع دن سے یہ موقف ہے کہ فلسطین کا واحد حل مزاحمت ہے۔ وہ مزاحمت جو قابض فوج کو شکست دے، فلسطینی عوام کو تحفظ فراہم کرے، اور ان کے مذہبی، تاریخی اور سیاسی حقوق کا دفاع کرے۔ مصنف کے الفاظ میں ایک اور دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ وہ بالواسطہ اعتراف کر رہا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، اور اسی لیے وہ اب عرب ممالک، عالمی طاقتوں اور فلسطینی اتھارٹی سے مدد مانگ رہی ہے تاکہ وہاں دوبارہ کنٹرول قائم کیا جا سکے۔ دوسری جانب صہیونی مصنف فلسطینیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ انہیں مکمل آزادی کا خواب ترک کر دینا چاہیے، اور وہ لکھتا ہے کہ فلسطینیوں اور عالمی برادری کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ فلسطینیوں کو مکمل آزادی نہیں ملے گی، کم از کم کئی دہائیوں تک۔ حقیقت پسندانہ حل یہ ہے کہ وہ ایک محدود خود مختاری پر اکتفا کریں۔ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے کی انہیں قیمت چکانی ہوگی۔ یہی وہ سوچ ہے جو اسرائیلی استعمار کی بنیاد ہے کہ فلسطینیوں کو محدود حقوق دو، انہیں محکوم بنا کر رکھو، اور انہیں یہ باور کراؤ کہ وہ کبھی بھی مکمل آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔ دوسری جانب فلسطینیوں کا عزم زندہ ہے، 7 اکتوبر کے بعد دنیا نے دیکھ لیا کہ فلسطینی عوام نے اپنی آزادی کی جنگ خود لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب کوئی سفارتی چال، کوئی جھوٹا امن منصوبہ اور کوئی دھوکہ دہی پر مبنی دو ریاستی حل ان کے راستے میں نہیں آ سکتا۔ اب صرف فلسطینی مزاحمت فیصلہ کرے گی کہ فلسطین کا مستقبل کیا ہوگا، اور وہ مستقبل مکمل آزادی اور مکمل خودمختاری کا ہے۔ انشا اللہ
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو دو ریاستی حل اسرائیل کے کہ فلسطینی کہ فلسطین یہ ہے کہ کرنے کی کے لیے رہی ہے
پڑھیں:
اسرائیل نے 30 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کردیں، غزہ پر بمباری سے مزید شہادتیں
اسرائیل نے جمعے کو 30 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کیں جن پر تشدد کے نشانات پائے گئے، جبکہ جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی فضائی حملوں میں مزید 3 فلسطینی جاں بحق ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی یرغمالیوں کی مزید لاشیں کب حوالے کی جائیں گی؟ حماس کا اہم بیان آگیا
بین الاقوامی ریڈکراس کی نگرانی میں لاشوں کی واپسی قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت کی گئی۔ فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک 225 لاشیں وصول کی جا چکی ہیں، جن میں سے کئی پر تشدد، جلن اور اعضا کے کٹنے کے آثار پائے گئے۔
اسرائیلی حملوں میں مشرقی غزہ کے شجاعیہ علاقے، جبالیا کیمپ اور خان یونس میں شہری ہلاک ہوئے۔ دوسری جانب حماس نے مردہ اسرائیلی قیدیوں کی باقیات کی تلاش جاری رکھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:صدر ٹرمپ کا حماس کو ’تیز، شدید اور بے رحم‘ کارروائی کا انتباہ
معاہدے کے تحت حماس نے 20 زندہ قیدیوں کو رہا کیا جبکہ اسرائیل نے تقریباً 2 ہزار فلسطینی سیاسی قیدیوں کو رہا کیا۔
تاہم جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی حملے وقفے وقفے سے جاری ہیں اور انسانی امداد کی ترسیل محدود ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل بمباری غزہ فلسطین