بشری بی بی کا حالیہ احتجاج کے 20 مقدمات کی تفتیش میں پولیس کو جوابات دینے سے انکار
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
ویب ڈیسک: سابق خاتون اول بشری بی بی نے حالیہ احتجاج کے 20 مقدمات میں تفتیش کے دوران پولیس کو جوابات دینے سے انکار کردیا۔
راولپنڈی بشری بی بی کو راولپنڈی میں درج 20 مقدمات میں شامل تفتیش کرنے کے لئے پولیس ٹیمیں جیل پہنچیں اور حالیہ احتجاج کے مقدمات میں انہیں باضابطہ طور پر شامل تفتیش کر لیا گیا۔
راولپنڈی پولیس کے 20 تفتیشی افسران نے اڈیالہ جیل کے ایڈمن بلاک میں بشری بی بی کو شامل تفتیش کیا گیا، بشری بی بی نے پولیس سوالوں کے جوابات بانی پی ٹی آئی سے مشاورت سے مشروط کردیے۔
مذاکرات سے انکار؛ ہماری سلامتی کو خطرے میں ڈالا تو امریکہ کی سیکورٹی کو خطرہ ہوگا؛ ایران کا دو ٹوک موقف
بشری بی بی نے پولیس کی ابتدائی تفتیش میں بیان دینے سے انکار کردیا، تفتیشی افسران میں انسپکٹرز افضل، یعقوب شاہ، راشد کیانی، ممتاز اور ور دیگر شامل تھے۔
بعد ازاں اڈیالہ جیل میں 26 نومبر کے بعد درج ہونے والے 31 مقدمات کی سماعت کے دوران بشری بی بی کو جج امجد علی شاہ نے کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
بشری بی بی نے کہا کہ شامل تفتیش ہونے سے قبل بانی پی ٹی ائی اور اپنے وکیل سلمان صفدر سے مشاورت کرنی ہے، مشاورت کے بعد اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے تیار ہوں، بانی پی ٹی ائی اور وکیل سلمان صفدر سے اگر اج ملاقات کروا دی جائے تو آج ہی شامل تفتیش ہونے کو تیار ہوں۔
حماس اسرائیل کے تین یرغمالی مردوں کو آج رہا کرے گی
بشری بی بی نے بانی پی ٹی آئی کی موجودگی میں شامل تفتیش ہونے کی بھی عدالت سے درخواست کی اس پر عدالت نے ایس او پی کے مطابق بشری بی بی کی بانی پی ٹی ائی اور ان کے وکیل سے ملاقات کروانے کا حکم دے دیا اور سماعت 7 مارچ تک ملتوی کردی۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: شامل تفتیش بانی پی ٹی سے انکار
پڑھیں:
ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔