امریکی امداد منجمد ، شامی کیمپ کے حالات بگڑنے لگے، ہیومن رائٹس واچ
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 فروری2025ء)ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو)نے خبردار کیاہے کہ امریکی امداد کی معطلی سے شمال مشرقی شام میں داعش کے مشتبہ دہشت گردوں کے رشتہ داروں کے کیمپوں میں موجودہ خطرناک حالات خراب تر ہو سکتے ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق انسانی حقوق کے ادارے نے امریکاپر زور دیا کہ وہ مالی معاونت برقرار رکھے۔
داعش کی علاقائی شکست کے برسوں بعد خطے میں کردوں کے زیرِ انتظام کیمپوں اور جیلوں میں اب بھی تقریبا 56,000 افراد ہیں جن کے شدت پسندوں سے مبینہ روابط ہیں یا ایسا سمجھا جاتا ہے۔ان میں جیلوں میں بند مشتبہ شدت پسند افراد کے ساتھ ساتھ داعش کے دہشت گردوں کی بیویاں اور بچے بھی شامل ہیں جو الہول اور روج کے حراستی کیمپوں میں قید ہیں۔(جاری ہے)
ایچ آر ڈبلیو نے ایک بیان میں کہاکہ امریکی حکومت نے ان کیمپوں میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے لیے غیر ملکی امداد معطل کر دی ہے جس سے خطرناک حالات شدت اختیار کر رہے ہیں اور سکیورٹی کی غیر یقینی صورتِ حال کو مزید عدم استحکام کا خطرہ لاحق ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے نے بین الاقوامی انسانی ہمدردی کے کارکنان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امداد کی بندش کیمپ کے رہائشیوں کے لئے ضروری خدمات کی فراہمی محدود کر سکتی ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیسکو سے علیحدگی کی وجہ ادارے کی جانب سے ''تفریق کرنے والے سماجی و ثقافتی نظریات کو فروغ دینا‘‘ ہے۔
بروس نے کہا کہ یونیسکو کا فیصلہ کہ وہ ’’فلسطین کی ریاست‘‘ کو رکن ریاست کے طور پر تسلیم کرتا ہے، امریکی پالیسی کے منافی ہے اور اس سے ادارے میں اسرائیل مخالف بیانیہ کو فروغ ملا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی اسسٹنٹ پریس سیکرٹری اینا کیلی نے کہا، ''یونیسکو ایسے تقسیم پسند ثقافتی و سماجی مقاصد کی حمایت کرتا ہے جو ان عام فہم پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتیں جن کے لیے امریکی عوام نے نومبر میں ووٹ دیا۔
(جاری ہے)
‘‘
یونیسکو کا ردِعملیونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے واشنگٹن کے فیصلے پر ''گہرے افسوس‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ اس صورتحال کے لیے پہلے سے تیار تھا۔
انہوں نے اسرائیل مخالف تعصب کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا، ''یہ دعوے یونیسکو کی اصل کوششوں کے برخلاف ہیں۔‘‘
اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں یونیسکو کے لیے ''غیر متزلزل حمایت‘‘ کا اعلان کیا اور کہا کہ امریکہ کا فیصلہ فرانس کی وابستگی کو کمزور نہیں کرے گا۔
یونیسکو کے اہلکاروں نے کہا کہ امریکی علیحدگی سے ادارے کے کچھ امریکی فنڈ سے چلنے والے منصوبوں پر محدود اثر پڑے گا، کیونکہ ادارہ اب متنوع مالی ذرائع سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کا صرف 8 فیصد بجٹ ہی امریکہ سے آتا ہے۔
اسرائیل کا ردعملاسرائیل نے امریکہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے یونیسکو پر ''مسلسل غلط اور اسرائیل مخالف جانبداری‘‘ کا الزام عائد کیا۔
اسرائیلی وزیر خارجہ نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں امریکہ کی ''اخلاقی حمایت اور قیادت‘‘ کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’اسرائیل کو نشانہ بنانے اور رکن ممالک کی سیاسی چالوں کا خاتمہ ضروری ہے، چاہے وہ یونیسکو ہو یا اقوام متحدہ کے دیگر پیشہ ور ادارے۔
‘‘ امریکہ پہلے بھی یونیسکو چھوڑ چکا ہےیونیسکو طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان ایک بین الاقوامی محاذ رہا ہے، جہاں فلسطینی عالمی اداروں اور معاہدوں میں شمولیت کے ذریعے اپنی ریاستی حیثیت تسلیم کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسرائیل اور امریکہ کا مؤقف ہے کہ فلسطین کو اس وقت تک کسی بھی بین الاقوامی ادارے میں شامل نہیں ہونا چاہیے جب تک وہ اسرائیل کے ساتھ ایک مکمل امن معاہدے کے تحت ریاستی درجہ حاصل نہ کر لے۔
امریکہ نے پہلی بار 1980 کی دہائی میں یونیسکو پر سوویت نواز جانبداری کا الزام لگا کر اس سے علیحدگی اختیار کی تھی، لیکن 2003 میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی۔ لیکن سابق صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں دو سال قبل امریکہ نے یونیسکو میں دوبارہ شمولیت اختیار کی تھی ۔
ادارت: صلاح الدین زین