بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں متنوع مسائل کا شکار نوجوان طلبہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 فروری 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے شمالی علاقے کریری سے تعلق رکھنے والی سید مسکان اپنی تعلیمی جدوجہد کے بارے میں کہتی ہیں، ’’پہلے تو مجھے اپنے والدین کو راضی کرنا پڑا کہ میں گھر سے بہت دور نئی دہلی جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ میرے والدین کو نئی دہلی میں لڑکیوں کے تحفظ کے بارے میں تشویش تھی، کیونکہ وہاں خواتین کے خلاف جرائم کے ارتکاب کی رپورٹیں سامنے آتی رہتی ہیں۔
‘‘کشمیر میں موجودہ تعلیمی نظام میں پائے جانے والے مسائل کے بارے میں مسکان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وہاں تعلیمی حوالے سے وسائل بہت محدود ہیں۔ انٹرنیٹ سروسز اکثر بند رہتی ہیں۔ یہ بھی دو اہم وجوہات ہیں جو کشمیری طلبہ کو تعلیم کے حصول کے لیے وادی سے باہر جانے پر مجبور کرتی ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘
سید مسکان بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں صحافت کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
مسکان ہی کی طرح کشمیری نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھارت کی مختلف ریاستوں جیسے پنجاب، چندی گڑھ، ہریانہ، اتراکھنڈ اور خاص طور پر نئی دہلی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے مختلف یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتی ہے۔ مگر ان یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے کچھ طلبا و طالبات کو خاصی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ پھر داخلہ ہو جانے کے بعد بھی ان نوجوانوں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
مشکل حالات میں ایسی ہی جدوجہد شمالی کشمیر سے تعلق رکھنے والے عاقب نذیر نے بھی کی۔
اعلیٰ تعلیم کی خواہش اور خاندان کی کفالت کی ذمے داری
اپنے تعلیمی خوابوں کی تکمیل کے عمل میں عاقب نذیر کو زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سال 2012 میں ان کے والد کو، جو اب ایک سابقہ سبزی فروش ہیں، دل کا دورہ پڑا جس کے بعد وہ گھر پر ہی رہنے پر مجبور ہو گئے۔
ان حالات میں عاقب نے اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے لیے اپنا ایک چھوٹا سا فوڈ بزنس شروع کیا، جو کچھ عرصے تک تو کامیاب رہا لیکن اس دوران وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے سے قاصر رہے۔عاقب نذیر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے تب اپنے اس چھوٹے سے کاروبار سے کچھ پیسے تو کمائے، جن سے ہمارے خاندان کی مالی ضروریات پورا ہو جاتی تھیں۔
لیکن یہ رقم میرے لیے نئی دہلی جا کر تعلیم جاری رکھنے کے لیے تو بالکل بھی کافی نہیں تھی۔‘‘بھارت کا کشمیر سے لداخ تک سُرنگیں تعمیر کرنے کا فیصلہ
اس نوعیت کے اقتصادی اور مالی مسائل کے علاوہ کشمیر میں طالب علموں کو اپنے ارد گرد کے حالات کے سبب بھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثلاﹰ مقامی سطح پر ناقص یا ناپید ٹرانسپورٹ اور عام سڑکوں کی خستہ حالی کے سبب کئی کم عمنر بچے اسکول جانے سے محروم رہتے ہیں۔
پھر کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں یہ بھی عموماﹰ دیکھا جاتا ہے کہ دور دروز علاقوں میں بہت سے بچے اسکول جانے کے لیے کئی کئی کلومیٹر پیدل سفر کرتے ہیں۔کم عمری میں اسکولوں میں حصول تعلیم ہی کے سلسلے میں یہ پہلو بھی اہم ہے کہ کئی کشمیری بچے سخت سردی میں روزانہ اسکول جانے کے لیے طویل فاصلے تک پیدل چلنے سے قاصر ہوتے ہیں اور اسی لیے وہ مجبوراﹰ اسکول جانا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
کشمیری بچوں میں اسکول کی سطح پر ترک تعلیم کا تناسب بھارت میں سب سے زیادہ
بھارت میں سرکاری سطح پر تیار کردہ اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر میں سیکنڈری اسکول کی سطح پر اسکول جانا چھوڑ دینے والے طلبا و طالبات کی شرح نہ صرف 13 فیصد سے بھی زیادہ ہے بلکہ یہ تناسب پورے شمالی بھارت میں بھی سب سے زیادہ ہے۔
سرینگرمیں واقع کشمیر یونیورسٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو لو بتایا، ’’ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کشمیر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے اسکول جانا چھوڑ دینے کے واقعات کی وجوہات متعدد اور متنوع ہیں۔
مثلاﹰ کشمیری لڑکیوں کی جب کم عمری میں ہی شادیاں کر دی جاتی ہیں، تو ساتھ ہی ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ ترک حصول تعلیم کر کے بس اپنا گھر سنبھال لیں۔ ایسا کشمیر کے بہت سے دیہی علاقوں میں بار بار دیکھنے میں آتا ہے۔‘‘سری نگر یونیورسٹی کے اس اسسٹنٹ پروفیسر نے کہا، ’’کشمیر میں تشویش ناک صورتحال کے دوران ہم نے یہ بھی دیکھا کہ بہت سے والدین نے اپنی بیٹیوں کو اسکول نہ بھیجنے کو ترجیح دی۔
‘‘ ان کے مطابق لڑکوں کو اگر اسکول جانا چھوڑنا پڑے، تو اس کی ’’وجہ اکثر ان کے گھرانوں کے مالی مسائل اور آمدنی میں کچھ نہ کچھ اضافے کی خواہش‘‘ ہوتے ہیں۔انفرادی سطح پر دیکھا جائے تو کشمیر سے آ کر نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا اسٹڈیز کی تعلیم حاصل کرنے والے عاقب نذیر کے لیے بڑے اطمینان کی بات یہ ہے کہ انہیں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے اب ایک اسکالرشپ بھی مل چکا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسکول جانا نئی دہلی کے لیے
پڑھیں:
ندا یاسر کو ایک بار پھر اپنی ملازمہ کی چوری کی کہانی سنانے پر تنقید کا سامنا
کراچی(شوبز ڈیسک) اداکارہ و ٹی وی میزبان ندا یاسر سوشل میڈیا صارفین کی تنقید کی زد میں ہیں، اس بار وجہ بنی اُن کی ایک اور ملازمہ سے متعلق چوری کی کہانی جو انہوں نے اپنے پروگرام میں سنائی۔
حال ہی میں ندا یاسر نے اپنے مارننگ شو ’گڈ مارننگ پاکستان‘ میں ایک بار پھر اپنے گھر میں پیش آنے والے چوری کے واقعے کی تفصیلات بیان کیں۔
ندا یاسر نے بتایا کہ جب ان کے بچے بہت چھوٹے تھے اور وہ خود بھی کسی پیشہ ورانہ مصروفیت میں نہیں تھیں، تو اس وقت ان کی ایک سہیلی نے اپنے گھر پر کام کرنے والی ملازمہ کی بیٹی کو ان کے گھر پر کام کے لیے رکھوا دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان کے بچوں کا اسکول ان کے گھر سے کافی دور تھا، جب کہ ان کی سہیلی کے بچوں کا اسکول ان کے گھر کے قریب تھا۔
ندا یاسر کا کہنا تھا کہ صبح جب وہ اپنے بچوں کو اسکول لے کر جاتی تھیں تو انہیں اسکول میں رکنا پڑتا تھا، اس دوران گھر پر ان کی ملازمہ اکیلی ہوتی تھی، ایک دن ان کی سہیلی نے ان سے کہا کہ اس کی ملازمہ اسکول میں اکیلی بیٹھی رہتی ہے، اگر اجازت ہو تو وہ تمہارے گھر آکر اپنی بیٹی (یعنی ملازمہ) کے پاس وقت گزار سکتی ہے جب تک اسکول کی چھٹی نہیں ہو جاتی۔
میزبان کے مطابق انہوں نے فوراً اجازت دے دی کہ کوئی بات نہیں، جس کے بعد جب وہ اسکول جاتیں اور ان کے شوہر یاسر بھی گھر پر موجود نہ ہوتے تو پورے گھر میں صرف ملازمہ اور اس کی ماں موجود ہوتی تھیں اور پورا گھر ان کے حوالے ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دوران وہ دونوں خواتین گھر کے اسٹور سے ان کا قیمتی سامان چوری کرتی رہیں اور جب تک وہ ملازمہ ان کے گھر میں کام کرتی رہی، گھر سے خاصا سامان چوری ہوتا رہا۔
ندا یاسر نے مزید کہا کہ ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ملازمہ پر اندھا بھروسہ کیا اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی سہیلی کو انکار بھی کر سکتی تھیں۔
ندا یاسر کی جانب سے مسلسل ملازماؤں کی چوری کی کہانیاں سنانے پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ ایک پروگرام ندا یاسر کو اکیلے کرنا چاہیے، جس میں وہ آرام سے سب کو بتا دیں کہ کتنی بار ان کے گھر پر چوری ہو چکی ہے، کیونکہ ہر بار ان کے پاس ایک نئی کہانی ہوتی ہے۔
کچھ صارفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جتنی چوریاں ندا یاسر کے گھر میں ہوئی ہیں، اتنی شاید پورے کراچی میں بھی نہیں ہوئیں۔
صارفین نے یہ بھی تبصرہ کیا کہ ندا یاسر کے گھر پیش آنے والی چوری کی کہانیاں سننے کے بعد تو بندہ ملازمہ کو نکال کر خود ہی جھاڑو پونچھا کر لے، لیکن ندا باجی! ہم تو کر لیں گے، آپ کا کیا ہوگا؟
Post Views: 4