امریکی صدر کو عدالتی محاذ پر دھچکا، یو ایس ایڈ، شہریت سے متعلق آرڈرز پر عملدرآمد روک دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
امریکی عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کے یو ایس ایڈ کے ہزاروں کارکنوں کو چھٹی پر بھیجنے اور شہریت سے متعلق آرڈرز پر عمل درآمد روک دیا۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق ایک وفاقی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ارب پتی معاون ایلون مسک کے امریکی ایجنسی برائے عالمی ترقی کو ختم کرنے کے منصوبے کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے ایجنسی کے ہزاروں ملازمین کو ملازمت سے نکالنے کے منصوبے کو عارضی طور پر روکنے کا حکم دے دیا۔
پہلی مدت صدارت میں ٹرمپ کے تعینات کردہ امریکی ڈسٹرکٹ جج کارل نکولس نے بھی اس حکم پر عمل درآمد روکنے سے اتفاق کیا جس کے تحت حکومت یو ایس ایڈ کے ہزاروں بیرون ملک مقیم ملامین کو انتظامیہ صرف 30 دن کی انتظامی چھٹی دینا چاہتی تھی تاکہ وہ اپنے خاندانوں کو سرکاری خرچ پر واپس امریکا منتقل کیا جا سکے۔
جج نے کہا کہ ان اقدامات سے امریکی ورکز، ان کے شریک حیات اور بچوں کو غیر ضروری خطرے اور اخراجات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری جانب سیئٹل کے ایک وفاقی جج نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کردیا جس میں پیدائشی حق شہریت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
عدالت نے مبینہ طور پر کہا کہ ٹرمپ آئین کے ساتھ "پالیسی گیم" کھیلنے کے لیے قانون کی حکمرانی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکی ڈسٹرکٹ جج کا ابتدائی یہ حکم میری لینڈ کے وفاقی جج کی جانب سے اسی طرح کا حکم جاری کرنے کے بعد بڑے امیگریشن کریک ڈاؤن کے حوالے سے امریکی قانون میں تبدیلی کی ٹرمپ کی کوششوں کو دوسرا بڑا قانونی دھچکا ہے۔
سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق سیئٹل میں ہونے والی سماعت کے دوران جج نے کہا یہ بات پہلے سے زیادہ واضح ہو گئی کہ ہمارے صدر کے لیے قانون کی حکمرانی پالیسی اہداف کی راہ میں رکاوٹ ہے، ان کے مطابق قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے چاہے وہ سیاسی یا ذاتی فائدے کے لیے ہو۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
معاہدہ ہوگیا، امریکا اور چین کے درمیان ایک سال سے جاری ٹک ٹاک کی لڑائی ختم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا اور چین کے درمیان ٹک ٹاک پر جاری ایک سال سے زائد پرانا تنازع بالآخر ختم ہوگیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو اعلان کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت ٹک ٹاک امریکا میں کام جاری رکھے گا۔ اس معاہدے کے مطابق ایپ کے امریکی اثاثے چینی کمپنی بائٹ ڈانس سے لے کر امریکی مالکان کو منتقل کیے جائیں گے، جس سے یہ طویل تنازع ختم ہونے کی امید ہے۔
یہ پیش رفت نہ صرف ٹک ٹاک کے 170 ملین امریکی صارفین کے لیے اہم ہے بلکہ امریکا اور چین، دنیا کی دو بڑی معیشتوں، کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی کو کم کرنے کی بھی ایک بڑی کوشش ہے۔
ٹرمپ نے کہا، “ہمارے پاس ٹک ٹاک پر ایک معاہدہ ہے، بڑی کمپنیاں اسے خریدنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔” تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ انہوں نے اس معاہدے کو دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند قرار دیا اور کہا کہ اس سے اربوں ڈالر محفوظ رہیں گے۔ ٹرمپ نے مزید کہا، “بچے اسے بہت چاہتے ہیں۔ والدین مجھے فون کرکے کہتے ہیں کہ وہ اسے اپنے بچوں کے لیے چاہتے ہیں، اپنے لیے نہیں۔”
تاہم اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ریپبلکن اکثریتی کانگریس کی منظوری ضروری ہو سکتی ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جس نے 2024 میں بائیڈن دورِ حکومت میں ایک قانون منظور کیا تھا جس کے تحت ٹک ٹاک کے امریکی اثاثے بیچنے کا تقاضا کیا گیا تھا۔ اس قانون کی بنیاد یہ خدشہ تھا کہ امریکی صارفین کا ڈیٹا چینی حکومت کے ہاتھ لگ سکتا ہے اور اسے جاسوسی یا اثرورسوخ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد میں ہچکچاہٹ دکھائی اور تین بار ڈیڈ لائن میں توسیع کی تاکہ صارفین اور سیاسی روابط ناراض نہ ہوں۔ ٹرمپ نے یہ کریڈٹ بھی لیا کہ ٹک ٹاک نے گزشتہ سال ان کی انتخابی کامیابی میں مدد دی۔ ان کے ذاتی اکاؤنٹ پر 15 ملین فالوورز ہیں جبکہ وائٹ ہاؤس نے بھی حال ہی میں اپنا سرکاری ٹک ٹاک اکاؤنٹ لانچ کیا ہے۔