امریکا میں 23 ارب کا ہوٹل صرف 2700 روپے میں فروخت کیلئے پیش
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
ڈینور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 فروری2025ء)امریکی ریاست کولوراڈو کے دارالحکومت ڈینور میں 9 ملین ڈالر (23 ارب سے زائد)کا ایک ہوٹل صرف 10 ڈالر(2700 روپی)میں فروخت ہورہا ہے جس پر سوشل میڈیا صارفین نے حیرانگی کا اظہار کیا ہے۔غیر ملکی رپورٹ کے مطابق اس انتہائی کم قیمت کے پیچھے ایک شرط بھی رکھی گئی ہے وہ یہ کہ خریدار کو پوری عمارت کی تزئین و آرائش اور بے گھر افراد کے لیے ہوٹل کو رہائش گاہ میں تبدیل کرنے پر رضامند ہونا ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق ڈینور شہر نے سال 2023 میں Stay Inn کے نام سے ایک سابقہ ہوٹل 9 ملین ڈالر میں خریدا۔ شہر نے چند چھوٹی اصلاحات کیں، لیکن عمارت پر تاحال بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے۔ دراصل یہ شہر بے گھر افراد کی مدد کرنا چاہتا ہے، اس لیے یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ جو بھی ہوٹل خریدے وہ اسے ایک رہائش گاہ میں تبدیل کر کے بے گھر افراد کی مدد کرے۔(جاری ہے)
رپورٹ میں کہا گیا کہ اس منفرد ڈیل نے دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے، جس سے بہت سے لوگوں کو اس بات کے بارے میں تجسس پیدا ہو گیا ہے کہ ہوٹل کی تزئین و آرائش اور بے گھر افراد کو انتہائی ضروری مدد فراہم کرنے کے چیلنج کا مقابلہ کون کرے گا۔
ڈینور کے ہائوسنگ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان ڈیرک ووڈبری کے مطابق ہوٹل کی تزئین و آرائش کے لیے ایک ڈویلپر کے انتخاب کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ وہ درخواست دہندگان کا جائزہ لے رہے ہیں اور پھر اپنی تجویز سٹی کونسل کو منظوری کے لیے بھیجیں گے۔ڈیرک ووڈبری نے ایک ای میل میں کہا کہ ہم پر امید ہیں کہ ہوٹل کو معاون رہائش میں تبدیل کرنے کا راستہ تلاش کر لیں گے، جو واقعی ہماری کمیونٹی کی مدد کرے گا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بے گھر افراد
پڑھیں:
امریکا اور اسرائیل کا غزہ جنگ بندی مذاکرات سے اچانک انخلا، حماس پر نیک نیتی کی کمی کا الزام
دوحہ: امریکا اور اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری غزہ جنگ بندی مذاکرات سے اچانک اپنے وفود واپس بُلا لیے ہیں۔ ان مذاکرات میں مصر اور قطر ثالث کے طور پر شریک تھے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب حماس نے اپنی تجاویز پر مبنی ردعمل جمع کرایا۔ اس کے فوراً بعد اسرائیل اور امریکا نے اپنے نمائندے مشاورت کے لیے واپس بلانے کا اعلان کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کے مطابق، مذاکرات کاروں کو حماس کے جواب کے بعد واپس بلا کر صورتحال کا ازسرِنو جائزہ لینے کی ضرورت محسوس کی گئی۔
امریکی نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف نے ایک بیان میں کہا کہ "ثالثوں نے بہت کوشش کی، لیکن ہمیں حماس کی طرف سے نہ نیت نظر آئی اور نہ سنجیدگی۔ اب ہم یرغمالیوں کی واپسی اور غزہ کے عوام کے لیے پائیدار حل کے متبادل طریقوں پر غور کریں گے۔"
اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت جنگ بندی کی حامی ہے، لیکن ان کے مطابق حماس جنگ کے خاتمے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق حماس نے بدھ کے روز جنگ بندی معاہدے کا جواب پیش کیا تھا، جس میں انہوں نے بعض شقوں میں ترامیم کی تجاویز دی تھیں، جن میں امداد کی رسائی، اسرائیلی فوجی انخلا والے علاقوں کے نقشے، اور مستقل جنگ بندی کی ضمانتیں شامل تھیں۔
دو ہفتوں سے جاری ان مذاکرات میں کسی بڑی پیش رفت کا اعلان نہ ہونے کے بعد یہ اچانک انخلا خطے میں مزید بے یقینی کو جنم دے رہا ہے۔